افغانستان اور بائیڈن

کئی دنوں تک پراسرار خاموشی برقرار رکھنے کے بعد بالآخر امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہائوس میں کھڑے ہوکر 20منٹ لمبا خطاب کردیا ہے۔ یہ خطاب واضح وجوہات کی بنا پر افغانستان تک محدود رہا۔اپنا خطاب مکمل کرنے کے بعد وہ صحافیوں کے اٹھائے سوالات کا جواب دینے کو آمادہ نظر نہیں آیا۔ وہ اس کی توجہ کے حصول کے لئے چلاتے رہے۔ بائیڈن مگر پکڑائی نہ دیا۔

بائیڈن کی تقریر کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کو آج سے دس برس قبل ایک ملٹری آپریشن کے ذریعے ہلاک کرنے کے بعد امریکہ کو افغانستان میں اپنا ’’مشن‘‘ فوج کی موجودگی کے ذریعے مکمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس کا یہ دعویٰ تاریخی اعتبار سے درست تھا کہ 2009میں امریکہ کا نائب صدر ہوتے ہوئے اس نے افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد مزید امریکی افواج بھیجنے کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اوبامہ نے مگر اس کے خیالات کو رد کردیا۔اب وہ بذاتِ خود امریکہ کا صدر ہے۔ اپنے خیالا ت کو بروئے کار لانے کے لئے کامل آئینی اختیار کا حامل۔ اس نے مذکورہ حق کو استعمال کیا اور وہ اس کی بابت ہرگز معذرت خواہ نہیں ہے۔

بائیڈن کی شخصیت ہمارے میڈیا میں کبھی سنجیدگی سے زیر بحث نہیں رہی۔ ہم اپنے لوگوں کو ابھی تک سمجھا نہیں پائے ہیں کہ وہ ایک گھاگ اور انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہے۔ 26برس تک امریکی سینٹ کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کا سربراہ بھی رہا۔ وہ ٹرمپ کی طرح حکومتی پالیسی سازی کے عمل سے نآشنا نہیں۔میری دانست میں وہ بلکہ امریکی اشرافیہ کی اجتماعی سوچ اور طویل المدت مفادات کا حقیقی نمائندہ ہے۔

وہ یہ طے کرچکا ہے کہ امریکہ کا اصل مقابلہ اب تیزی سے ترقی کرتے چین سے ہے۔ چین کے عروج اور اسے امریکہ کے مقابلے کی سپرطاقت بننے سے روکنے کے لئے لازمی ہے کہ امریکہ خود کو ہر اعتبار سے توانا تر بنائے۔اپنی اس خواہش کو عملی صورت دینے کے لئے اس نے چند دن قبل ہی امریکی پارلیمان میں بھاری اکثریت کی حمایت میسر نہ ہونے کے باوجود 3کھرب ڈالر کا ایک پیکیج منظور کروایا ہے۔جو رقم منظور ہوئی ہے وہ امریکہ میں سڑکوں اور پلوں کو جدید تر بنانے کے لئے خرچ ہوگی۔ ریلوے وغیرہ کے جدید نظام کے ساتھ چھوٹے قصبوں اور دیہات کو تیز تر انٹرنیٹ کنکشن بھی فراہم ہوں گے۔

منظور ہوئی رقم کا خاطر خواہ حصہ تحقیق کے لئے بھی صرف ہوگا تانکہ دیگر شعبوں کے علاوہ ملکی دفاع اور قومی سلامتی کے لئے بھی نئے ہتھیار اور آلات دریافت وتیار کئے جائیں۔ لگی لپٹی کے بغیر بائیڈن اپنے خطاب کے دوران مصر رہا کہ روس اور چین کی یہ خواہش تھی کہ امریکہ افغانستان ہی میں پھنسا رہے۔ امریکہ میں جدید تر منصوبوں پر رقم خرچ کرنے کے بجائے اس ملک میں اپنی افواج کی موجودگی کو برقرار رکھنے پر ہی ضائع کرتا رہے۔ بائیڈن بضد ہے کہ وہ حریفوں کے جھانسے میں نہیں آیا۔

کائیاں سیاست دان اپنے من کی بات شاذ ہی برسرعام لاتے ہیں۔ اس کے خطاب کا تاہم بغور جائزہ لیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ بائیڈن افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کے باوجود اس ملک کے معاملات چلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کو بضد ہے۔اس ضمن میں اس نے ’’معاشی‘‘ قوت واثرورسوخ کا محض سرسری ذکر کیا ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں ہوئی ذلت ورسوائی پربڑھکیں لگاتے ٹویٹس لکھنے کے بجائے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کو اس کی بابت سوچنا ہوگا۔

گزشتہ ایک ہفتے سے میں دن کے کئی گھنٹے اپنا لیپ ٹاپ کھولے افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورت حال پر نگاہ رکھنے میں مصروف رہا ہوں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میری بہت خواہش تھی کہ وہاں موجود صحافیوں کے ذریعے یہ خبر ملے کہ اشرف غنی کے افغانستان سے فرار ہوجانے کے بعد وہاں کی کرنسی کی اب کیا حالت ہے۔افغان کرنسی کی قدر کئی برسوں تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستان سے بہتر رہی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے افغانستان کے سٹیٹ بینک میں نوارب ڈالر رکھے ہوئے تھے۔ پیر کی رات خبر ملی ہے کہ واشنگٹن نے اس رقم کو منجمد کردیا ہے۔اس فیصلے کے بعد نئے افغانی نوٹ چھاپے نہیں جاسکتے۔افغان کرنسی بھی افراتفری کے عالم میں ٹکاٹوکری ہوگئی ہوگی۔

مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب پاکستان کا ایک سو روپیہ کابل میں کرنسی کی دوکان پر دینے کے بعد جو افغانی ملتے تھے انہیں تھیلے میں ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔اشرف غنی کے زمانے میں افغان سٹیٹ بینک کا جو گورنر تھا وہ اپنا منصب چھوڑ کر بیرون ملک فرار ہوچکا ہے۔مجھے خبر نہیں کہ افغانستان کے بقیہ بینکوں میں کیا صورت حال ہے۔سوال یہ بھی اہم ہے کہ آیا کابل کی سڑکوں پر نصب ATMبدستور کام کررہے ہیں یا نہیں۔ آپ ان میں سے کتنی رقم بآسانی نکلواسکتے ہیں۔ برما اور لبنان میں افغانستان جیسے حالات نہیں۔وہاں مگر چند ہی ATMکام کررہے ہیں۔جن کے سامنے صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔دو یا تین سو کے قریب افراد ہی لیکن اپنی تمنا کے مطابق نقد رقم حاصل کرپاتے ہیں۔ فرض کیا افغانستان میں بھی ایسی ہی صورت حال نمودار ہورہی ہے تو چند ہی دنوں بعد عام شہری روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی تصور ہوتی اشیاء کی خریداری کے لئے خجل خوار ہونا شروع ہوجائیں گے۔

طالبان نے ابھی تک اپنی عارضی یا مستقل حکومت کا اعلان نہیں کیا ہے ۔یہ فیصلہ کرنے سے قبل غالباََ وہ انتظار کررہے ہیں کہ امریکہ کابل ایئرپورٹ کا قبضہ اپنے افراد نکالنے کے بعد خالی کردے۔ گزرے ہفتے کے روز اندازہ لگایا جارہا تھا کہ امریکی کابل ایئرپورٹ پر اپنا ’’مشن‘‘پیر کی صبح تک مکمل کرلیں گے۔یہ مگر ہو نہیں پایا ہے۔افغان شہریوں کی کثیر تعداد نے جس انداز میں کابل سے پرواز کرنے والے طیاروں میں گھسنے کی کوشش کی وہ دل دہلادینے والا ہے۔کئی اعتبار سے یہ 1975کے سائیگون سے بھی زیادہ سنگین دکھائی دیا۔ آنے والے کئی برسوں تک دنیا یہ مناظر بھول نہیں پائے گی۔

طالبان کو معمول کی زندگی بحال کرنے کے لئے نام نہاد عالمی برادری سے کئی سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ان کی سیاسی قیادت جدید تقاضوں کے مطابق لچک دکھاتی نظر آئے تو یہ طالبان کے عام رضا کاروں کی اکثریت کے لئے قابل قبول ہوگا یا نہیں۔اس سوال کا تسلی بخش جواب مجھے ابھی تک مل نہیں پایا ہے۔ اس ضمن میں افغانستان میں موجود صحافیوں کی برسرزمین رپورٹنگ پر ہی توجہ دینا ہوگی۔

نظر بظاہر کابل میں داخل ہوجانے کے بعد طالبان رضا کار وہاں کے باسیوں کے ساتھ نرم اور دوستانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔گزشتہ 20برسوں میں وہاں کئی ٹی وی چینل قائم ہوئے۔ان کے لئے کوئی ’’ہدایت‘‘ جاری نہیں ہوئی۔ وہاں کام کرنے والوں کو بلکہ تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ عالمی میڈیا کی اکثریت طالبان کے عورتوں کے ساتھ رویے پر نگاہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ابھی تک البتہ کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جو پیغام دے کہ طالبان خواتین کی بابت 1990کی دہائی والا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔خواتین مگر ازخود اعتماد سے محروم ہوئی گھروں میں محصور ہوچکی ہیں۔ وہ سڑکوں اور بازاروں میںچلتی نظر نہیں آرہیں۔ یہ مگر وقتی صورت حال ہے۔ جس کو بدلنے کے لئے طالبان کی قیادت کو چند حتمی اور قابل عمل نظر آنے والے فیصلے کرنا ہوں گے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*