کایا کلپ

 

زاہد کی چال ڈھال میں کچھ غیر معمولی نہ تھا۔دھوپ میں سنولایا چہرہ، تیکھے نقوش، مضبوط کاٹھی کا جوان تھا۔ وحید مراد ہیئر سٹائل میں بالوں کی لٹ ماتھے پر ڈالے سارے گھر میں بے تکلفی سے پھرتا تھا۔ رابعہ کے گھر میں سرونٹ کواٹر میں رہتا۔ کچن اور بچے نفاست سے سنبھالتا۔ سویرے، سویرے صاحب کی گاڑی بھی جانفشانی سے صاف کرتا تھا۔ پھر چمچماتی گاڑی پر منعکس ہوتے عکس میں خود کو دیکھ کر مسکراتا۔

رابعہ اپنے شوہر کے تبادلے کے بعد ایک چھوٹے قصبے سے لاہور منتقل ہوئی تھی۔ ساس نے یہ کہہ کر زاہد بھی ساتھ کردیا تھا۔

”گھر کا پالا پوسا ہے بھلامانس ہے“ رابعہ نے ذرا ہچکچا کر اپنی ساس سے کہا”خالہ! سفیان صبح کے گئے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ یہ ہٹا کٹا مشٹنڈا۔۔“

”توچنتانہ کر“۔ساس نے رابعہ کو تشفی دی، ”یہ تو بیٹوں جیسا ہے۔پانچ سال کا تھا اس کی ماں یہ کہہ کر میرے حوالے کر گئی تھی۔”بی بی! بس روٹی دے دیا کرو،تنخواہ نہیں مانگتی“۔

زاہد تب زاہدہ تھی۔چھوٹا سا دوپٹہ اوڑھے، دونوں بازؤں میں رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں چڑھائے، آنکھوں میں آنسو لیے، خاموشی سے ماں کوجاتے دیکھتی رہی۔ ماں تیز قدم چلتی ہوئی، پلٹ کر دیکھے۔ بغیر،جلدی سے دہلیز پار کر گئی۔

بھاگتی زاہدہ کچھ ہی دنوں میں اندر باہر دوڑتی نظر آنے لگی۔ جھاڑو لگاتی، برتن دھوتی۔ سب ناشتہ کر لیتے تو اس کی چنگیر میں بھی روٹی آتی۔ چنگیرکو دونوں ہاتھوں میں تھامے کھلے دالان میں نیم کے درخت تلے آکر بیٹھ جاتی، چھوٹے چھوٹے نوالے اپنے منہ میں ڈالتی۔چڑیوں کا چنبا اس کے گرد بھنبیریاں ڈالتا۔ وہ روٹی کا ذرہ ذرہ کر کے چوک چڑیوں سہیلیوں کو بھی ڈالتی رہتی تھی۔ ہنستی مسکراتی اِن سے باتیں کرتی۔ اچانک اندر سے آواز آتی ”زادہ او زادہ!۔ مرن جو گیے سارا دن وہیں بیٹھی رہو گی کہ کوئی کام بھی کروگی“۔

چڑیاں تو پھڑ پھڑا کر نیم کے پتوں میں غائب ہو جاتیں۔ زاہدہ مرن جوگی اندر کی طرف بھاگتی۔

چھوٹی سی زاہدہ نے بڑا سا گھر چابکدستی سے سنبھال لیا۔ لیکن تیرھواں برس لگتے ہی ان کہی نے بولنا شروع کردیا۔ چہرے پر رواں سا پھوٹنے لگا۔ آواز کی نرمی میں کہیں دور بجتے ڈھول کی دھمک بھی شامل ہونے لگی۔ ایک دن سودا سلف لینے گھر سے نزدیک مارکیٹ گئی۔ بخشونائی کے تھڑے پر بیٹھ کر اپنی لمبی چٹیا کٹوادی۔ چٹیا وہیں لوگوں کے پیروں تلے روند تا چھوڑ کر خود واپس گھر آگئی۔ دونوں ہاتھوں میں آلو گوبھی کے لفافے سنبھالے وہ اپنے تئیں ایک بوجھ سر سے اتارے، مالکن کے سامنے چپ چاپ کھڑی تھی۔ بالائی لب پر بھیگتی مسیں نمایاں تھیں۔ مالکن سب جانتے ہوئے بھی لمحہ بھر کے لیے ہکا بکا رہ گئی۔ پھر سفیان کے پرانے کپڑوں میں سے ایک جوڑا اٹھا کر زاہدہ کے ہاتھ میں تھمایا۔ اب زاہد نے گھر کے ساتھ باہر کا کام بھی خوش اسلوبی سے سنبھال لیا۔

توے سے پھولی ہوئی گول چپاتیاں بڑی مہارت سے اتار تا۔ ہتھوڑی پیچ کس لیے قابل مرمت چیزیں بھی درست کر لیتا۔

رابعہ بے فکری سے زاہد کو اپنے ساتھ لاہور لے آئی۔

کہاں ٹھہرے پانی جیسی جامد زندگی لیے، ٹوٹی سڑکوں گردو غبار میں ملفوف قصبہ۔اور کہاں تروتازہ لعل بدخشاں سیب کے گالوں جیسا لاہور!!۔

رابعہ نے ناک سکیڑتے ہوئے سوچا۔ ناک میں ہیرے کی لونگ ہو تو ناک سکیڑنا بھی ایک ادا ٹھہرتی ہے۔ رابعہ پر تو خدا نے کئی کرم کردیے تھے۔ میاں کی سرکاری نوکری تھی۔ ما شاء اللہ لاہور میں سِیٹ بھی فضل ربی والی عطا ہوئی۔ ساس کی نگرانی کرتی آنکھوں سے بھی جان چھوٹی۔ زاہد نے گھر داری کے جنجال سے بھی چھٹکارا دلا دیا تھا۔

بچے اپنے اپنے سکول میں مصروف ہوگئے۔ وہ سارا دن گھر میں بولائی بولائی پھرتی۔ دل بیزار ہوتا تو پر س اٹھا کر بازار کا چکر لگا آتی۔ بچوں کی نہ ختم ہونے والی فرمائشیں ہر بار لاکھ سوا لاکھ خرچ کروا ہی دیتیں۔ خیر شوہر نے کبھی اس کا پرس خالی نہ رہنے دیا تھا۔ سفیان بھی اکثر لڑکھڑاتا ہوا رات گئے ہی واپس آتا۔ اگر کسی ویک اینڈ پر گھر ہوتا بھی تو رابعہ کو غلط جگہ پڑی کرسی کی طرح لگتا تھا۔ آتے جاتے خوامخواہ ہی تکرار سی ہوجاتی۔

کچھ نیا کرنے کو جی چاہتا تو فیشن میگزین اٹھائے ٹیلر کے پاس چلی جاتی۔ درزی ڈیپ نیک کی وی ہر بار تیکھی کر دیتا۔

آمدِ بہار سے کھلتی شام تھی۔ رابعہ نے نیا جوڑا زیب تن کیا۔ ریشمی حجاب کو نگینوں سے سجے بروچ کی مدد سے ایسے سر پر جمایا کہ مجال ہے کہ ایک بال بھی نظر آئے۔ آئینہ میں اپنے سر اپے پر ایک نظر ڈالتی۔خود ستائشی۔ کجل کی گہری شوخ لکیرنے نین ناوک نیم کش بنا دیے تھے۔ امپورٹڈ میک اپ نے چہرہ لَش لَش کردیا تھا۔ اِتراتے اٹھلاتے باہر لان کا رخ کیا۔ زاہد نے گرم کافی کا کپ کرسی کے ساتھ رکھی چھوٹی میز پر دھر دیا۔ اور خود نرم سرسبز گھاس پر چوکڑی جما کر بیٹھ گیا۔

”باجی! ایک بات کہنا تھی“۔

”ہاں بول! کیا کہنا ہے؟“۔رابعہ نے پوچھا۔

باجی ڈیڑھ لاکھ دے دو یکمشت۔ تنخواہ سے کاٹتے رہنا“۔

لاکھ ڈیڑھ لاکھ سہولت سے، بنا کسی تردد کے خرچ کر دینے والی رابعہ کا دل ہول گیا۔ ”ڈیڑھ لاکھ؟اتنی زیادہ رقم“

رابعہ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔

”اپنے شہر اقبال نگر میں ایک ڈاکٹر ہے۔ کہتا ہے معمولی سے آپریشن کے بعد قدرت سے ہوئی غلطی درست ہوجائے گی۔ لیکن ڈیڑھ لاکھ ایڈوانس مانگتا ہے“۔ زاہد نے جھجکتے ہوئے کہا۔

”تم لوگوں کو کچھ خدا کا خوف بھی ہے کہ نہیں، قدرت سے بھی کبھی غلطی ہوئی ہے۔ انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہیے“۔ رابعہ نے درشتی سے کہا۔

”باجی! دو کشتیوں میں پاؤں دھرے ہیں۔ آپ ہی بتاؤ!کس طرح خوش رہوں“ زاہد کے لفظوں میں برسوں کی چُھپی ہوئی تلخی نے سر اٹھایا۔

”ہمیں ہر حال میں راضی برضا رہنا چاہیے“۔رابعہ نے سمجھایا ”و ہ سب دیکھتا ہے سنتا ہے“۔

”مجھے تو نہیں دیکھتا نہ میری سنتا ہے جی۔ اس نے تب نہ دیکھا جب میں ماں کے پیٹ میں تھا۔ میری ماں کی منت سماجت گڑ گڑانا رونا پیٹنا۔ مجھے کھانے کو آدھی روٹی دیتی رہی لیکن مسجد مزاروں پر باقاعدگی سے چڑھاوے چڑھاتی، منتاں کرتی مرگئی: ”میری زادہ کو دھی بنا دے یا پت۔ ربا! اسے اِک پا سے لادے“۔

باغی لہجے میں بولتا زاہد دم بھررک کر پھر بولا:”باجی! دعاؤں سے تو میں ٹھیک نہیں ہونے والا،آپ ہی میری مدد کریں“۔

رابعہ نخوت سے بولتی ہوئی کرسی چھوڑ اٹھ کھڑی ہوئی”زاہد! عقل سے کام لے۔توبہ استغفار۔ مولانا ٹی وی پر سچ ہی کہہ رہے تھے کہ جہالت انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے۔۔نہیں! شاید غربت کہا تھا“۔ رابعہ سٹپٹا سی اٹھی۔ ادھوری ہلکے سے کار کا ہارن بجا۔ گفتگو وہیں چھوڑ کر زاہد غربت اور جہالت کے بیچ ؑڈانواں ڈول گیٹ کی طرف لپکا۔ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی سے اتر کرصاحب کی سائیڈ کا دروازہ ذرا جھک کر کھولا۔ جیسے چمکتی پیکنگ سے نیا کھلونا احتیاط سے باہر نکالا جاتا ہے۔ سفیان نے گاڑی سے پاؤں باہر فرش پر رکھا۔ اچٹتی ہوئی نظر رابعہ پر ڈالتے ہوئے ٹِک ٹِک کرتا گھر کے اندر چلا گیا۔ رابعہ بلی کے سے قدم اٹھاتی اس کے عقب میں تھی۔ گھر کا داخلی دروازہ دھیرے دھیرے بند ہوتا گیا۔

زاہد پورچ میں کھڑا کبھی نیلا آسمان دیکھتا اور کبھی چوبی بند دروازے پر نقش ہوئے قدیم اسا طیری کردار۔ دونوں چپ تھے۔

زاہد کے ذہن میں سے سوال نکل کر ایسے بھاگ رہے تھے جیسے چھٹی کے وقت سکول کے گیٹ سے نکل کر بچے بھاگتے ہیں۔ پھر کندھے لٹکائے بے چارگی سے اپنی اتھل پتھل تن من کو سنبھالتا کچن کی طرف چلا گیا۔ کھانا بھی تو میز پر لگانا تھا۔

دن گزرتے گئے۔ زاہد نے کئی در کھٹکھٹا ئے جواب میں خاموشی ہی گنگناتی رہی۔ایک روز کچھ فیصلوں کا بوجھ اٹھائے وہ پھر رابعہ کے روبرو تھا۔ ”باجی! ہمارے گاؤں میں بڑے زمیندار ہیں۔ انہوں نے ایڈوانس رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جب تک رقم پوری نہیں ہوتی۔ ان کے گھر کے کام کاج کروں گا“۔

یہ سنتے ہی رابعہ کے اوسان خطا ہوگئے۔ ایسا گُنی اور ایماندار نوکر تو ڈھونڈے سے نہ ملے۔ بہت سی شنیدہ ودیدہ سنا کر اسے اپنے ادارے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن زاہد نے تو اپنے کان آس امید کا پھا یا رکھ کر بند کر لیے تھے۔ کالے شاپر میں اپنا کل اثاثہ سمیٹے خدا حافظ کہہ گیا۔

عرصہ بعد سفیان نے سرسری سا ذکر کیا کہ زاہد نے کسی کے ذریعے فون کروایا ہے کہ وہ چوری کے الزام میں حوالات میں ہے۔

”ہائے! چوری اور زاہد؟۔ہمارا گھر تو سارا کھلا تھا۔ اس نے کبھی کوئی چیز اِدھر سے اُدھر نہیں کی۔ وہ کیسے چوری کرسکتا ہے؟“۔

سفیان بیگانگی سے ٹھٹھرے ہوئے لفظوں میں بولا: ”ان کمی کمینوں کا کیا بھروسہ؟“۔

لیکن رابعہ کی ساس کو تو چین ہی نہیں تھا۔ وہ صبح شام فون کرتی۔”اُس معصوم کو چھڑواؤ پتر!۔اس نے تری بچپن میں بڑی خدمت کی ہے۔ وہ تیرا ہم عمر تھا،پر اس نے تجھے ماں بن کر پالا ہے“۔

خبر نہیں کس لمحے کی آنچ سفیان کے گلیشئیربنے دل کو پگھلا گئی۔ رابعہ بھی آئے دن نوکر بدل کر تھک گئی تھی۔

مقامی ایم پی اے سے سفیان کی اچھی علیک سلیک تھی۔ سفیان نے ایم پی اے کے کئی رکے کام کروائے تھے۔ اس ایم پی اے سے تھا نہ فون کروایا گیا تو زاہد کی خلاصی ہوئی ورنہ ایس ایچ او تو لاکھ ڈیڑھ لاکھ سے کم پر راضی نہیں ہورہا تھا۔

سردیوں کی شام تھی۔ فضا میں خنکی کے ساتھ اداسی بھی گُھلی ہوئی تھی۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ زاہد گھر کے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوا۔

حسبِ عادت ماتھے پر ہاتھ رکھ کر رابعہ کو سلام کیا۔ رابعہ نے سلام کا جواب دیے بغیر ہی سوال داغ دیا۔ ”زاہد! یہ تم نے کیا کیا۔تم نے تو کبھی دھیلا پیسہ کی بے ایمانی بھی نہیں کی تھی۔ چودھری کی بیٹی کی بالیاں اور مالا چرانے کا جگرا کیسے کر لیا؟“۔

زاہد ساکت سر جھکائے کھڑا تھا۔پھر پودے پر لگے سرخ گلاب کے ساتھ سبزی مائل نوکیلے کانٹے پر نظریں جما کر بولا: ”چودھری نے ایڈوانس میں آدھی رقم دی۔ ڈاکٹر کم پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ چھوٹی چودھرانی کا بکسا زیوروں سے بھرا تھا۔ سوچا ایک ادھ ٹوم نکالنے سے اُسے کیا پتہ چلے گا“۔

رابعہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا”لے دس! چودھریوں سے بڑھ کر گنتی کرنا اور جمع کرنا کسے آتا ہوگا؟“۔

”مافیاں مانگیں،اللہ رسول کا واسطہ دیا لیکن کسی کے دل میں رب نے رحم نہ ڈالا، پولیس کے حوالے کردیا“۔زاہد دھیمی آواز میں بولا۔

”پولیس تو چوروں کو بہت مارتی ہے“۔

رابعہ نے تاسف سے کہا

”جی باجی!“ زاہد کی آواز میں سسکیاں اور چیخیں بین کر رہی تھیں۔ ”مارا بھی بہت“۔

”بھی“۔رابعہ کے لفظوں کی پٹا ری خالی کرتی گئی۔ ہوا نے بھی دم سادھ لیا۔

”میں بے وارثا! در در پھرنا ہی نصیب ہے“۔کہتے ہوئے زاہد گیٹ کی طرف پلٹ گیا۔ رابعہ نے دیکھا کسی فوجی کی طرح سیدھ میں قدم جما کے چلنے والے زاہد کی چال بدلی ہوئی تھی۔ اس کی گج گامنی چال میں نرت بھاؤ چھنک رہے تھے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*