خس کم جہاں پاک

محبت کی بھیک مانگتے ہوئے

تمہیں چار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔

پھر بھی سلیقہِ گدائی نے تمہارا ہاتھ نہیں تھاما

اس خوف سے کہ

تمہیں لاج کی پاج رکھنا نہیں آتی۔

تم بھیک میں ملی خوشیاں

اک سگریٹ کے پیکٹ یا چائے کی پیالی کے عوض

بیچ دیتے ہو۔

رات  پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے

تم نے اک ننھی گڑیا کے خواب ہنکارے ہیں۔

بلا کے احمق، اکھڑ ہو

تمہاری معصومانہ دستک پہ

اب دلوں کے در نہیں کھلتے ہیں۔

ہر بار ناک کی کھانے پر بھی

کشکولِ منّت اٹھائے دربدر بھٹکتے ہو۔

بخیہ گری کی چاہ میں

نئے زخم خریدنا تمہارا شیوہ بن چکا ہے۔

کیا نہیں جانتے

کہ تمناؤں کے گدھ

دل کا ماس نم آنکھیں شوق سے نوچ کر

نجس ہڈیوں کو تحقیر کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔

زخموں پر پھاہا نہیں رکھتے،  نہ پرسہ دیتے ہیں۔

مشقت نہ کرنا تمہارے خمیر میں رچا بسا ہے۔

 

” تمہارے سوا اس کارِ جہاں میں کوئی چیز بھی

ایسی نہیں کہ جسے خس کم جہاں پاک کہا جا سکے”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*