راسپوٹین

    روس میں کرسچین مذہب کے اندر ایک خفیہ فرقہ تھا جس کا نام (خیلستی)  تھا۔ اُس  فرقے کے خلاف دوسرے کرسچینوں نے نفرت انگریز الزامات مشہور کر رکھے تھے۔ میں اِن الزامات کو پڑھ کر بہت حیران ہوا۔ اس لیے کہ یہی الزامات آج بھی، اور ہمارے ہاں ایک فرقہ دوسرے کے خلاف لگاتا رہتا ہے۔ اس فرقے والوں پر یہ الزام تھا کہ وہاں عورتیں اور مرد اکٹھے عبادت گاہ میں جمع ہوتے۔ وہ اپنی مذہبی عبادت کے دوران ننگے ہوجاتے ہیں، اور اسی حالت میں وحشیانہ رقص کرتے ہیں اور اُس کے بعد اجتماعی جنس کرتے ہیں۔

ظاہر ہے اس طرح کے پروپیگنڈے عام کرسچینوں میں اُن کے خلاف نفرت اور غصہ پیدا کرتے۔ اور چونکہ ہر نئے فرقے کا سب سے بڑا مخالف حکومت ہوتی ہے اس لیے پولیس اور سرکار انہیں بدترین سزائیں دیتی۔

کہتے ہیں کہ گریگوری راسپوٹین اسی فرقے کا پیروکار تھا۔ وہ سائبیریا کا رہنے والا تھا۔ ایک کسان پادری!۔اپنے فرقے کو پھیلانے کے لیے وہ بہت سفر کرتا تھا۔ یوں وہ سینٹ پیٹرسبرگ آیا اور وہاں چرچ اور مقامی لیڈروں میں سے کچھ کو متاثر کیا۔اس لیے کہ مشہور کیا گیا کہ اُس کے پاس علاج معالجے کی قوت موجود ہے۔ یوں وہ سوسائٹی میں نمایاں بنا اور پھر روس کے بادشاہ سے اس کی ملاقات ہوئی۔

بادشاہ اور ملکہ کا اکلوتا بیٹا ہیمو فلیا کا مریض تھا۔ اُس کا خون جب بہنے لگتا تو بہت مشکل سے رکتا تھا۔راسپوٹین اُس کا روحانی معالج بن بیٹھا۔ اُس کے دم کرنے اور بچے پر تھوکنے سے بچے کا خون بہنا بند ہوجاتا اور بچہ شانت ہوجاتا۔چنانچہ شاہی جوڑا اسے ”پاک آدمی“ سمجھتا تھا۔ اُن کے خیال میں اسے خدا کی طرف سے بھیجا گیا تاکہ وہ تخت کے وارث ننھے ”ولیعہد“کے ہیموفیلیائی بہتے خون کو اپنی معجزانہ صلاحیت سے روک دے اور سلطنت کو بچائے۔ اپنے ہپنانزم والے علاج کی قوت سے راسپوٹین بادشاہ پر بہت اثر رکھتا تھا۔بالخصوص بادشاہ کی بیوی الیگزنڈرا پر جو کہ پہلے جرمن شہزادی تھی۔یہ افواہ بھی ملک کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی تھی کہ راسپوٹین کے ملکہ کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔کمزور بادشاہ کی مضبوط ملکہ حکومت پر زبردست اثر رکھتی تھی۔ یوں ملکہ پر زبردست اثر رکھنے والا راسپوٹین عملی طور پر حکمران تھا۔ یہ شرابی پادری وزیروں افسروں کو یہاں وہاں تبدیل کردیتا۔ اور دربار کی بیگمات کو مسمیرزم کے عمل سے اپنا گرویدہ بناتا۔   اسی لیے عہدوں اور وزارتوں کے امیدوار اُس کی خوشامد کرتے پھرتے۔ اور رشوت میں اسے شراب اور عورتیں پیش کرتے۔گوکہ وہ سب کے سب راسپوٹین کے نامزد کردہ نہیں تھے، البتہ وزیر تیزی سے لگائے اور نکالے جاتے تھے۔ اس عمل کو ”وزارتی مینڈکی اچھل کود“ کہتے تھے۔1912سے 1916میں روس کے وزیراعظم چار بار بدلے، وزیر انصاف چار بار، ایجوکیشن منسٹر چار بار، چھ سے زائد بار وزیرداخلہ۔

بہر حال بادشاہ کی نا اہلی، جنگ میں شکستیں، مہنگائی، بھوک اور عوامی بے چینی نے بادشاہ اور حکومت کے خلاف نفرت پیدا کردی تھی۔ اوپر سے راسپوٹین کے غصہ ناک رویہ اور شاہی خاندان سے اس کی قربت کی وجہ سے دربار اور حکومت کی عوامی بدنامی بہت بڑھی۔

 

راسپوٹین ادب آداب سے نا آشنا ایک شرابی اور ایک عورت باز شخص تھا۔وہ سنیٹ پیٹرسبرگ کی اعلیٰ سوسائٹی کی خواتین کا پسندیدہ شخص تھا۔

راسپوٹین بالآخر شاہی خاندان کے اپنے ایک ممبر کی طرف سے منظم کردہ قتل کی سازش کا شکار بنایا گیا۔ ارسٹو کریسی راسپوٹین کے جنسی لغویات اور سیاسی مداخلت کے تباہ کن اثرات سے مشتعل تھی۔دسمبر 1916کو اسے ایک محل میں پارٹی کے لیے بہلا پھسلا کر لے جایا گیاجہاں انہوں نے اسُے گولی مار دی اور اس کی لاش منجمد دریائے نیوامیں پھینک دیا۔۔

اس کی موت کے دوماہ بعد بادشاہت کا تختہ الٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے یہ پیشن گوئی پہلے ہی کردی تھی۔

آخری تجزیے میں راسپوتین کا معاملہ اس ٹریجڈی کا ایک مضحکہ خیز سائیڈ شو تھا جو اب کُھل رہی تھی۔ اور جس سکینڈل نے اُس کے نام کو گھیر رکھا تھا وہ مرض کی محض ایک علامت تھا، سبب نہیں تھا۔وہ اُس فوری بے اطمینانی کا نشانہ بنا جو دراصل بادشاہ اور اُس کے نظام ِ حکومت کے خلاف پھیل چکا تھا۔ روس پہ ایک نالائق، غیر مقبول اور بے اعتبار شدہ رجیم مسلط تھا۔اب ایک تباہ کن انٹرنیشنل جنگ کے کرب  میں عوام الناس بہت ایذا میں تھے۔

۔30دسمبر 1916میں صبح سویرے راسپوٹین کے قتل نے جمود کو توڑ دیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*