امداد حسینی کی شاعری

 

(دھوپ کرن کے تناظر میں)

امداد حسینی کی شاعری تعکف و تصنع سے دور ایک سچے جذبوں کی ترجمان شاعری ہے۔ ان کے اشعار محض خانہ پری کے لئے نہیں، بلکہ اپنے طرز احساس، رنگ فکر، اور پیرائیہ اظہار میں نئے سماجی عوامل کی صورت گری کرتے ہیں۔ ایک مخصوص دائرے سے نکل کر جیتی جاگتی زندگی کی تصویریں اور اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کے مشاہدہ و تجربہ کی جھلکیاں ان میں باآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ’ دھوپ کرن ‘کے شاعر کا ادبی اور معاشرتی شعور گہرا ہے اور اسے پیشکش کا ایسا فن حاصل ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس گہرے شعور نے امداد حسینی کی شاعری کو فکری توانائی عطا کی ہے۔

امداد حسینی نے شاعری کی تینوں اصناف نظم، غزل اور وائی کو یکساں قدرت سے استعمال کیا ہے۔ ان کا یہ کمال ہے کہ خارج اورباطن کی دو دنیاؤں میں آہنگ اور توازن کو انہوں نے تینوں اصناف میں نہایت فنکارانہ مہارت سے اس طریقے سے برتا ہے کہ ان کی شاعری چند موضوعات میں محدود ہونے کے باوجود یکسانیت سے گراں بار نہیں ہوئی۔ ان کی شاعری میں صحت مند جذبہ عشق کے ساتھ ساتھ بالغ نظر انسانیت کا تصور بھی ملتا ہے۔ان کا جذبہئ محبت ان سے جہاں ’بہانا‘،’کہانی‘، ’اشک بوند‘، ’چاہتا ہوں کہ‘، جیسی نظمیں کہلواتا ہے، وہیں ان کی نظمیں، غزلیں اس انسانی المیے کو بھی اجاگر کرتی ہیں جو انسانی درد مندی سے پیدا ہوتا ہے۔’سندھ ایسا تو نہیں تھا‘،’آخر ہم‘، (فلسطینی بچے کے حوالے سے) ’بے حسی‘،’نصیب‘،’ایک کتھا‘ جیسی نظموں میں درونِ دل سے ابھرنے والی صدائے احتجاج اور گہری کسک محسوس ہوتی ہے۔ کہیں کہیں وہ صورت حال کو سامنے رکھ کر سوال قائم کرتے ہیں۔ خود ایک جگہ انہوں نے لکھا بھی ہے:

’سوال مت بنو، خودہی سوال کرو‘۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس پورے اظہار میں لہجہ زہر خند اور کھردرا نہیں ہوپاتا، البتہ زیریں سطح پر معاشرے کے اخلاقی زوال پر عدم اطمینان موجود ہے۔امداد حسینی کے ہاں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف ہے۔ وہ قاری کی روح کو ٹٹولتے ہیں اور اسے جمال فطرت کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اس کی اہمیت بتلاتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’ذرا ڈھونڈنا‘کا مطالعہ اہم ہے۔

جہاں تک امداد حسینی کے اسلوب شعر کا تعلق ہے تو ان کی شاعری کے مطالعے سے پیدا ہونے والا عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ پر جلال آواز سے گھن گرج پیدا کرنے کے بجائے شعر میں نرمی، گھلاوٹ اور درد کی رسیلی کسک شامل کرنے کے زیادہ قائل ہیں۔یہی اسلوب کی تازہ کاری ہے جس کی مدد سے انہوں نے اردو شاعری کا تعارف مضامین نو سے کرایا ہے۔ امدا د حسینی کی شاعری کی قیمتی اساس سندھ دھرتی سے محبت کا جذبہ ہے، انہوں نے اردو شاعری میں سندھ دھرتی کا رس شامل کرکے اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ نیز سندھی لفظیات اور مقامی رنگوں کی خصوصیات سے اردو شاعری کو آشنا کیا ہے۔ یوں ان کی شاعری اپنا مخصوص انفرادی مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ دلکش پیرائیہ بیان بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے جس خوبی سے غزل اور نظم کو مقامی رنگ و آہنگ سے روشناس کراتے ہوئے سندھی کے ذخیرہ الفاظ سے استفادہ کیا ہے، وہ ناگوار نہیں بلکہ پر کشش اور متوازن ہے۔ سندھی زبان کی آمیزش سے اور پرکارانہ استعمال نے ان کی شاعری میں دریائے سندھ کی سی روانی اور آب و تاب پیدا کردی ہے۔ غزل کا شعر:کانئر کی آنکھ میں آب نہیں، سندھو کے جر کی خیر نہیں، کینجھر، منچھر، ہالے جی کی، سندھو ساگر کی خیر نہیں۔

نظم کا یہ ٹکڑا دیکھئے:

لیکن او کانئر

لیکن او گیدی

تیرے اندر کی آنکھ مر چکی ہے

تیرے سینے میں

دل دانگی ہے

تم اس دانگی کی کا لک

میرے چہرے پر کیوں ملتے ہو!

الغرض امداد حسینی کی شاعری میں سندھی ثقافت کا ذائقہ اپنی پوری مٹھاس کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔ ہر زندہ زبان کیلئے ضروری ہے کہ وہ دوسری زبانوں سے استفادہ کرتی رہے۔ یہی کلیہ اس کے ادب پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں تخلیقی تجربے کی اس لسانی روش کو اسلوب کی سطح پر برتنے کی کوشش قابل ستائش ہے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*