سنگت پوہ وزانت رپورٹ

 

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ علمی و ادبی نشست اپنے معمول کے مطابق اتوار یکم اگست2021ء کی صبح گیارہ بجے پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ نشست کی صدارت سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پروفیسر جاوید اختر نے کی۔ اعزازی مہمان ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو تھے اور نظامت کے فرائض سیکرٹری پوہ و زانت نجیب سائر نے ادا کیے۔

پروگرام کا آغاز جمیل بزدار نے اپنے مضمون سے کیا جس کا عنوان ’نَڑ سُر‘تھا۔ انہو ں نے نڑ سر کی تاریخ و روایت پر مختلف حوالوں سے بات کی۔کہا کہ کوہ سلیمان کا نام لیا جائے اور نڑ سر کا ذکر نہ ہو تو بات کرنے والا ان علاقوں میں گیا نہیں یا پھر اسے کوہ سلیمان کے بارے میں سرے سے علم ہی نہیں۔ کوہ سلیمان میں شاید ہی کوئی شادی ایسی ہو جہاں نڑ سر کی محفل نہ سجتی ہو۔ نڑ سر کو مشرقی بلوچستان میں جس اپنائیت سے سنا جاتا ہے اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نڑسر نے کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں پروش پائی اور کوہ سلیمان باسیوں کے ہی ہو کے رہ گیا۔نڑ سرکی شاعری طویل ہوتی ہے۔ یہ چار سو سے پانچ سو مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے جسے دستانغ کہتے ہیں۔ شعرانے عشق و محبت بلکہ وطن سے محبت، بلوچ نیشنلزم و قومی ہیروز، قومی شہدا اور قومی جنگوں پر دستانغ لکھے۔ جب ہم خود اپنے ثقافت و ادب کا خیال نہیں رکھیں گے اس پر کام نہیں کریں گے تو گلہ کس سے کریں۔ آج بھی نڑ سر پر سنگت اکیڈمی کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔باقی دنیا میں تھروٹ سنگنگ پر نہ صرف سائنسی بنیادیوں پر ریسرچ ہو رہاہے بلکہ اس میوزک کو باقاعدہ اداروں میں پڑھایا جاتاہے ۔ نڑ سر کو کوہِ سلیمان تک محدود نہیں رکھنا بلکہ پورے بلوچستان اور دوسرے علاقوں تک پہنچانا بھی لازم امر ہے۔

ان کے مقالے پر تبصرہ کرتے ہوئے جیئندخان جمالدینی نے کہا یونیورسٹیز اس حوالے سے کام کرسکتی ہیں۔

ان کے بعد عابد میر نے جولائی کے سنگت میگزین پہ تبصرہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ میگزین ایک ایسا جنرل اسٹور ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے مگر ایک خاص ذائقے کے ساتھ۔ رسالے کے تمام حصوں پہ بات کی۔ ایڈیٹوریل کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہاکہ سنگت میں کچھ اور نہ چھپے تو صرف اس کا ایڈیٹوریل لگا کر رسالہ چھاپا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے سائنس و فلسفہ پہ بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ سائنس و ہ حتمی سچائی ہے جسے ری پروڈیوس کیا جاسکتا ہے ۔سائنس کا دوسرا کمال یہ ہے کہ یہ دریافت کرنے والا علم ہے۔تیسری بات یہ کہ سائنس کے قوانین اگر نہ ہوں تو دنیا نہیں چل سکتی۔مٹیریل چیزوں کے بارے میں ڈیل کرنے والا جو علم ہے وہ سائنس ہے۔ میٹر کی کوئی تاریخ پیدائش ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی معیاد ختم ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں موجو دہوتا ہے. عابد میر نے سوال اٹھایا کہ تھیوری چیز کیا ہے۔تخیل کے بغیر سائنس کیا ہے۔ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے شعور اور مادہ کے موازنے پہ بات کی، جئیند جمالدینی نے فزکس کے قوانین کا حوالہ دیا، ڈاکٹر ساجد بزدار نے فلسفہ پہ بات کی جبکہ وحید زہیر نے سائنس اور اخلاقیات کا سوال اٹھایا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے تمام سوالوں کا تفصیل سے جواب دیا۔

اُن کے بعدبی بی حوا نے اجلاس کی قراردادیں پیش کیں، جن کی منظوری متفقہ طور پر دی گئی۔
1۔دریائے سندھ کے پانی سے بلوچستان کے حصے کی مکمل فراہمی یقینی بنائی جائے اور ساتھ ہی بلوچستان میں نہری پانی کی چوری اور خریدوفروخت کی روک تھام کے لیے اقدام کیے جائیں۔
2۔بلوچستان کے کسانوں کو مفت بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
3۔یہ اجلاس حکومتِ بلوچستان کی گرینڈ ایمپلائز الائنس کے مطالبات پر چشم پوشی پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور انہیں تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
4۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام کا مطالبہ کرتا ہے۔
5۔جب تک کوئی تعلیم یافتہ شہری بے روزگارہے اسے بیروزگاری الاؤنس کی فراہمی ہو۔اور بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔
6۔ مسنگ پرسنز کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتا ہے۔
7۔بلوچستان کے مسئلے کو سنجیدہ سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
8۔کیچ مکران میں کرونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کا مطالبہ کرتا ہے اور ہسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر ز اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔
9۔بلوچستان میں بڑھتی ہوئی ہیپاٹائٹس کی بیماری کی روک تھام اور اس کے علاج کا مطالبہ کرتا ہے۔
10۔بلوچستان و ڈیرہ غازیخان میں بڑھتے ہوئے کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے کینسر ہسپتال کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے۔
11۔ڈیرہ غازیخان میں یورینیم اور تابکارریڈیو ایکٹویٹ کے مناسب ڈسپوزل کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی وہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مطالبہ کرتا ہے۔
12۔بلوچستان میں منشیات کے کاروبار اور ان کے استعمال کی روک تھام کا مطالبہ کرتا ہے۔
13۔بلوچستان میں قبائلی رنجشوں اور جھگڑوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدام کا مطالبہ کرتا ہے۔
14۔محنت کش کی تنخواہ کم از کم ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر بڑھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔
15۔جھٹ پٹ بائی پاس پر نہری پانی کی کمی، چوری اور خریدوفروخت کے خلاف کسانوں کے پرامن مظاہرے پر فائرنگ کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس گھناؤنے کام میں ملوث افراد جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔

نشست کے آخر میں سنگت اکیڈمی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پروفیسر جاوید اختر نے جمیل بزدار کے مضمون کے حوالے سے کہا کہ انسان ٹُول بناتا ہے۔ فرینکلن نے اسے ٹُول میکنگ انیمل کہا ہے۔ انسان نے مختلف ادوار میں چار قسم کے ٹولز بنائے۔ ایک ہے پیداواری ٹولز، دوم جنگی ٹولز، تیسرے نمبر پر کچن ٹولز ہیں اور چوتھے ہیں میوزک کے ٹولز۔ میوزک میں سب سے قدیم بانسری ہے یا نڑ اس کی فارم ہے۔بائبل اور رگ وید جیسی قدیم کتابوں میں بھی صنفی یا بانسری کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح بھگوت گیتا میں کرشن بانسری بجاتا تھا اور رادھا کو پیغام بھیجتا تھا۔ہیررانجھاکے قصے میں بھی ہمیں بانسری ملتی ہے۔

عابد میرکا تبصرہ تنقیدی تھا۔ جو سوالات اس نے اٹھائے ہیں آئندہ میگزین میں ان کا خیال رکھا جائے گا۔  مزید کہا کہ سنگت اکیڈمی اب تیسری دہائی میں داخل ہوچکی ہے۔ اپنی فکر میں، اپنے عمل میں اور اپنے نظریاتی سفر میں اور یہ سفر جاری ہے اور اپنی آخری منزل تک جاری رہے گا۔ سنگت نے ان تین دہائیوں میں بہت سا سفر طے کرلیا ہے اور ابھی بہت سا سفر اسے طے کرنا ہے اس آخری منزل تک جو اس کی منزل ہے اور وہ منزل ایک ایسے سماج کے قیام کی ہے جس کے اندر نہ ا نفرادی استحصال ہوگانہ قومی استحصال ہوگا نہ طبقاتی استحصال ہوگا نہ صنفی استحصال ہوگا۔

کتاب سٹال بھی لگایاگیا۔ جہاں نوجوانوں نے اپنی پسند کی کتب اور رسالے خریدے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*