احمد خان کھرل

 

مہذب و متمدن و تعلیم یا فتہ وجہاں دیدہ انگریزوں نے ایک چُھری سے اِس عاشق ِوطن کا سرگردن سے کاٹ کر الگ کروادیا۔ (سامراج کو ان کا بائیبل مارے، انھیں ہمارا قرآن مارے!)۔ انھوں نے احمد خان کے سرکو نیزے پہ پرولیا اور نیزہ ہوا میں لہراتا رہا۔ یہ حیرت ناک بات ہے کہ حضرت امام حسینؓ سے لے کر شاہ عنایت ؓتک،اور وہاں سے لے کر احمد خان تک حق و صداقت کے علمبرداروں کے سر نیزوں کے اوپر پر چم بنتے ہیں!۔ اورایسا کرنے والاخواہ اورنگزیب عالمگیراور اس کا خاندان ہو، یا ایڈم سمتھ کی آل اولاد ہو، ان سب وحشیوں میں ایک چیز کامن ہوتی ہے: ملک گیری کا حوس!!۔

اچھا یہ ہوا کہ اسی اثنا میں احمد خان کے ساتھیوں نے اُس کا دھڑ وہاں سے گوریلا گیری میں اچک لیا۔وگر نہ اس ”مہذب“انگریز نے یا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے تھے یا پھر جلا دینا تھا۔عاشقانِ وطن اور محبانِ آزادی نے اپنے شہید ہیرو کا دھڑ رات کی تاریکی میں میاں پناہ نامی گاؤں کے منگیانہ قبرستان میں دفن کردیا۔(بعد میں اس پہ گنبد بنادی گئی)۔

اپنے وطن سے ہزاروں میل دور آکر اس قبضہ گیر ذہنیت نے احمد خان کے مبارک سر کو گوگیرہ جیل کے دروازے پر لٹکا دیا۔ ”عبرت پکڑانے کی خاطر“۔ یہ“ عبرت“انسانی تاریخ میں ہر بزدل، مگر سفاک شخص کمزوروں کوپکڑ واتا رہتا ہے۔مگر عبرت بھی ایک تو پارہ صفت،صفت ہوتی ہے۔ یہ گائے کے نیم پکے گوشت کی طرح شڑاپ کر کے کھانے والے کے اپنے منہ پر لگ جاتا ہے۔ انسان کا کمپیوٹر تو جذبوں کی بیٹری سے چلتا ہے۔ انسان اپنے اور اپنے وطن کی آزادی کے جذبے سے کتنے بڑے کام لے سکتا ہے تصور بھی نہیں ہوسکتا۔

اِدھر ہیجان زدہ قبضہ گر (انگریز) نے اس شک پر احمد خان کے گاؤں جھامرے پر حملہ کردیا کہ اُس کا دھڑ وہاں دفن کردیا گیا ہوگا۔ مگر کوئی ہوتا تو ملتا۔ نہ قبر، نہ گورکن۔ احمد خان کے ساتھی تو چھوڑیے، وہاں کوئی مرد ذات ہی موجود نہ تھا۔

احمد خان کا جسم تودھرتی کے کاربن، سلیکون، ایلومینیم، آئرن، کیلشیم، سوڈیم، پوٹاشیم اور میگنیشیم نامی مقدس ارواح کی حفاظت میں تھا۔ اصل مسئلہ اب اُس کے کٹے سرکے حصول کا تھا جو ”بتستا“کے جیل کے دروازے پہ لٹکایا گیا تھا۔ انگریز نے جس سر کو عبرت کا نشان بنانے کاسوچا تھا، وہی سر،اب ایک مقصد، ایک کاز، بن چکا تھا۔ جیل پہ لٹکے ہوئے سر کو تو دھڑکے ساتھ ملنا ہی تھا۔

عوام الناس کیسے برداشت کرتے کہ اُن کے ہیرو کا دھڑ کہیں دفن ہو، اور سر یونہی جیل کے گیٹ پر لٹکتا رہے۔ یہ سر،اب دلوں کا طعنہ بن چکا تھا۔ شہید اعظم کا سر حریص کوّ وں چیلوں کے لیے تو نہ تھا۔ وہ سرتو اپنی سرزمین کی مٹی کو ہی اپنا زم زم بنائے گا۔ ایک قبر میں جائے گا، اس لیے کہ عوام یہی چاہتے تھے۔

کتنے قصے، روایتیں اور شاعری موجود ہے کہ یہ سرکس طرح وہاں سے رات کی تاریکی میں کمال احتیاط سے چوری ہوا۔ کس طرح ایک گھڑا توڑ کر اُس میں اُسے ڈال کر گھڑا پھر سے جوڑ دیا گیا اور اس سربردار گھڑے کو احمد خان کے جسم والی میت کے پہلو میں دفن کیا گیا۔بدقسمت ہے وہ زبان جس میں سامراج دشمنی کو اساطیری کردار بنانے کی سکت واہلیت نہ ہو۔ایک سر کو دفن کرنے کے ہزار،ورژنز کو شاعری کا قوسِ قزح بنادیا گیا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قبر کو تو کلی مست کا مزار بنا دیا جاتا۔ اُسے تو ہنگلاج بننا چاہیے تھا: زیارت گاہ، سلامی دینے کا مقام۔ مگر شاید پنجابیوں کو ”نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک ِ کا شغر“ کی جہانگیری کرنی تھی۔ اور دوسروں پہ قبضہ کرنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ اپنے جیفرسنوں، ٹامس پینوں،جارج واشنگٹنوں اور بھگت سنگھوں کو فراموشی کے شمشان گھاٹ میں بھسم کردیا جائے۔ سو، احمد خان کو جان بوجھ کر فراموش کیا گیا۔ سارے اعزازات،غوری جیسے لوگوں کے نام کے ہوں گے، ساری فوقیت اُس احمد خان کو دی جائے گی جو کھرل نہیں انگریز کا ”سر“ تھا۔سوچتا ہوں کہ احمد خان کو کو فراموش کرنا تو اپنی انسانیت کو فراموش کرنا ہے۔

اُس کے دیگر ہم مرتبہ لوگ تو بیرونی آقا کے لیے ”بیش بہا خدمات“ کے عوض پیش بہا القابات و انعامات وصول کر رہے تھے اور احمد خان کا”سر بلند“سر،وطن کی مٹی پھانکنے کو کاٹ دیا گیا تھا۔ اس احمد خان کے نام کی ایک بھی عمارت، ایک بھی سڑک، ایک بھی یونیورسٹی موجود نہیں۔ ایک بھی چوک اور ریلوے سٹیشن نہیں۔ معلوم نہیں کس طرح ایسی قوم سینہ پھلا پھلا کر چیچنیا آزاد کرنے کی بات کرسکتی ہے!۔اُس کے نصاب میں دنیا بھر کا گند بلا پڑھایا جاتا ہے مگر دوسری تیسری جماعت تک میں بھی احمد خان کو نہیں پڑھا یا جاتا۔ اُس کی کوئی تقریر محفوظ نہیں۔ اُس کی جنگجاہ میں کوئی ”کام گثیر“موجود نہیں۔اس کے معتبر نام کو ارض ِ وطن کا کوئی سپوت اپنے بچے پہ نہیں رکھتا۔ طے بات ہے کہ احمد خان نہ ہوگا تو ضیاء الحق، حمید گل اور اسامہ تیری سولائزیشن کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ تم ثقافتی طورپر ہڑپہ بنادیے جاؤ گے۔ تم ہڑپہ بنا دیے گئے ہو۔ نہیں؟، ذرا اپنے پڑوسی اقوام سے پوچھو!

اس جنگ میں احمد خان، اُس کا بھتیجا مراد، اور سارنگ کھرل بھی مارٹر، اور نمیران (جو کبھی نہیں مرتے۔ بلوچ)ہوگئے۔

جولوگ تاریخ بناتے ہیں، تاریخ انہیں نورانی بنادیتی ہے۔ عوام پیار میں اپنے ہیروؤں کو دیوتا بنادیتے ہیں۔ جاگیرداروں کے ساتھ امن کی آشاگیری میں غرق دانشوروں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام الناس حق بات کے لیے خون بہانے والے کو بڑی تکریم بخشتے ہیں۔ انہیں یاد رکھتے ہیں، ان کی توصیف کرتے ہیں۔ انہیں رومانوی اور دیوتائی مقام دیتے ہیں۔ انہیں ولی بنادیتے ہیں۔ انہیں shiralrousبناتے ہیں۔

احمد خان اپنے میدانوں کھیتوں کے دفاع میں میدانِ جنگ میں خود کو نچھاور کرگیا تو اس کی بیوی کو اپنے خاندان کی نسل کشی (چُک چینی۔ پوری اولاد کا تہہِ تیغ کیے جانے) کا اندیشہ ہوا۔ اس عقلمند ماں نے اپنے بچوں کو اس پیغام کے ساتھ مراد کے گاؤں روانہ کیا: ”تیرا بھائی مارا گیا ہے۔ نوجوان کھرلوں کو سنبھالو“۔ دلیل ؔکے بیٹے مراد ؔنے بچے وصول کیے، یار کی نشانیوں کو گلے لگایا اور اچھل کرگھوڑے کی زین پہ بیٹھا۔ میدانِ جنگ کی طرف جاتے جاتے بیوی کو اس کے آخری الفاظ یہ تھے: ”لوٹ آیا تو انہیں خود پالوں گا، اور نہ آسکا تو جہاں چار کا چوگا اکٹھا کروگی، وہاں اِن دو کا بھی کرلینا“۔۔۔ چے گویرانے بھی مرجانا تھا، اس کے بچے مادرِ وطن کے کاسٹرو کے حوالے۔ مراد نے بھی تو وطن کی بلائیں لینی تھیں۔ اُس نے کونسا بچنا تھا!!

فتح سے بد مست قبضہ گر کے ”نشانِ عبرت بنانے“ کی کارروائیوں کی کو ئی حد نہ تھی۔ تہذیب، روایت، عقیدہ، انسانیت،ڈگری، تعلیم سب کچھ درندگی کے حوالے ہوجاتی ہے۔ استبدادی کارستانیاں جاری رہتی ہیں، درندگی کی حد بھی ختم ہوجاتی ہے۔ سفاکیت کی سرحد بھی پار ہوتی ہے اور فاشزم کی ذلت بھری دنیا شروع ہوجاتی ہے۔ تاریخ مظلوم و ظالم کی لڑائی کے ریکارڈ کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتی۔

یونیورسٹیوں کے دیس سے آئے بھیڑ یے تھے یہ۔ مگر، یہ بھیڑیے تو فہمیدہ ریاض کی لاش کھاجانے والے ”بے عصیاں آنکھوں والے“ بھی نہ تھے، یہ تو ان سے بھی بدتر تھے۔دوسروں کی سر زمین پر قبضہ کرنے والے غارت گر، درندوں سے بھی بدترہوتے ہیں۔

بہادر عورت کا خاوند، بہنوں بیٹیوں، بہوؤں اور علاقے کی سرفروش خواتین کی رجمنٹ کے بیرونی محاذ کا مرد۔۔۔۔ جھامرے کا مرد قتل ہوا۔ تواب گھروں جھگیوں کو جلانا ضروری تھا؟۔جھامرہ کی فصلیں تباہ کرنی ضروری تھیں؟۔سارے کھرلوں کے گاؤں، وٹوؤں کے گاؤں۔پی ایچ ڈی انگریز،گاؤں دیہات جلاتے چلے گئے جلاتے چلے گئے دور دریا تک۔پورا علاقہ جلتے گھروں اور خیموں کا کربلا بن چکا تھا۔

آنے والی نسلو! گواہ رہنا۔ جب بھی بلوچستان میں کوئی ”باوقار“پارلیمنٹ بنے گی تو وہ اپنے خرچے پر دلمراد کھوسہ کا مجسمہ جھامرے میں اور احمد خان کا مجسمہ بلوچستان کے ٹُھل میں نمایاں ترین عوامی جگہوں میں کھڑے کرے گی، اس لیے کہ:

زمیں پر جتنے عاشق ہیں بلوچستان کے بچے ہیں۔نوشین

فتح بدمست و خرمست کردیتی ہے۔برکلے بھی اسی بد مستی وخرمستی کاشکار ہوا۔وہ اب بلاجھجک اِدھر سے اُدھر اپنی سپاہ کے ساتھ گھڑ سواروں والے حملے کرتا رہتا۔لارڈ برکلے دیہاتوں گاؤوں کو عبرت گاہ بنائے جارہا تھا۔ ہر طرف اس نے آگ لگائی ہوئی تھی۔22ستمبر کی صبح بھی اُس نے ایسا کیا۔ تاراجیاں مچاتا یہ ”جنرل ڈائیر“ راوی دریا کے ساتھ ساتھ جارہا تھا، بے فکر، بے خطر۔

ارے، یہ کیا؟۔ ”گیاپ“تو دریا میں چھپا بیٹھا تھا۔ مراد ؔپانی میں سے ابھرا، اور آناً فاناًاس کا نیزہ انگریز برکلے کے ابلیسی بدن کے پار ہوچکا تھا۔27سالہ برکلے جب قتل ہوا تو معلوم نہیں انگریز اس کی موت کو کیا لکھتے ہوں گے؟۔ شہید؟، مارٹر؟،حب الوطن؟، یا ڈاکو؟۔برکلے کا دوسرا ساتھی انگریز بھی نفسک والے کسی ساہیوالی دلیل خان کے ہاتھوں زمیں بوس ہوچکا تھا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*