غزل

ساعت نا مہرباں کا خوف ہے

ایک مرگِ ناگہاں کا خوف ہے

 

رنج پھولوں کے بکھرنے کا نہیں

ہم کو خوشبو کے زیاں کا خوف ہے

 

لوگ بازی ہار بیٹھے جان کی

آپ کو اپنی دکاں کا خوف ہے

 

کارِ ہستی ہو یا کارِ نیستی

آپ کو سود و زیاں کا خوف ہے

 

ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جب

پھر کہاں کا ڈر کہاں کا خوف ہے

 

نیّتِ چارہ گراں اپنی جگہ

یاں تو قلبِ ناتواں کا خوف ہے

 

ایک ان دیکھی بلا سے بھی سوا

واعظِ شعلہ بیاں کا خوف ہے

 

جیتے جی کم بخت نے مارا ہمیں

کس قدر اس ایک جاں کا خوف ہے

 

اک دہانے سے ابھی نکلے نہیں

دوسرے آتش فشاں کا خوف ہے

 

دل سے یادِ رفتگاں رخصت ہوئی

اس قدر آئندگاں کا خوف ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*