غزل

 

گرد، صحرا، غم، بگولے، پیاس، ہجراں اور ہم
ہر طرف  تنہائی کی چیخیں اداسی آنکھ نم

اور  کتنا   انتظارِ  صبح   کرنا  ہے   ہمیں
اور کتنی دیر  ٹھرے گی  یہاں یہ شامِ غم

اِک ادا  کافی ہے  میرے  ہوش اڑانے کے لئے
آنکھ سے ساغر سےلب سے یاپلادے جامِ جم

دیکھیئے  ہوتے ہیں آگے  اور کیا کیا  حادثے
وحشتِ دل  کو  بڑھا دیتا ہے  ہر اگلا  قدم

عشق پربھی آنچ نا آئے سنبھل کر یوں چلیں
حسن کا بھی راہ میں  شوہاز رہ جائے بھرم

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*