فکری بحثیں

 

دنیا میں گذشتہ بیس پچیس برس سے بنیادی اور مخاصم نظریات کی کوئی لمبی چوڑی بحث موجود نہ رہی۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد فلسفہ کے اہم ترین نکات، اور سماج کے اندر بنیادی تضادات پہ وسیع اور کثیر گفتگو مفقود ہوتی گئی۔

گذشتہ دو ہائیوں سے مزدور تحریک تو چھوڑیے عام ٹریڈ یونین ازم بھی ٹی بی کا شکار ہواہوا ہے۔ کسانوں کی بھی منظم ناراضگی تو چھوڑیے کوئی خود رو ابھار بھی وقوع پذیر نہ ہوا۔ کھیت اور فیکٹری میں کوئی حرکت، کوئی سُر پُر نہیں ہورہی۔ یہی دو جگہیں تو کار خانے ہیں نظریات بنانے کے۔سب جانتے ہیں کہ زراعت میں جاگیردار اور کسان کے بیچ ایک ”اِن بلٹ جھگڑا“ موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح فیکٹری کے اندر مالک اور مزدور کے مفادات ایک دوسرے کے اُلٹ ہوتے ہیں۔ یہی تضاد سماجی بے آرامی کو جنم دیتا ہے۔ اسی بے آرامی سے نظریات تشکیل پاتے ہیں۔ اور یہی نظریات اپنے کھردرے پن کواپنے اپنے دانشور کے ہاتھ سے پالش کرواتے ہیں۔ چونکہ نظریات کی رحمِ مادر اور بنیا د ہی کھوکھلی ہوچکی ہے تو مزدور اور کسانوں کی تحریک کے نظریات پہ بحث اور جدوجہد کُندتو پڑ نی ہی تھی۔ کیونکہ نظریات کا لیبر روم ہی بکھرا اجڑا پڑا ہے اس لیے فکری نظریاتی مباحث گاہیں جنوں بھوتوں کی آماجگاہیں دِکھتی ہیں۔ وہاں کچھ ہوگا تو فکری دنیا متحرک رہے گی۔لیکن اُدھر تو ایسی خشک سالی رہی کہ لگتا ہے معاشی بنیاد پہ سماج کی پولرائزیشن ہی ختم ہوچکی ہے۔ بقول یوسف عزیز مگسی: جمود ایسا کہ آثارِ زندگی مفقود۔

کوئی کچھ بھی کہے، کوئی کچھ بھی لکھے، کوئی کچھ بھی سمجھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک طبقاتی سماج میں بنیادی اور متصادم طبقاتی نظریوں کا موجود ہونا لازمی ہے۔اور یہ مخالف نظریات اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک کہ استحصال حتمی طور پر شکست کھا کر معدوم نہیں ہوتا۔

سماج میں استحصال توموجود ہے، اُس کے حق اور مخالفت میں نظریات بھی بہر حال موجود ہیں۔مگر ایک فریق یعنی استحصال سے پاک معاشرے کے قیام والا فریق،نفسیاتی شکست میں دوبارہ ابھرنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ اس حد تک پست ہمت ہوچکا ہے کہ اپنی سو دو سو سالہ شاندار تاریخ تک پہ بھی بات نہیں کرتا۔ وہ مٹیریلزم اور جدلی سائنس سے دستبرداری کی حد تک پالتو بن چکا ہے۔چنانچہ منافع ومستی والا نظریہ یک طرفہ دندنا تا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر افریقہ تک کوئی ابھار کوئی ناراضگی کا اظہار سماج کی پیشانی پہ کوئی بَل موجود نہیں ہے۔

دانشور توسماج کا آئینہ ہوتا ہے۔وہ الگ سے، آسمان سے نہیں اترتا۔ نہ ہی وہ کوئی گونگا، اندھا، بہرا، اور غیر جانبدار روبوٹ ہوتا ہے۔وہ سماجی مخاصمتوں، تضادات اور ہلچل کا مفسرومبصر وراہنماہوتا ہے۔ وہاں ہل چل ہوگی، وہاں حرکت ہوگی تو دانشور کا دماغ اور قلم چلیں گے۔

۱ نظریات اور نظر یاتی بحثیں کسی سماج کو سنجیدگی دیتی ہیں۔ بردباری، یکسوئی اور شعور عطا کرتی ہیں۔۔۔ عوام الناس کو عقل دیتی ہیں،دماغ کو فکر کرنے پہ لگا دیتی ہیں۔اور یوں،مظلوموں محکوموں کی جدوجہد استدلالی سائنسی طرز اپنا لیتی ہے۔ مگر جب یہ بحثیں بڑے پیمانے پر نہیں ہورہی ہوں تو پھر سوچنے اور فکر کرنے والے بھی دیگر کاموں میں لگ جاتے ہیں۔

بنیادی نظریاتی بحث نہیں ہورہی تو کیا ہورہا ہے؟۔ وجودیت ہورہا ہے، جدیدیت ومابعد جدیدیت ہورہا ہے۔ ساختیات وپس ِ ساختیات ہورہا ہے۔داخلیت پسندی اور اضافیت پسندی ہورہی ہے، ٹراٹسکی اورسبالٹرن ہورہا ہے، گرامچی اور ماؤ ازم ہورہا ہے۔اور یہ صورت صرف یورپ اور امریکہ کی نہیں بلکہ وہاں سے لے کر بلوچستان یونیورسٹی تک یہ ”ٹائم پاسی“ جاری اور ساری ہے۔ نہیں ہورہی توجدلی و تاریخی مادیت پہ بحث نہیں ہورہی، قدر زائد پہ بات نہیں ہورہی۔

ایسی بحثیں نہ ہورہی ہوں تو یقین کرلیں کہ وہ سماج فاشزم میں ہے، یا تیزی کے ساتھ فاشزم کی طرف جارہا ہے۔فاشزم ایک ہمہ جہت نظام ہوتا ہے۔اور یہ صرف ترقی پذیر سماجوں تک محدود نہیں ہوتا۔

ہم نے دیکھا کہ گذشتہ تین دہائیوں میں کلاس سٹرگل بہت باریک اور لاغر رہی ہے۔چنانچہ اِس وقتی جمود میں ورکنگ کلاس کے حامی دانشور نے دو چیزوں پہ توجہ دیے رکھی۔ ایک تو اُس نے سنجیدگی کے ساتھ نئی سائنسی دریافتوں کو سماج کی تبدیلی کے اوزار کے بطور دیکھنا شروع کیا۔ بالخصوص ترقی یافتہ یورپ اور امریکہ میں مزدوروں کے دانشور اور پارٹیاں ان نئے امکانات کا جائزہ لیتی رہی ہیں۔

اُن کی دوسری توجہ اس بات پہ رہی کہ نجاتِ انساں کی تحریک کی مسخ کردہ تاریخ کو دوبارہ لکھا جائے تاکہ بورژوا دانشور کے بیان کے برخلاف دنیا کو یہ دکھایا جائے کہ غیر طبقاتی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والے وحشی اور ڈائن نہیں رہے۔ بلکہ وہ تو اشرف سے اشرف انسان رہے ہیں۔ یہ بھی کہ،منصفانہ سماج کے قیام کے لیے انسان کی جدوجہد کی تاریخ طویل بھی ہے اور خونچکاں بھی۔اب تک دشمن اُسے توڑتا مروڑتا رہا ہے۔ اب خود ہی اِسے دیکھنے لکھنے کی ضرورت ہے۔

اور اِس سلسلے میں انسانی تاریخ بہت امیر ہے۔ کتنے سپارٹیکس گنوائے جائیں، کتنے وکٹر ہارا کتنے، گل خان اور کتنے نرودا فہرست میں ڈالے جاسکتے ہیں۔ ہیروؤں کی ایک لڑی موجود ہے۔باوقار اور پُر افتخار کامیابیوں کا ایک صخیم رجسٹر موجود ہے۔۔۔ اور اس رجسٹر میں ”آخری اندراج“ کاکوئی خانہ ہے ہی نہیں۔

روشن فکر ی کے مخالف نظریات کے دانشور بدی کے ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ لوٹ مار اور ہڑادھڑی والے حالات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ ساختیات و وجودیت ومابعد جدیدیت وسوریالزم کھیل کھیل کر باقی سارا وقت روشن فکروں پہ تنقید ہی پہ لگائے رکھتے ہیں۔ ابھی دیکھو تو وہ اسامہ وحافظ سعید کے ترجمان ہیں اور اگلی ہی گھڑی کاسٹرو اور کبرال بن جاتے ہیں۔ ابھی دیکھو تو دو قومی نظریے سے مستفید ہورہے ہیں اور ضرورت پڑنے پہ آن کی آن میں چار قومی سیاست کے پولٹ بیورو کے ممبربن جاتے ہیں۔

پاکستان میں وہ ہمیشہ ہوائی جذبات ابھارنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے سماج کو گذشتہ تیس برس سے دو نکات کے حق اور مخالفت میں الجھائے رکھا گیا ہے: ڈکٹیٹر شپ اور جمہوریت۔آپ تصور نہیں کرسکتے کہ ڈکٹیٹر شپ کی توصیف میں بھی اُن کے پاس بہت نکاط ہیں۔ وہ ڈکٹیٹر شپ کی قسمیں گنواکر کچھ قسموں کی تعریف کریں گے۔ بات بننی مشکل نظر آئی تو اُسی فوجی آمریت کو ساری خرابیوں کا جڑ قرار دیکر وہ آن کی آن میں جمہوری بن جاتے ہیں۔ اب پھر ساری اچھائیاں جمہوریت کی بیان کی جاتی ہیں۔ مگر یہ دونوں نقاط بیان کرتے ہوئے وہ معیشت کا ذکر نہیں کریں گے۔ آبادی کی اکثریت کے بھوک، افلاس اور لوٹ مار و بے عزتی کی سنگین صورتحال کا ذکر نہیں کریں گے۔ وہ ضیا اور بھٹو کے گرد ساری بحث کو الجھا کر ستر سال ہنڈا گئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی روباہی نہیں ہے۔ یہ تو بہت فنکارانہ حکمتِ عملی ہے۔

جب ایک قوم کی وسیع زندگانی کو محض ضیائیت وبھٹو ئیت، یامشرفیت و شریفیت کے دونکات میں بند کیا جائے تو یہ مہااستادی ہے۔ باقی سارے موضوعات گول ہوجاتے ہیں۔

کبھی یہ لوگ پلاننگ کے تحت سارے مسائل کا حل آزاد عدلیہ (طبقاتی) میں بتاتے ہیں۔ حتی کہ عوام کے معاشی مسائل کا حل بھی چوہدری افتخار کے ترازو کو جتایا گیا۔ حالانکہ باہم آگ اور پانی (ضیا اور بھٹو)دونوں ایک بات پہ منفق تھے: سوشلزم کا راستہ روکنا۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے ہوئے بھی اِس کام کو اپنے کریڈٹ میں گنواتے جاتے تھے۔ یعنی ریاست کی طبقاتی نوعیت نہ بدلتے ہوئے لوگوں کو کبھی نیل سے کاشغر کی فرضی چوکیداری پر ڈال دیا جائے یا پھر آئین میں بنیادی طبقاتی تبدیلیاں کیے بغیر دو چار ججوں کے ہاتھوں ریاست کو ماں ثابت کیا جائے۔ اورڈیل اور کرپشن کی بحثوں کو تا قیامت دوام دیا جائے۔

ان ساری فروعی اور غیر بنیادی باتوں کا ایک نتیجہ نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ اِدھر اُدھر لگا کر دراصل یہ لوگ آبادی کو ”سیاسی طور پر بے شعور“ بنائے رکھتے ہیں۔ سیاسی بے شعور نہ کچھ سنتا ہے، نہ کچھ دیکھتا ہے، اور نہ سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتا ہے۔ اسے جاننے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ دال، آٹا،اور دوائی کتنی مہنگی ہوگئی ہے۔ وہ اچھا بھلا ادیب و دانشور کہلواتا ہوگا مگر سینہ پھلا کر فخر سے کہتا ہے کہ ”مجھے سیاست سے نفرت ہے“۔۔ اور سچی بات یہ ہے کہ محض اِس فقرے سے ہی گلیوں میں بے سہارا بچوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، عصبت فروشی فروغ پاتی ہے، ڈاکے چوریاں قتل بڑھ جاتے ہیں اور بقول بریخت کے استحصالی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے دُم چھلے کرپٹ افسر“ زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس ایک ہی فقرے سے سیلف رومانٹسا ئزڈ تنہا پسندی بڑھتی ہے۔

۔۔ اور اس فقرے کو بڑی منصوبہ بندی سے مقبول بنایا جاتا ہے۔

چنانچہ غریبی امیری کا بنیادی معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔ بس پیروں جاگیرداروں سرداروں اور ٹکنوکریٹوں کے طبقے اقتدار کی لیلی سے کھیلتے رہے۔ تختے خواہ الٹے گئے یا ووٹ کی پرچی بہانہ بنا، حاصل حصول ہمیشہ یہ نکلاکہ زرعی اصلاحات نہ ہونے دی گئیں۔ آئی ایم ایف کے ادھار کی واپسی سے انکار کے راستے بند کردیے گئے۔ غیر پیداواری اخراجات کم نہ ہوئے۔ اور طبقاتی لوٹ مار کی حکمرانی کا ڈھانچہ نہ بدلا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*