جام درک

      جام تفکر اور معنی آفرینی کا شاعر ہے۔  اس کے کلام میں زبردست روانی بھی موجود ہے۔اور سچی بات یہ ہے کہ زبان کی مٹھاس اُس پربس ہوگئی۔سارے کا سارا جمالیاتی حسن جیسے اُس کی شاعری میں گندھا ہوا ہو۔ ایسا تخیل، ایسی لطافت اور ایسی نغمگی اورتغزل جو کسی اور  بلوچ شاعر کے حصے میں کبھی نہ آئی۔ سوز سے بھری شاعری۔ لے اور سُر کی نمائندہ ترین شاعری۔الفاظ، استعارات اور معنویت میں روایت کا دامن سختی سے پکڑے ہوئے جام نے جدید سے، مستعار سے، خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ یوں وہ مستقبل کی پوری شاعری کو متاثر کرنے والا استادقرار پایا۔اسی لیے مست توکلی کی طرح اُس کے اِس  مرشد شاعرکی شاعری ہزاروں لوگوں کو زبانی یاد ہے۔ اچھا اُس کے بے شمار مصرعے تو باقاعدہ ضرب المثل کے بطور استعمال ہوتے ہیں۔

اوسمیں بے پولا بہشتی ئے

کہ ژہ لطیفانی پلوہ کایئے

مں گُل ئے دیما میل کثئے دوشی

بیرم و آسی سار کثو مہتوس

بو ژہ بریخاں رپتغاں وھشیں

ہجر مناں مومی اوں جننت پاساں

چو کہیرانی آڑویں آساں

بے قراراں مں نیم شفی پاساں

پہ وثی دوستئے حب و اخلاصاں

ذلتاں سہسارے دیئے جانا

نہ نہ خناں پہ دوستہ فرمانا

چو اسپراں دیمپاں منی جانئے

چابک و چشم دیذ پیکانئے

قہر املّانی گِرگریں نازاں

داں دمے گاراں داں دمے بازاں

نَیں دفہ گیڑ کہ گال کناں روشیں

نَیں مناں قذرت و مجال چوشیں

پہ دفا مہ لینجہ دِہ جان آیاں

نشتغ و دعاگو آں ہواں روشئے

وث خذا مہراں مں دلا شیفی

ایر کفی دوست اژ تنگویں تختا

بیئے رذاناں چو چاڑدہی ماہاں

مستروں بی چو اکبری شاہاں

گُڈہ اژ دُر چیڑیں دفا پُڑساں

او بدخشانی گراں بہا لالیں

مارا تئی لوغاڑیں سرئے سوغند

اِر مری گوں کپتوں اناگاہی

پرتئی شہذ و شکلیں نیاذاں

ہوں بہا باں پہ شکلیں خُلقاں

ترجمہ:

اے نسیمِ سحر تو بن حساب کتاب کے بہشتی ہو

کہ اس لطیف(محبوبہ) کی طرف سے آتی ہو

کل رات میں نے اپنی محبوبہ سے رو بہ رو ملاقات کی

بجلی چمکتی ہے میری محبوبہ نے مجھے جگا دیا

اس کی زلفوں سے خوشبو بکھرتی ہے

ہجر مجھے موم کی طرح پگھلادیتا ہے

کھیر نامی لکڑی کے جلاڈالنے والے شعلوں کی طرح

میں نیم شب بے قرار رہتا ہوں

محبوبہ کی یاد میں

اس جان لیوا درد سے کچھ تو مہلت بخش

میں دوست کے فرمان سے رو گردانی نہیں کرتا

میرا جسم مجھے بچانے کوایک ڈھال ہے

اس کی آنکھوں کے تازیانوں اور تیرو پیکاں کے لئے

قہر کیا ہے؟ محبوب کی ناز و ادا

کسی وقت کم ہیں اور پھر کبھی بہت ہیں

اس کے سامنے کبھی بول نہیں سکتا

نہ ہی میرے پاس وہ طاقت اور مجال ہے

کہ اپنے منہ سے محبوبہ سے بات کر سکوں

میں بیٹھ کر اس روز کے لئے دعا گو ہوں

جب خود خدا اس کے دل میں محبت ڈال دے

محبوب اپنے طلائی تخت سے اترے

چودھویں  کے چاند کی طرح ابھرتی آئے

بادشاہ کی طرح بڑی شان والی  بنے

پھر اُس کے موتی جیسے منہ سے پوچھوں گا

اے بد خشانی گراں بہا موتی

مجھے تمہاری لمبی زلفوں کی قسم

مجھ پر نا گاہ وارفتگی لگ گئی ہے

تمہاری شہد و شیریں صحبتوں کی آرزو میں

میں خون بہا بن جاؤں اس میٹھی مخلوق کے لئے

ایک اورشئیر جیسے ڈیمز نے چھان پھٹک کر جام درک کی شاعری کا حصہ قرار دیا، اس قدر مقبول نہیں ہے۔ یعنی اِسے میں نے مکمل، جزوی یا اُس کا ایک آدھ مصرعہ بھی بطور ضرب المثل عوام الناس کی محفلوں میں نہیں سنا ہے:

دوشی دلربائیں جانی

سرتاج و سمند کاڈانی

گوئشتوں پہ دفی پانانی

او ساہ تو مہ چر حیوانی

گردی آرواں پِھروانی

چندی عاشقاں را زیانی

کُلف و پُرشتغاں شکانی

عشق و منثہ حقانی

گوئشتوں کیغدیں سازا را

دُر چین و ہزار نازارا

پُل کندو شکر گفتارا

حال اے فقیری اِشاں

زِڑدے اژ پِراتاں ریشاں

آں کہ مالکا دوست داراں

آں ژہ مُنکراں بے زاراں

جان ئے جامواں خاکساراں

حضرتا درود کاراں

شاہیں کرد گار آثاراں

گوئفشی نیم شفاں نالاں

ترجمہ:

کل رات دلربا محبوبہ

لڑکیوں کی سرتاج و زیور

میں نے اس سے کہا

اے مری جان تُو بے مقصد نہ پھرا کر

نہ ہی جگنو کی طرح ارد گردروشنی پھیلا

اے کئی عشاق کو تباہ کرنے والی

جھجک کے تالے ٹوٹ گئے

میں نے حقیقی عشق کی بات مان لی

میں نے اپنی نازک محبوبہ سے کہا

موتی بکھیرنے والی سے ناز کرنے والی سے

مسکراتی شکر گفتار سے

مجھ فقیر کی حالت یہ ہے

دل فریادوں سے ریش ہو گیا ہے

وہ جو مالک سے پیار کرتے ہیں

وہ منکروں سے بے زار ہیں

جام تو خاکسار ہے

حضرت کا درود پڑھتا ہے

خالق کی یاد میں

نیم شب کو نالہ و فریاد کرتا ہے

 

حوالہ جات

1۔ ملک، رمضان۔ جام درک تاریخ کے آئینے میں۔نوائے وطن کوئٹہ۔ 9 نومبر 1975۔ صفحہ 7

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*