جو پڑھا افسانہ تھا

      خواجہ میر درد کہ جنہیں میر تقی میر نے آدھا شاعر تسلیم کیا تھا کا لازوال مصرعہ ہے کہ

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا

عابدہ رحمان نے مصرعہ کے دوسرے حصے میں تصرف کر کے اپنے افسانوں کے مجموعے کا نام ”جو کہا افسانہ تھا“ رکھا ہے۔

ان کا تعلق لکھنے والوں کے اس قبیلے سے ہے کہ جن کے نزدیک ادب کا بنیادی منصب انسانوں کے مصائب اور مسائل کو بیان کرنا ہے لیکن ساتھ ساتھ فن کی جمالیات، سچ دھج سے بھی انکاری نہیں کیونکہ خوبصورت موڈ ہی افسانے کو افسانہ بناتا ہے۔

بھوک، بے روزگاری، ظلم و ستم، سماجی نابرابری، بے انصافی جبر، گھٹن، صنفی امتیاز، زر کا ارتکا اور اس طرح کے دیگر موضوع ان کے قلم کو اپنی طرف متوجہ رکھتے ہیں۔ ان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ افسانوں کے عنوان بہت معنی خیز، تیکھے اور خوبصورت رکھتی ہیں۔

عنوان ہی بہت کچھ بتا دیتا ہے۔ مجموعے کا پہلا افسانہ ”ماہی بے آب“ ہے جو کہ اس عنوان کی پھیلی ہوئی تصویر ہے۔کیسے عالمی لوٹ کھسوٹ کا نمائندہ ٹرالر  ہزاروں برس سے ماہی گیری کر کے روزی کمانے والے لوگوں کے بے روزگاری کے پنجے میں جکڑ کر پہلے منشیات کا عادی بناتا ہے اور پھر موت کو گلے لگانے کے لیے تیار کردیتا ہے۔ دوسرے افسانے کا عنوان ہی اتنا کاٹ دار ہے کہ پڑھنے والا آغاز ہی سے کہانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں دھن دولت تلے کچلی گئی زاہدہ کا ذکر ہے کہ جس کے سارے ارمان، آرزو ئیں، عمروں کی تفاوت اور منافقت کی وجہ سے خاک ہوگئیں۔”حاجی ابن حاجی“ میں زندگی کے کراہت بھرے رخ نمایاں ہیں۔ افسانہ ”کانچ کی گڑیا“ سماج میں پھیلی غلاظت کا ایک کریہہ ترین زاویہ سامنے لاتا ہے۔ معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی بربریت اور پھر ان کا قتل ایسا موضوع ہے جو آئے دِن ذرہ بھر حساس دِل رکھنے والوں کو بھی اشکبار کرتا ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اس کا تجزیہ ایک وسیع مضمون چاہتا ہے۔ مختصر اً یہ کہہ سکتے ہیں کہ بات بہر حال جبر کے نظام پر جا رکتی ہے۔ جبر کہ جس کی مختلف شکلیں ہیں۔ جبر کہ جو سب میرا ہے کا نعرہ لگا تا ہے اور سوسائٹی میں معاشی، معاشرتی، جنسی بے راہروی کو فروغ دیتا ہے اور انسان کو صرف ایک کماڈٹی سمجھتا ہے ”زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے بھوک! صرف ایک روٹی، اس زندہ حقیقت کے سامنے دنیا کے سارے فلسفے پیچھے رہ جاتے ہیں“۔ یہ سطریں عابدہ رحمان کے افسانے پر چھائیں سے  لیے گئے ہیں۔ یہاں اس نے اس سارے فلسفے کو سمیٹ لیا ہے کہ جس کی وہ پرچارک ہے۔ پیٹ کی بھوک بلاشبہ پہلی اور بنیادی بھوک ہے اور دیگر ہر طرح کی بھوک اس سے جڑی ہے۔ جنسی بھوک، پیار کی بھوک، شہرت کی بھوک، برتری کی بھوک، فتوحات کی بھوک، طاقت اور اقتدار کی بھوک، تقدیس کی بھوک۔ اس افسانے کے آخر میں اس کا مرکزی کردار غزالی کہ جو ایک مصور ہے وہ کہتا ہے کہ میں اپنے بچپن کی بھوک کو بیچ کر اپنے آج کی بھوک مٹا رہا ہوں۔ یہ فقرہ پڑھ کر ایک دم ساحر یاد آگیا

میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے

آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

یہ بھوک ہی ہے کہ جو کبھی پیار کے گیت بیچنے پر مجبور کرتی ہے اور کبھی بچپن کی بھوک۔

افسانہ سفر کی دھول اس مجموعے کے دوسرے افسانوں سے نسبتاً مختلف ہے۔ خالصتاً ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کی محبت کے موضوع پر۔ ایک دم محبت ہونا، چند دنوں کی ہم سفری اور پھر بچھڑنا۔ عابدہ یہاں بھی ایک قبیح رسم و ٹہ سٹہ کا ذکر کیے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد مجھے یہاں بھی سفید ٹشو پیپر کا چھوٹا ڈبہ نظر آتا ہے تو کہتا ہوں کہ یہی ہے کہ جس نے سحاب کے ”س“ اور شیراز کے ”ش“ کو جوڑا تھا پھر وٹہ سٹہ کو یاد کر کے کوئٹہ شہر کے کچھ مخصوص slangsیاد آجاتے ہیں۔

اب آتے ہیں امربیل نامی افسانے کی طرف کہ جو محبت، عشق، مرد، عورت اور جنس کے موضوع پر ہے یہ وہ وادی ہے کہ جہاں منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی راج کرتے ہیں۔ وہ وادی کی جہاں فہمیدہ ریاض ڈائنو سار کی طرح موجود ہے۔

جنس کے موضوع پر لکھناجتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ یہ وہ موضوع ہے کہ منٹو کے 65برس گزرنے کے بعد بھی جسے سنتے ہی غلاظت بھرے دماغوں سے رال ٹپکنے لگتی ہے اور یہ غلاظت بھرے دماغ رال ٹپکا ٹپکا کر بعد میں تقدیس کی ہٹی  کھول لیتے ہیں۔ عابدہ رحمن نے بڑی میچیورٹی، بہت اعلیٰ انداز، بہت زندہ پلاٹ اور بڑی دانش کے ساتھ اس موضوع کو برتا ہے اور نتائج نکالے ہیں اور انہیں طاقتور جملوں میں بیان کیا ہے۔

اقتباس دیکھیے۔

”محبت دراصل ایک دائرے کی طرح ہوتی ہے۔ اسے ہزار زاویوں سے دیکھو وہ اسی دائرے میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ عورت چونکہ اس دائرے میں داخل ہوجاتی ہے اسی لیے اس دائرے کی اسیر ہوجاتی ہے۔ جبکہ مرد دائرے سے باہر کھڑا رہتا ہے اسی لیے اس کا زاویہ بدلتا رہتا ہے۔ (اگر چہ مجھے اس بیان سے اختلاف ہے۔ م۔ ر)

دوسرا اقتباس

”دراصل ہمارے معاشرے میں لوگ خوف کے عادی ہو گئے ہیں۔ اپنا خوف لوگوں کا خوف، رشتوں کا خوف مذہب کا خوف اور اس خوف سے وہ اس قدر لرزتے ہیں کہ محبت جیسے جذبے سے بھی کنی کترانے کی کوشش کرتے ہیں“۔ مسکراہٹ کے چند ذرے ایک بہت مختصر کہانی ہے۔ ایک دلکش لمحے کو کیچرکرنے کی کہانی کہ جس کی یاد تازہ رکھتی ہے۔

افسانہ بارش کے قطرے بھی طوائف اور بازار حسن کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ یہاں بھی بتایا گیا ہے کہ محبت ہی وہ کسوٹی ہے کہ جو گناہ و ثواب، خالص و نہ خالص کا فیصلہ کرتی ہے۔ ذرا لکھاری کی جرات اور کھراپن دیکھیے”آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لوٹ کھسوٹ صرف جسمانی ہوتی ہے۔ نہیں۔۔ جذباتی ذہنی لوٹ کھسوٹ بھی  ہوتی ہے“۔

افسانہ بانجھ میں تخلیق نامی کردار کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اکیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کی عورت کیا سوچتی ہے۔ یہ جملے دیکھیں ”میں ایک جنسی نامرد کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہوں لیکن ایک فکری بانجھ پن والے مرد کے ساتھ نہیں“۔

”میں گروی میرا تن گروی“ ایک ایسے موضوع پر ہے کہ جس پر بہت لکھا گیا ہے لیکن چند ٹکوں کے غوص انسانوں کو زندگی بھر گروی رکھنے کا عمل ایسا گھناونا ہے کہ اس کے خلاف ہمیشہ لکھنا لازم ہے۔

”برائے فروخت“ میں عورت کو نقد آمد جنس بنانے کیایک اور شکل یعنی لب یا ولور کی بات کی گئی ہے۔ شادی کے موقع پر لڑکے سے لڑرکی کے وارثوں کی جانب سے رقم لینے کی رسم کہ جسے روایات کا سہارا حاصل ہے۔ گوکہ تعلیم اور بدلتی تہذیب نے اس رسم کو کمزور کر دیا ہے لیکن وقت کی مخالف سمت میں سفر کی کوشش کرنے والے لوگ اب بھی اس سے چمٹے ہوئے ہیں۔

مردوں کے جرائم کے بدلے ان کی بہنوں، بیٹیوں کو دشمن کے حوالے کر دینا ایک اور دلدوز حقیقت ہے۔ بھائی باپ یا قریبی رشتہ دار کے جرم کے بدلے ساری عمر اذیت اور ذلت میں زندگی گزارنا کیسی ناقابل تصور حقیقت ہے۔ خون بہاکے طور دی گئی لڑکیوں کے بارے میں لکھے گئے افسانے کا عنوان”ساتواں نمبر“ ہے۔ فیض صاحب نے کہا تھا کہ زرد پتوں کابن جو میرا دیس ہے۔ عابدہ رحمان نے زرد پتوں کو ایک اور طرح کا ستعارہ بنا یا ہے۔ شادی کے بغیر جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اور ان کا انجام اس کہانی کا موضوع ہیں۔ اول تو یہ بچے کچرے کے ڈھیر پر ملتے ہیں اور کتوں کی خوراک بنتے ہیں اور اگر زندہ رہ جائیں ساری عمرحرامی کے عنوان سے چھیدے اور چیرے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی فوت ہوئے تو کئی ”پاکیزہ“ مفت خوروں نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ان بچوں کو کتوں سے بچاتا تھا۔ یہ بچے ساری عمر اس جرم کی سولی پر لٹکے رہتے ہیں جو انہوں نے نہیں کیا ہوتا ان کو جو سہناپڑتا ہے اسے بیان کرنے کے لیے اس نے ایک کردار کے منہ سے کیا تہہ دار جملہ کہلوایا ہے کہ ”پتہ ہے سر مجھے اکثر خوابوں میں کتوں کے بھونکنے کی آواز یں جگا دیتی ہیں“۔ یقینا یہاں اس نے انسان کے بھونکنے والے کتوں کا ذکر کیا ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ یہ کہانی بنتے ہوئے لکھاری کی سوچوں میں وہ قرۃ العین طاہرہ در آئی ہوگی کہ جو کف بہاتی ہوئی شاہ کے دربار میں بول رہی تھی۔

اسی لیے اس کے کردار، ندیانی انداز میں چیخ کر بلند آہنگ سچ بول رہے ہیں۔ مثلاً

”ٹھیک سمجھے، حرامی تو یہ سماج ہے، پورے معاشرے  کی رگوں میں حرامی خون دوڑ رہا ہے۔ پورا سسٹم ہی حرامی ہے۔ یہ سوچو کہ ایک زمین پر، ایک ہی ملک میں ایک ہی دنیا میں کیوں کچھ حصے سرمایہ داری کی حرامکاری کا شکار ہیں۔

ماہیکان نامی افسانہ ذات پات، اونچ نیچ کا شکار دو ڈاکٹروں کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی تب کلائمکس پر نظر آتی ہے  جب ایک خاتون کہتی ہے کہ ”مجھے ہاتھ نہ لگاؤ میں ناپاک ہوجاؤں گی“

مجموعے کا آخری افسانہ ”انجیر کی کھڑکی“ نسبتا طویل ہے۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ جنہیں کبھی عزت سے خواجہ سرا کہہ دیتے ہیں ورنہ، ہجڑا، کھسرا وغیرہ لیکن ان کے ساتھ رویہ ایک جیسا رہتا ہے، تحقیر، اذیت رسانی، معاشی، جسمانی اور طرح طرح کا استحصال، مورت نامی خواجہ سرا جو کہ خواجہ سراؤں کی روایتی زندگی سے باغی ہے کچھ الگ کر گزرنا چاہتی ہے۔ وہ سٹیج ڈراموں کی اداکارہ بن جاتی ہے اور ڈاکٹر فریدون نامی شخص سے محبت کر بیٹھتی ہے لیکن انت وہی نکلتا ہے کہ فریدون بھی چند دن کی محبت کر کے اس کے جسم اور روح کو چکنار چور کر کے کینیڈا لوٹ جاتا ہے۔

عابدہ رحمان کے افسانے سیدھے سادے عام روز مرہ الفاظ میں لکھے ہوئے بیانیہ افسانے ہیں جن کا مقصد، کچلے ہوئے طبقات تک پیغام پہنچانا ہے۔ لیکن وہ اپنی کہانیوں کو سپاٹ نہیں رہنے دیتی، اکثر آغاز میں او رکبھی کہانی کے درمیان وہ ایسی نثر لکھتی ہے کہ جو افسانے کو ”افسانویت“ بخشتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیں ”آسمان پر غروب آفتاب کی زردی نے ایک عجیب اداسی پھیلادی تھی۔ سمندر میں چلتے چلتے وہ کافی دور نکل گئی۔ لہریں جب اس کے پاؤں سے ٹکرا کر مڑتیں تو ایک لہر سی آکر اس کے دل سے بھی ٹکراتی ”شام ہوتے ہی تنہائی کہاں سے نکل آتی ہے۔ اور پھر غم زدہ ریت پر وہ جان لیوا رقص کرتی ہے کہ بدن کا ذرہ ذرہ دکھ جاتا ہے۔

”آسمان سُرخ ہو رہا تھا۔ ہوا رکی ہوئی تھی۔ فضا میں ایک جان لیوا خاموشی تھی۔ یوں کہ جیسے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہو“۔

”سورج ڈوب رہا تھا۔ اس کی نارنجی شعا عیں مغربی افق پر پھیل گئی تھیں۔ کچھ ہی فاصلے پر مچھیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں بے سہار ڈولتی جارہی تھیں۔ دور سمندر میں ٹرالر بھیانک آواز کے ساتھ رواں دواں تھے۔

”اکھڑے ناخنوں اور زخمی انگلیوں سے درد کی ایک ٹیس اٹھی خاموشی کی ہمراہی میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا گلی کے نکڑ پر پہنچ گیا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*