ڈیڑھ گھنٹہ کی ملاقات

 

جیسے اِک پارہِ سحاب

آج کسی نے سورج کے ساتھ آویزاں کردیا ہے

علیحدہ کرنے کی بہت کوشش کی

بے سْود

یوں لگتا ہے

سورج کے سرخ لباس میں یہ بادل کسی نے بْن دیا ہے

ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات

آج سامنے چوک میں سنتری کی طرح استادہ

میرے خیالوں کی گزرگاہ کو

ہاتھ دے روک دیا ہے

خدا جانے میں نے کیا کہا تھا

اور خدا جانے، تْونے کیا سْنا۔۔۔۔

ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات

سوچتی ہوں، آدمی واسی عورت کی طرح

میں چلم جلالوں

اور ڈیڑھ گھنٹہ کا تمباکو

اس آگ میں رکھ کر پی لوں

اس سے پہلے کہ میری سوچ گھبرا جائے

اور غلط موڑ لے لے

اس سے پہلے کہ بادل اتارتے ہوئے سورج پھٹ جائے

اس سے پہلے کہ ملاقات کی یاد نفرت میں بدل جائے

ڈیڑھ گھنٹہ کا دھواں

کچھ پی لوں

اور کچھ ہوا پی لے

اس سے پہلے کہ حرفِ ذکر

میری یا تیری زباں پر آے

اس سے پہلے کہ میرا یا تیرا کان

۔۔۔۔۔ اس ذکر کو سْنے

اور اس سے پہلے کہ مرد

عورت کی توہین بن جائے

اس سے پہلے کہ عورت کی ہتک کا باعث بنے

اس سے پہلے

اس سے پہلے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*