احمد خان کھرل

 

۔1776۔۔21ستمبر1857۔

 

نازک مزاج سامراج کے غضب کی پیشانی پر احمد خان نے بہت سارے بَل ڈال دیے تھے۔ احمد خان انگریز کے قیلولہ میں بھنگ ڈالنے کے لیے اس کے نرم وابریشمی پہلو کے نیچے ایک نوکیلا پتھر بن چکا تھا۔ اُس کا معدوم کیا جانا اب بہت ضروری ہوچکا تھا۔

چنانچہ گوگیرہ کے برکلے نے ساہیوال کے مارٹن کو لکھا جس نے پھر ملتان کے میجر ہملٹن کو لکھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ملتان سے لاہور تک احمد خان کے چرچے، چھاؤنیوں اور کچہریوں تک جا پہنچے۔

اگست کا ماہ نسبتاًخاموش گزرا۔ مصیبت تو ستمبر نے کھڑی کرنی تھی۔ احمد خان نے اچھی خاصی رابطہ مہم جاری رکھی ہوئی تھی۔ اُس بوڑھے نے کمال استادی کے ساتھ گردونواح کے سارے علاقے کے لوگوں کو موبلائز کیا۔ کچھ اسلحہ باروکے دانے دنکے اکٹھے کیے۔ کم ہی عرصے کے اندر فرنگی سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ قرب وجوار میں ہر جگہ جاگ چکا تھا۔ منصوبہ بندی خوب سوچ سمجھ کر اور علاقے کی جغرافیائی اور سماجی صورت کے مطابق کی گئی۔ اپنی اور دشمن کی طاقت کا تخمینہ لگا کر داؤ پیچ اختیار کیا گیا۔

17ستمبر کو وطن پرستوں کے مقدس دلوں کا یہ لاوا پھٹ ہی گیا۔ ڈھول پیٹے جانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہر جگہ سے عبادت بھری لڑائی شروع ہو۔ اور یہی ہوا۔زرعی پیداوار میں مصروف عام محنت کش آبادی یک دم اپنا پیشہ بدل گئی۔ اب اس علاقے کی آبادی جنگِ آزادی کے ہول ٹائمرز میں تبدیل ہوگئی تھی۔ لگتا تھا اچانک زمین شق ہوگئی ہو اور زمین اپنے اندر نگلنے کے سسی پنہوں والے واقعے کے برعکس کام کرنے لگی۔یہاں اب زمین، عشاق کو باہر اگلنے لگی۔ اچانک سینکڑوں کی تعداد میں لڑاکے ”کہیں نہیں“ سے نکل آتے، اور غنیم کو اپنے بدن سے گرم لہو بہنے کے وقت ہی پتہ چلتا کہ اُس پہ کاری حملہ ہوچکا ہے۔ کمک کی چیخ مارنا تو چھوڑیے وہ تو اپنا ”قبضہ گر کلمہ“ بھی نہ پڑھ پاتے۔ کندھا دقیقوں کے اندر اندر بے جان ہوجاتا اور اس پہ لٹکی بندوق بحقِ آزادی ضبط ہوجاتی۔انگریز کا اسلحہ ہر جگہ چھینا جانے لگا۔ ایسی گوریلا جنگ کہ انگریز کا ذہنی جسمانی سکون برباد ہوچکا تھا۔اچانک درختوں میں سے بلا نکلتی تھی، مہلک کاروائی کرتی تھی اور پھر دھرتی سے ہم آہنگ ہو کر نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی۔انگریز کو گھوڑوں کی ضرورت تھی، لوگوں نے اپنے گھوڑے غائب کردیے۔ (پورا وطن بے گھوڑا ہوگیا)۔ انگریز کو پہلے سے موجود گھوڑوں کے لیے چارے کی ضرورت تھی، اور لوگوں نے چارہ غائب کردیا۔ (پورا وطن ”بے چارہ“ ہوگیا)۔ انگریز دوسری چھاؤنیوں سے کمک کے لیے قاصد بھیجتا۔مگر وہ پیغام پہنچانے سے قبل ہی راستے میں اجل کا پیغام سن جاتے۔ (پورا وطن ”بے قاصد“ ہوگیا)۔

کوشش کے باوجود وہ احمد خان کو گرفتار نہ کرسکے۔اس لیے کہ وہ تو پہلے ہی راوی پار کر چکا تھا۔ دریا کے کشتی بان نے انگریز کو کشتی پہ بٹھانے سے انکار کردیا تاکہ احمد خان دور نکل سکے۔ اس کشتی بان کو گولی ماردی گئی۔(3)۔(موجودہ بدبخت حکمرانو!۔ اس کشتی اور کشتی بان کے مجسمے کھڑے کردو، تمہاری بخشش ویسے تو ہونی نہیں!!)۔

وہاں کے اسسٹنٹ کمشنر نے ملتان کے کمشنر کو لکھا کہ مجھے مسٹر برکلے سے ایک مراسلہ ملا کہ وہ احمد خان کھرل کا راستہ میں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اور جس کشتی میں اُس نے دریا پار کیا ہے، وہ دریا کے کنارے ایک ایسی کھاڑی میں لنگر انداز ہے جہاں ہماری بندوقوں کی گولیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ وہاں پر تعینات چوکیدار نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کشتی کو کسی حالت میں واپس نہیں لے جانے دے گا چونکہ اسے سخت احمد خانی احکامات ملے ہوئے ہیں۔

چنانچہ اس آزادی لشکر کے خلاف دس فوجی دستے کرنل پیٹن، لفٹینٹ چیسٹر، کیپٹن چیمبرلین،کیپٹن سنو،کیپٹن میک اینڈ ریو،لیفٹینٹ نیوائل اور برکلے کی کمان میں بھیجے گئے تھے۔

۔17 ستمبر کو اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی کر دی۔ لیکن احمد خان تو کیا اُس کی پر چھائیں تک نہ تھی۔ لہذا وہ گرفتار نہ ہو سکا۔ سوختہ وتافتہ غنیم توکبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا، اس لیے کہ یہ اُس کے حرص کی توہین ہوتی ہے۔ اور یہاں ”حرص“ اپنی صورت ”خوفزدہ کرنا“ میں ڈھال گیا تھا۔ چنانچہ اس نے گاؤں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ اور تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔انگریز نے پنجاب کے ماوند (جھامرہ) کو آگ لگادی۔ (4)۔(اس کے باوجود بھی ہمارا عام آدمی اب بھی اسی انگریز کی تعریفیں کرتا پھرتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی قبروں میں اللہ کرے کوئی سکون موجود نہ ہو، جن کی بری حکمرانی کی وجہ سے لوگ اِس غلیظ خصلت انگریز کو اچھا کہتے ہیں)۔

قارئین کی یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے کہ انگریز دوسرے ڈاکوؤں یعنی فرانس، سپین یا پرتگال سے بہتر سامراجی تھے۔ اور گویا وہ شہر نہیں جلاتے تھے۔ دو شہروں کے نام تو میں نے یہاں دے دیے ہیں ہمیں ان کے ناپاک ہاتھوں اپنے اور بھی بہت سے سوختہ شہر ملیں گے۔

گوگیرہ‘ چیچہ وطنی‘ ہڑپہ‘ اور ساہیوال میدانِ جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ مختلف شائع شدہ منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ سادہ، شریف اور غیر منظم آزادی پسند اکیلے اکیلے بھی انگریز کے لیے موت بنتے گئے، مگر وہ جتھوں کی صورت بھی لڑے۔ وہ کہیں تین ہزار تھے تو کہیں بیس ہزار۔ پورا وطن آزادی کا رقص رقصنے امڈ آیا تھا۔

انگریز اپنی سپاہ اور جاسوسوں سمیت، اور ہارس ٹریڈنگ شدہ پیروں فیوڈلوں سمیت کبھی اوکاڑہ بچانے وہاں دوڑتا، کبھی ہڑپہ بچانے وہاں کی مٹی پھانکتا، اور کبھی گوگیرہ کے ”پشتے“ مضبوط کرنے ہانپتا وہاں جاتا۔ ”کال بلیندی“کے مطابق سارا وطن بلوچستان بن چکا تھا۔یہ سارا نفسک و ساڑتاف و گوخ پروش وگمنبد و ہڑب میں ڈھل چکا تھا۔ انگریز کی کمک کی چیخیں کبھی ملتان چھاؤنی جاتیں، کبھی لاہور کو بازگشت کرآتیں۔۔۔

اُدھر آزادی پسند بھی اپنی چالیں بدلتے جارہے تھے۔انہوں نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ بقول مارکس کے ”انگریزوں کو رسد اور باربرداری کے لیے جانور حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ پچھلے آٹھ دنوں سے ملتان تا لاہور آمدو رفت کا راستہ بند ہے“(5)۔

اس جنگ میں کھرلوں کاسارنگ، جہانہ، نبی بخش، سیدا اورخود احمد خان کا خاندان واہ جو لڑے۔

21ستمبر کو احمد خان کھرل ساتھیوں سمیت اوکاڑہ کے شمال مشرق میں آٹھ میل کے فاصلے پرچک نمبر 20گشکوری کے قریب ویران علاقہ میں ”نورے کی ڈل“ پہنچ گیا۔ یہاں کئی روز سے مجاہدین اکھٹے ہورہے تھے۔ احمد خان کھرل نے نئے سرے سے لشکر ترتیب دینا شروع کردیا۔ پروگرام تھا کہ ایک دو روز تک مزید مجاہدین کو اکھٹا کر کے گوگیرہ پر بھر پور حملہ کردیا جائے۔

وطن دوست کئی روز سے بھوکے تھے۔ جذبہ جہاد میں سرگرداں بہادروں کے لیے ویران علاقوں میں کھانے کھانے پینے کا انتظام ناممکنات میں سے تھا۔ اس روز بھوک سے تنگ آکر مجاہدین نے چراگاہ سے کچھ بھیڑیں اٹھالیں۔ انہی دو چرواہوں چگوگا ؔاور میروؔنے اپنے سردار دھاڑا سنگھ کو مطلع کردیا کہ باغی یہاں چھپے ہوئے ہیں اور انہوں نے بہت سی بھیڑیں بھی کھالی ہیں۔ انگریزوں کے وفادار دھاڑا سنگھ نے فوراً ڈپٹی کمشنر کو اطلاع دی۔جس طرح آزادی پسندوں میں مذہب اور قبیلے کا امتیاز نہ تھا اسی طرح عوام کے غداروں میں بھی رنگ وبو کا تمیز مفقود تھا۔ بے شمار ”ہیرے جواہرات“انگریز کی غلامی کی چھوٹی انگلی کی انگوٹھی بن چکے تھے۔ نام نہیں لکھوں گا کہ غدار کا کیا نام لکھنا؟۔البتہ وطن کی خاطر سر قربان کرنے والوں کا تذکرہ کرنے کے لیے ہی تو میں نے یہ سفر کیا تھا۔ مقدس نام پڑھیے (اور ہوسکے تو انہیں زندہِ جاوداں کرنے کے لیے یہ معتبر نام اپنے بچوں پر رکھیے اِس لیے کہ بلوچ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی کا نام بچے کی شخصیت کا چالیسواں حصہ تشکیل دیتا ہے)۔ ماں وطن پہ سر نذر کرنے والے ہمارے ہیرؤں کے نام یہ ہیں:عبدل، کرملی، کلو، باہلک، رحم، دانا، مکھنا، سیدا، جھنڈا، جہانہ، مامد خان۔”ڈھولے“نامی لوک گیت جب تک سنے سنائے جائیں گے یہ پاک نام اس دھرتی کی فضاؤں میں چہکتے چمکتے رہیں گے۔

مجھے اب ڈین بن پھو کا ذکر کرنا ہی چاہیے۔ مجھے جنگ کے دِل ”گشکوریاں‘‘ کے نام کا ورد کرنا ہی چاہیے۔ جہاں انگریز کو اطلاع ملی کہ دھرتی کا عمر مختار، احمد خان وہاں جنگل میں موجود ہے۔ ایک آرگنائزڈ سٹینڈنگ آرمی اور ایک خود رو عوامی تحریک میں یہ فرق ہے کہ اول الذکر کی ادارتی تشکیل بہت مضبوط ہوتی ہے۔ انگریز جاسوسی کا نظام بہت منظم تھا۔اور یہ جاسوسی ہوگئی۔ اور جنگل وار کے ہیرو کا گھیراؤ ہوا۔ نتیجہ تو معلوم تھا مگر جنگ سے پہلے اور جنگ کیے بنا شکست کیوں مانی جائے۔ اس لیے کہ اگر اُس دور کی ٹکنالوجی انگریز کے ساتھ تھی،تو ہر دور کی حب الوطنی احمد خانوں کے پاس تھی۔ فرنگیوں نے اپنی ساری فوج کا رخ گشکوری کے قریبی جنگل کی طرف موڑدیا۔ کیپٹن بلیک اور لیفٹیننٹ چی چیسٹر گھڑ سوار فوج لے کر آگے بڑھے۔

یہ کمال عجب بات ہے کہ بیرونی حملہ آور کو ہمیشہ جاسوس مل جاتے ہیں۔ہمارے اپنے اندر سے ہماری اپنی ہی صفوں میں سے۔یہاں بھی خود کھرلوں کے اندر سے ہی انگریز کو ساتھی ملے ہوئے تھے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جاسوس ہمیشہ پیسہ، لالچ اور انعام کے لیے بھرتی نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی اپنا بچپنا بھی اتحادی کو دشمن نمبر ایک بنا دیتا ہے۔تو باہمی دشمنی میں بھی بڑی طاقت کو سہارا بنا کر اپنا حساب بے باک کیا جاتا ہے۔

کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز، احمد خان کے خلاف انگریز کا ساتھی بنا۔

جنگ شروع ہوگئی۔سوچتا ہوں کہ جنگ سے پہلے احمد خان اپنے ساتھیوں سے کچھ تو بولا ہوگا۔ کوئی تقریر،کوئی ہدایت، کوئی نصیحت، کوئی وصیت۔۔۔ یقین ہے کہ وہ تقریر کا سٹرو کی ”ہسٹری وِل ایبزالو می“ سے بھی بڑھ کر روح افزا ہوتی ہوگی۔ ہم نے کتنا کچھ گنوادیا ہے!۔ ہم کتنے بڑے خسارے میں ہیں!۔عوام خالی ہاتھ ہیں!۔ جھوک شریف کے شاہ عنایت کی آخری جنگی تقریر بھی موجود نہیں۔ لعل شہید محراب خان کی بھی کوئی تقریر موجود نہیں۔ ہم بخت کے دھتکارے ہوؤں کے پاس ضیاء الحق ہی کی اندھیر پھیلاتی تقریریں موجود ہیں۔ ہم اپنی تاریخ سے عاق کردہ لوگ ہیں۔

مقابلہ شروع ہوا۔ ہم پہ کیا بیتی اسے چھوڑیے، مگر اُس روز فرنگیوں کا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔”دلمرادوں“ نے ان کے ہتھیار چھین کر انہی کے خلاف استعمال کیے۔ لوک روایات کی رو سے دورانِ جنگ کم از کم بیس ڈھولی ڈھول بجا کر وطن پرستوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔بیس ڈھول بہ یک وقت!!۔ڈھولوں کی تال میں محبوباؤں والے نوجوان مست ہو کر لڑے۔ رقص و شمشیر،اور ڈھول و شمشیر کے ساتھ کو شیطان بھی نہ توڑ پایا۔ کہتے ہیں کہ گولیوں کی برسات میں بھی دِلو ؔجنگ کے اختتام تک ڈھول بجا تا رہا۔ ایک مجاہد واہگھ ؔولد ریحان گولی سے زخمی ہو کر بھی ایسی بے جگری سے لڑا کہ لوگ آج بھی اس کا نام لے لے کر گاتے ہیں۔ فوک شاعری میں ایک اور نوجوان قادو ؔ کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ جس نے تن تنہا بہت سے انگریز فوجیوں کو ہلاک کر کے اس پہ دہشت پھیلادی تھی۔ دلچسپ ہے کہ لوگ اپنے بادشاہوں فیوڈلوں کو توبھلا دیتے ہیں مگر وہ اپنے قادوؤں، اپنے ہوشوؤں (ہوش محمد شیدی) کو کبھی نہیں بھولتے۔

روایت کے مطابق اس جنگ میں انگریزوں کا جانی نقصان سرکاری ریکارڈ سے کئی گنا زیادہ تھا۔ یہ جنگ صبح سے شام تک جاری رہی۔

احمد خان اور اس کے ساتھی بہادری اور ایمان کے ساتھ لڑتے رہے۔یوں بہادروں نے انگریز کا یہ بڑا حملہ پسپا کردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ انگریز دو میل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔

مگر، مگر،مگر۔۔۔(افسوس یہ لفظ ”مگر“ ہمیں مارگیا)۔ مگر انگریزی فوج کا ایک چھوٹا حصہ وہیں جنگل میں چھپ گیا۔

آزادی پسندوں کی نگاہ میں انگریز بھاگ گیا تھا۔ اور جب جنگ کے بادل اور گردچھٹ گئے تو مطمئن احمد خان عصر کی نماز کے لیے اٹھا۔

احمد خان پہ اُسی نماز کی حالت میں حملہ کیا گیا۔ برکلے قریب ہی چھپا موقع کی تلاش میں جوتھا۔

گشکوریاں کا بیٹا، احمد خان وہیں گولی لگنے سے نماز پڑھتے ہوئے ”وطن نثار“ہوگیا۔آہ۔ مگر گولی،سامراج کے پُچکارے ہوئے اپنے ہم وطن ہی نے اُس پہ چلائی تھی: یادھاڑے سنگھ نے، یا گلاب رائے بیدی نے۔

کہتے ہیں کہ احمد خان کی شہادت،استبداد کے خلاف عالمی جنگ لڑنے والوں کے امام، امام حسین ؓکی شہادت کے دن ہی ہوئی تھی۔جی ہاں، دس محرم کو۔

مجھے ”بیلی“ کا لفظ بہت اچھا لگتا ہے۔ پہلے پہل جب ابھی بچپن کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے تب یہ لفظ سنا تھا۔ اور ایک بہت ہی مقدس جوڑی کے حوالے سے سناتھا: سمو بیلی۔ہم مری قبیلے کے لوگ توکلی مست کو اسی احترامی نام سے پکارتے ہیں۔ہم گھوڑے پہ دوسواروں کو بھی ”بیل یا بیلی“کہتے ہیں۔ اب کے ”سنگت“ لفظ نے اس تصور کی صوتی ادائیگی کی سنٹرل کمیٹی کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ ورنہ بیلی مجھے ابھی بھی اچھا لگتا ہے: مورچے کا ساتھی، ہم شانہ، ہم تحریک۔یہاں یہ لفظ تو بہت چھوٹا ہے مگر مجھے اس سے اچھا لفظ مل نہیں رہا۔ اس لیے تذکرہ کر رہا ہوں کہ یہیں گشکوریاں میں احمد خان کا جڑواں، اس کا ”بیلی“سارنگ نامی وطن پرست بھی اپنی دھرتی ماں کی آغوش کو گرم کر چکا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*