ایک معمولی واقعہ

پیکنگ میں آئے مجھے چھ سال ہوچکے ہیں اور یہ عرصہ آنکھ جھپکتے گذر گیا ہے۔ان چھ سالوں میں ایسے بہت سے واقعات گذرے ہیں جن کا میں یا تو چشم دید گواہ ہوں یا لوگوں سے سن رکھے ہیں۔ان واقعات میں میری کبھی بھی میری دلچسپی نہیں رہی،یہاں تک کہ انکے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو زندگی سے خائف ہوجاتا ہوں اور لوگوں سے نفرت سی ہونے لگتی ہے۔مگر ایک چھوٹا سا واقعہ جو آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گردش کرتا ہے،بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
سردیوں کے دن تھے۔ہلکی سی ہوا چل رہی تھی۔فکر معاش نے مجھے جلدی بیدار کردیا۔تیار ہوکر باہر آیا تو سارے شہر کو ویران پایا۔گلیاں سنسان نظر آئیں۔میں نے رکشہ ڈھونڈنا شروع کیا جو بمشکل آخرکار مل ہی گیا۔رکشہ والے کو ساؤتھ گیٹ چلنے کا کہہ کر میں رکشہ میں بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد ہوا کا زور کم ہوا۔راستہ میں گرد و غبار جمع ہونے لگا۔رکشہ کچھ تیز رفتار ہوا۔جیسے ہی ہم ساؤتھ گیٹ کے قریب پہنچے تو ایک سفید بالوں والی بڑھیا جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے راستہ کراس کرنا چاہتی تھی مگر اس کوشش میں رکشہ سے ٹکراتی ہوئی گر پڑی۔رکشہ والے نے رکشہ موڑنے کی بہت کوشش کی مگر عورت کا کوٹ جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے،رکشہ میں پھنس گیا اور وہ گر گئی۔اس سارے واقعے میں یہ اچھا ہوا کہ رکشہ ڈرائیور نے رکشہ فورن روک لیا ورنہ وہ عورت قلابازیاں کھاتی ہوئی جاتی اور اسکی موت بھی واقع ہوسکتی تھی۔مجھے نہیں لگتا کہ اس عورت کو کوئی نقصان پہنچا تھا۔یہ حادثہ کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا مگر جب رکشہ ڈرائیور رکشہ چھوڑ کر اس عورت کے پاس گیا تو مجھے غصہ آنے لگا۔مجھے یہ رکشہ ڈرائیور احمق اور عجیب و غریب قسم کا لگنے لگا جو فضول میں ایک مصیبت کو اپنے گلے میں ڈال رہا تھا۔میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا سفر نامکمل رہے۔
معمولی حادثہ ہے،تم چلتے رہو۔میں نے رکشہ والے کو کہا۔ شاید اس نے میری بات نہیں سنی یا سنی ان سنی کردی۔اور خاتون کے پاس جا پہنچا اور اسے اٹھنےمیں مدد کی اور اسے سہارا دےکر اٹھایا۔”آپکو چوٹ تو نہیں لگی اماں؟”رکشہ ڈرائیور نے عورت سے پوچھا۔ہاں بیٹا مجھے چوٹ لگی ہے۔خاتون نے کہا۔میں نے دل میں خیال کیا کہ کتنی جھوٹی اور مکار عورت ھے۔میں نے رکشہ سے اسے ٹکراتے اور گرتے ہوئے دیکھا ہے۔اسے کوئی چوٹ نہیں لگی۔رکشہ والا خود کو مصیبت میں ڈال رہا ہے۔احمق اور بدھو کہیں کا۔رکشہ والا کچھ دیر تو خاتون کو سہارا دیے کھڑا رہا پھر کچھ دیر بعد سامنے عورت کو لے جانے لگا۔میں بڑی حیرانی کے ساتھ اسے دیکھنے لگا کیونکہ سامنے تھانہ تھا۔اسی وقت تھانہ کے سامنے کوئی بھی شخص نہیں تھا۔وہ خاتون کو لیکر اندر داخل ہوگیا۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا تو مجھے عجیب و غریب خیالوں نے آلیا۔رکشےوالا مجھے بڑا لگنے لگا۔جیسے ہی وہ میری نظروں سے دور ہوتا گیا اتنا ہی بڑا نظر آنے لگا۔بالاخر وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔مجھے لگا کہ جیسے کوئی غیبی طاقت ہے جو میرے نزدیک آرہی ہو۔اسی طاقت اور قوت تلے میں دبتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔میں خود کو بہت چھوٹا نظر آنے لگا۔مجھے کمزوری سی ہونے لگی۔میرا سارا خون جیسا کہ سوکھ گیا ہو۔میں مردہ لاش کی طرح رکشہ میں بیٹھا ہوا تھا اور انہی خیالوں میں گم تھا کہ تھانے سے ایک سپاہی نکل کر میرے نزدیک آپہنچا۔میں رکشہ سے اتر کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
"آپ دوسری رکشہ پکڑیں،پولیس والے نے کہا۔یہ آپکے ساتھ نہیں چل سکتا۔
میرا ہاتھ لاشعوری طور پر جیب کی طرف بڑھا اور میں نے کچھ سکے نکالے۔یہ رکشہ والے کو دے دینا۔میں نے سکے سپاہی کو دیتے ہوئے کہا۔ہوا بلکل بند تھی اور میں پیدل ہی آفس کی جانب گامزن ہو گیا۔
جو کچھ بھی ہوا میں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا مگر سکے دینے کا خیال مجھے کچھ قدر پریشان کرنے لگا۔میں نے سکے کیوں دیے؟کیا وہ کوئی انعام تھا؟میں آج تک اپنے ضمیر کے ان سوالوں کے جوابات نہیں دےسکا۔
آج تک یہ حادثہ میرے ذہن میں نقش کیے ہوئے ہے۔بڑے سیاسی اور فوجی واقعات بھی اس حادثے کے سامنے کچھ نہیں۔جب بھی اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو کچھ شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور خود کو اچھا بنانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور امیدوں کی دنیا جاگ جاتی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*