سنگت اداریہ

آل راﺅنڈر تبصرہ نگار

ٹی وی چینلوں پہ آج کل دو باتوںپہ تجزیوں کے جھکڑ چل رہے ہیں ۔
1۔ افغانستان سے امریکی فوج کے واپس جانے پہ تجزیات کا ٹورنمنٹ بپا ہے ۔ کوئی اِدھر مار رہا ہے ، کوئی وہاں پینلٹی سٹروک کھیل رہا ہے ۔ اِن کی لفا ظی سے بھرے تبصروں سے ایک زبردست کنفیوژن پیدا ہو چلا ہے ۔ واقعات کے گرد کنفیوژن کا گردو غبار پیدا کیے رکھنا کپٹلزم کی ایک بڑی خاصیت ہے۔
2۔ شاذین بگٹی کو بلوچستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے کا جو عہدہ ملا ہے ۔ اس پہ بھی تابڑ توڑ تجزیہ نگاری ہو رہی ہے۔ ایسے ایسے لوگ بھی ماہرین بنے بیٹھے ہیں جنہوں نے چاکر و گوئہرام کا نام تک نہیں سنا ہے ۔ جنہیں پتہ ہی نہیں کہ قومی شناخت حاصل کرنے کی پیاس کس قدر تیز ہوتی ہے ۔ اِن بورژوا نیم دانشوروں کے تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ قومی احساسِ محرومی کس قدر گہری ہوتی ہے ۔ بہر حال تبصرہ ، تنقید ، پیش گوئی حتی کہ فریقین کو مشوروں کی سہولت بھی چینلوں پہ موجود ہے ۔
خارجی معاملے کا انچارج شاہ محمود قریشی ہے اور بلوچستان کا داخلہ معاملہ شاذین کے ”سپرد“ ہے ۔ سنجیدگی کے فقدان کی انتہا آپ کسے کہتے ہیں۔ مگر ظاہر میں نظر آتی یہ غیر سنجیدگی بالکل بھی غیر سنجیدگی نہیںہے ۔ تجزیہ نگار علاماﺅں کو نظر ہی نہیں آتا کہ اتنے بڑے مسائل حل کہیں اور ہوتے ہیں ۔ اور مکمل یا جزوی حل کی نقشہ نگاری بہت عرصہ قبل بن چکی ہوتی ہے ۔ ایک آدھ فیلر پھینکنے کا مطلب”غوغا“ پیدا کرنا ہے تاکہ اگلے اقدام کو عملی شکل دی جاسکے ۔ لہذا سارا ”غوغا“ منصوبہ بند ہے ۔
جنگیں سیاسی معاملات کو حل نہیں کرسکتیں ۔ مگر سیاسی مسائل کا دائمی حل کپٹلزم کے پاس ہے ہی نہیں ۔ لیپاپوتی میں ایک آدھ ضلع اشرف غنی سے طالبان کو دے دیا۔ یا،ایک آدھ جلاوطن بلوچ کو واپس بلا لیا ،بس۔چیزیں طویل المدتی ہیں۔
پوسٹ پون کیے رکھنا امریکی قیادت میںعالمی سیاست کا ایک اہم جزو ہے ۔اور معاملہ جتنا پرانا ہوگا۔حل بھی اُسی قدر طویل ہوگا۔ ہاں، جب دلوں میں حل کا ارادہ بن جائے تو پے درپے مذاکرات ہوتے ہیں، پے در پے اعتماد سازی کے اقدامات ہوتے ہیں۔ رعایتوں کا سلسلہ ہوتا ہے ۔ برداشت کا بے انت میدان مہیا کرنا ہوتا ہے ۔۔۔۔
اور اگر ایسا ہو تو حل بالآخر نکل ہی جاتے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*