غزل

ایوانوں کا شور   سنائی دیتا ہے

حیوانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

 

زنجیروں کی آوازیں چْھو جاتی ہیں

زندانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

 

میرے اندر گْل بْوٹے سے لہکے ہیں

گْلدانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

 

اندیشوں کی سانسیں چلنے لگتی ہیں

طوفانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

 

روز دیے کی لو سے بھپکی اْٹھتی ہے

پروانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

 

شاید دل سے میر کسی نے ہجرت کی

ویرانوں کا شور سْنائی دیتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*