غزل

مِلیں گے مجھ سے ہَستِ دائمی مِیں
جو میرے ساتھ تھے پِچھلی صَدی مِیں

روانی سوچ کی فالج زدہ ہے
عجب سَکتہ پڑا ہے شاعری مِیں

مُصّور سُولیوں پہ چڑھ گئے ہیں
مناظر قید ہیں اِک کوٹھڑی مِیں

کہیں آواز مِیں لَے مُنجمِد ہے
کہیں سُر مرگئے ہیں نغمگی مِیں

نہ پڑتے ذہن پہ فِکروں کے کوَڑے
نہ بیداری کَراہتی بےبَسی مِیں

جو لمحے خاکِ ہَستی مِیں اَٹے ہیں
وہ بھِیگے تھے خِلاؤں کی نَمی مِیں

مِرے سِینے مِیں صِحرا ڈُوب جائے
مَیں گُم ہوجاؤں اِسکی تِشنَگی مِیں

زمانے کو دِکھائی دے رہا ہے
مِرا چہرہ تمھاری روشنی مِیں

اماوَس مِیں تمھاری آہٹوں سے
دَراڑیں پَڑ رہی ہیں تِیرگی مِیں

نظریہ داں مُفکِر گُھل رہے ہیں
اَنا کے حاشِیوں کی نیِستی مِیں

میں پَستہ قامتِ عقل و ہُنر ہوں
مجھےرہنے دو میری کمتَری مِیں

ہوائیں سجدہ کرتِیں گُل زمیں کو
پرندے رقص کرتے بےخُودی مِیں

مشین اک وقت کی جادوُئی ہوتی
مَیں سارے دَور جِیتی زندگی مِیں

ستارے آخرِ شب آنکھ مَلتے
مِرے پہلُو سے اُٹھتے چاندنی مِیں

مِرے ہمراہ چلتِیں کاہکشائیں
مِرے افلاک سوجاتے تُمہی مِیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*