نئے لوگ، پرانے نظام

 

کیا ایسا نہیں کہ ہم سب کا کوئی نا کوئی ایسا سرکاری کام ضرور ہے جس کے مکمل ہونے کا آپ کو پچھلے چند ماہ سے انتظار ہے؟ یا آپ نے اکثر میٹرک سے ماسٹرز تک کے طلباء وطالبات کو نوکری کیلئے درخواستیں جمع کرتے اور انہیں نوکریوں کی ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے چھ آٹھ یا بارہ مہینہ انتظار کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ کہی بار تو سیخ پا ہوکر سرکاری کاموں کو انجام تک نا پہنچنے پر بے چارے افسروں کو گالیاں ملتے سنا بھی ہوگا۔ بلکہ دی بھی ہوگی؟ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو کام چند دنوں یا گھنٹوں میں ہو سکتی ہے وہ سالہا سال مکمل ہونے کا نام تک نہیں لیتا؟ کوئی شک نہیں کہ آج اور اب بھی آپکی کوئی سرکاری کام اپنے انجام تک پہنچنے کے لئے اپنی وقعت اور اہمیت کھو کر انتظار سے دم تھوڑ رہا ہے؟ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ ایسا نہیں ہونا چائیے تھا مگر ہو کیوں رہا ہے؟ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں جہاں پلک جھپکتے ہی انسان میلوں کا سفر طے کرچکا ہوتا ہے، جہاں اب مہینوں کے کام دنوں میں اور دنوں کے کام گھنٹوں اور منٹوں تک ہی محدود ہوکر رہہ گئی ہو وہی ہم ٹیکنالوجی کے اس دور جدید میں تیز ترین، ترقی یافتہ اور خوشکن ٹیکنالوجیکل دائرے سے باہر آج بھی مر مر کے کسی ایسے کام کے ہونے کی انتظار کرتے ہیں جو انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی شاید اپنی اہمیت بھی کھو بیٹھی ہو! کیا آپکو بھی ایسا نہیں لگتا کہ سرکاری اداروں کے بجائے پرائیویٹ اداریں ہمارے لئے مفید اور کارگر ثابت ہورہیں ہیں؟ ہمیں سترہ گریڈ کے آفیسر سے زیادہ پندرہ ہزار روپئے پہ کام کرنے والا ایک شوخ و شنگ لڑکے کی خدمات حاصل کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہوگی جس پر عوام الناس کی خدمت گزاری کا زمہ اور فرض بھی تو نہیں۔ مگر پھر بھی ہمیں سرکاری اداروں سے زیادہ پرائیویٹ اداروں سے خدمات حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ آج پتہ لگنے ہی لگا کہ ہمیں سرکاری دفتروں سے گن کیوں آنے لگتی ہے، کیونکہ جہاں جو کام تین دنوں میں ہوسکتی ہے وہی کام یا کاغزات سرکاری دفاتر میں مہینوں دھول اور مٹی میں چھپی کسی آفیسر کی ہاتھوں دستخط ہونے کا منتظر ہوتی ہے جو دفتر میں موجود بھی ہے مگر کسی غیر روح دار جسم کی طرح جو کسی کام کا نہیں ہوتا۔ گوسٹ اسکولوں، ہسپتالوں اور کالجوں کی طرح گوسٹ دفاتر بھی کیوں نا کہا جائے جن میں لوگ یا تو موجود نہیں ہوتے یا تو موجود ہوکر کسی کام کے بھی نہیں ہوتے۔
یہ ستمبر 2019 کی بات ہے جب کوئٹہ سے کسی دوست کی فون کال موصول ہوئی جنہوں نے یہ زمہ داری لگاکر فون کال بند کردیا کہ جس یونیورسٹی میں آپ پڑھتے ہیں وہاں کسی کی داخلے کیلئے فارم بھر کر مجھے سلپ بھجوا دینا۔ خیر کام کرکے سلپ بھجوانے جب بازار پہنچا تو خیال آیا کہ کیوں نا چار سو بچا کر صرف پچاس روپے میں سرکاری پوسٹ آفس سے ہی کاغذات بجھوادیا جائے، پوسٹ آفس اس خدمت کیلئے ہی تو بنی ہے پھر ٹی سی ایس کیوں؟ سوچا کام بھی ہوجائے گی اور اسٹوڈنٹ لائف میں پیسے بھی بچت کر پاہونگا۔ مگر یقین مانے دو سال گزرنے کے باوجود وہ کاغزات کسی سرکاری آفیسر کی کھوٹڑی میں اسکی دستخط کے انتظار میں ہمیں ملنے سے رہہ ہی گئے۔ دو سال بعد اب بھی خیال آتا ہے کہ کاش وہ چار سو کا خیال رکھے بغیر ٹی سی ایس سے کاغزات بھجوا دیتا تو نا مجھے اتنی طویل انتظار کرنا پڑتا اور نا ہی ان بچارے کاغزات کو دھول چاٹنے کی ضرورت ہوتی۔
اس ملک کا سرکاری نظام ایسی فرسودہ، دقیانوسی اور بےکار ہے کہ کاغزات، آرڈرز، پیسے یا کچھ بھی اپنا معیار اور اہمیت کھو بیٹھے گا مگر مجال کہ سیدھی وقت پر اپنے موصول کرنے والے کے ہاتھو لگ جائے، جب کوئی شے ضرورت کے وقت میسر نہ ہو اسکے بعد میں ملنے یا نا ملنے کا کیا فائدہ؟ ایسا ہی کچھ ملک کے اصل اثاثہ جات یعنی 64 فیصد نوجوانوں کے ساتھ ہے جنہوں نے نوکریوں کے لیے درخواستیں جمع کرکے ایک، دو اور پھر تین برس تک انتظار کرنے کا بھی سوچ کر رکھنا ہوگا کہ شاید کہی ان نوکریوں کا اتا پتہ ہو، شاید اس نوکری کے لئے اسے بلا لیا جائے یا پھر بھلا ہی لیا جائے! یا پھر اتنی دیر لگادی جائے کہ اسے ہی اس نوکری کو بھلانے پر مجبور کیاجائے۔ ایک دوست کہہ رہیں تھے کہ اس کے کمائی سے زیادہ ہزاروں روپے تو صرف نوکریوں کیلئے کاغزات جمع کرنے صَرف ہوئے ہیں۔ تو بلا یہ کونسی نظام ہے جو نوکری تو نہیں دیتی مگر جیب میں رکھیں چار آنے پر مشتمل پیسوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔
کیا پرائیویٹ اداروں کی طرح سرکاری طور پر بھی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹنگ سسٹم رائج نہیں کیا جاسکتا؟ اس دور جدید میں جہاں دنیا ٹیکنالوجی سے بائیوٹک کی طرف قدم بڑھا رہی ہے اور ہم وہی دقیانوسی زمانے کے رجسٹرز پر چار لکیریں کھینچ کر لوگوں کا نام لکھتے جاتے ہیں جس کے بعد پتہ و نام بھی مٹی کے ڈھیر تلے زیر ہوجاتے ہے اور رہہ جاتا ہے تو بس انتظار۔ عوام کی جان تو مہنگاہی، بےروزگاری اور سیاست میں رکھی خالص جھوٹ نے نکال دی ہے اور اوپر سے یہ ادارے، انتظار اور وہ نظام جس میں بیٹھے لوگوں کو خود بھی اس سے گِن آنے لگتی ہے۔
اگر ہمارے ادارے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ٹھیک سے آگے بڑھے اور نئے نظام متعارف کروائے، تبدیلی کے ساتھ ہی خود کو بدل دیں تو شاید یہ ملک کی مستقبل کیلئے ایک انوکھی تدبیر ثابت ہو۔ وگرنہ حکمران سوتے رہیں، آفیسر حضرات گھوسٹ دفتروں میں نخریں دکھائے اور عوام انتظار میں گالم گلوج کرتے ہوئے تھکے ہارے زندگی بسر کریں۔۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہوگا! کسی کا کچھ بھی تو نہیں بگڑتا نا!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*