دل کی دنیا

بیل نے اول تو دیوار پر موجود پرانے گھڑیال کی طرف دیکھا اور پھر کہنی مارکر راجا سے پوچھا:” کیا مجنوں بھی کسی دفتر میں کلرک تھا ؟“
”ان دنوں دفاتر نہیں بلکہ گھوڑوں کے اصطبل ہواکرتے تھے۔“ راجا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجنوں نے زندگی میں فقط ایک گھوڑا دیکھا تھا اور اسے بھی ہاتھی سمجھ کر کانپ اٹھا تھا،“ بیل بولتا رہا ،”اور پھر کئی راتوں تک مجنوں کو خواب میں لیلیٰ کی جگہ گھوڑا دکھائی دیتا رہا۔“
”صحیح کہتے ہو ،بیل!“ راجا نے کہا،” مجنوں جاٹ تھا اور وہ اونٹوں کے آگے اگربتیاں جلاتا تھا۔“
میں نے فائلوں کی ٹیڑھی میڑھی تحریر سے نظریں ہٹاکر بیل اور راجا کی طرف دیکھا۔
”تمھاری بات نہیں،“ بیل نے کہا،” تم جدید ہو ،ہم قدیم مجنوں کی بات کررہے ہیں۔“
”بڑے واہیات ہو۔“میں نے جل بھن کر کہا۔
”شٹ اپ،“ بیل نے گھٹی ہوئی آواز میں ڈانٹا اور جیب سے کنگھی نکال کر بال منہ میں لے لیے۔
ہیڈکلرک نے ہم تینوں کو گھور کر دیکھا اور کنکھار کر گلا صاف کیا۔ہم تینوں نے اپنی نظریں فائلوں پر جمادیں۔
میں نے پرانے گھڑیال کی طرف دیکھا۔ پانچ بجنے میں تئیس منٹ باقی تھے۔ہمیں پانچ بجے کے قریب دفتر سے چھٹی ملتی تھی۔جس دن میرا تمنا سے ملنے کا پروگرام ہوتا،اس دن شام کے پانچ بجے مجھ سے پانچ کوس دور ہوجاتے ۔یہ آخری پانچ منٹ پانچ گھنٹے ہو جاتے ۔ گھنٹے ہفتوں میں،ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں تبدیل ہوجاتے تھے۔
میری نگاہیں گھڑیال کے پنڈولم پر ٹکی ہوئی تھیں۔مجھے کانٹے رکے ہوئے محسوس ہوئے۔ دل نے چاہا کہ سب سے آنکھ بچا کر چھوٹے کانٹے کو پانچ اور بڑے کو بارہ پر کھڑاکردوں۔میں اپنے اس احمقانہ خیال پر دل ہی دل میں ہنس پڑا۔شاید ایک اداس اور پھیکی مسکراہٹ میرے چہرے پر پل بھر کے لیے کھیل کر لوٹ گئی تھی۔
”گڈ لک!“ بیل نے میری توجہ اپنی طرف منعطف کرلی۔میں اس سے آنکھ نہ ملا سکا۔
راجا نے کہا،” چھوڑ،بیل! بچارا شرماتا ہے۔“
”نیوَر مائنڈ،“ بیل نے کہا،” ابھی نیا ہے،رواں ہوجائے گا۔“
میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہا۔میں بے حد پریشان تھا۔بیل اورراجا کی ہنسی مذاق زہر لگ رہی تھی۔
بیل اور راجا میرے ساتھ بناسپتی گھی کے کارخانہ میں کلرک تھے۔بیل ٹھگنا اور موٹا تھا ،اس لیے اپنے آپ کو مسخرہ سمجھتا ۔ہر ایک اسے بیل کہتا تھا۔اس کے اصلی نام کی بہت ساروںکو خبر نہیں تھی۔راجا کے اصلی نام کا پتہ بیل اور میرے سوا بہت کم لوگوں کو تھا۔وہ روسی لٹریچر پڑھتا اور امریکی اداکاروں کی تصاویر جمع کرتا ۔ہم تینوں کو ایک بڑی میز ملی ہوئی تھی،جس کا ایک پہلو دیوار سے ملا ہوا تھا اور بقیہ تین اطراف میں ہم تینوں بیٹھتے ۔ہم ہیڈ کلرک سے آنکھ بچا کر پورا دن ایک دوسرے کے ساتھ مذاق کرتے اور ایک دوسرے کی ہنسی اڑاتے تھے۔
لیکن اس روز میں نے بیل اور راجا کی مذاق کا کوئی جواب نہیں دیا۔میں خاموش رہا۔میں صبح سے پریشان تھا۔
صبح اخبار میں کراس ورڈز کے معمہ کا حل دیکھ کر میرا دل سہم گیاتھا۔میری امیدیںناامیدی کے غم ناک تاریکی میں چکرانے لگی تھیں۔حسرتیں ریت کے ٹیلے کے نیچے دفن ہوگئیں۔
ایک دن پہلے،شام کے وقت،جب کراس ورڈ معمہ کا حل پر کرکے سپنسر کے ڈبے میں ڈال کر ہوٹل فاروق کے فیملی روم میں بیٹھے تھے، تب تمنا نے پوچھا تھا،” شامو!اگر اس بار ہمیں صحیح ڈھونڈنے پر ایک لاکھ روپے ملے تو کیا کریں گے؟“
جواب دینے سے پہلے میں نے تمنا کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔پل بھر کے لیے ہماری نگاہیں مل کر الگ ہوگئی تھیں۔میں نے اس کی نرم و نازک اور خوبصورت انگلیوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیاتھا۔اس نے سر جھکا لیاتھا او دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے ساسر کو گھمانے لگی تھی۔
آہستہ ،مدہم آواز میں ،میں نے دل کی گہرائیوں سے کہاتھا،” سب سے پہلے ہم شادی کریں گے،تمنّا!“
وہ شرماگئی تھی اور اپنی انگلیاں میرے ہاتھ کے نیچے سے کھسکا لی تھیں۔
”مجھ سے شادی کروگی نا ؟تمنّا!“ میں نے احمقوں کی طرح تمنّا کے بےحد خوبصورت چہرے کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے جواباً پلکیں اٹھاکر اپنی نگاہیں میری نگاہوں سے ملادی تھیں۔میں نے اپنے دل کو ٹائپ رائٹر کے ربن کی مانند گول دائرے میں چکر کھاتے محسوس کیاتھا۔
”کہو،تمنّا!“ میں نے اپنے دونوں بازو ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا تھا،” اس بار اگر صحیح حل نکلا تو مجھ سے شادی کروگی ناں؟“
تمنّا کے گال سرخ ہوگئے تھے۔اس نے حیاءکے مارے سر جھکا دیاتھا۔
”سچ،تمنّا!“
”ہوں۔“
”اوہ ،تمنّا!“ میں نے تمنا کا نازک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا دیاتھا۔میں نے کہا تھا،” پھر ہمارا پنا گھر ہوگا،تمنّا! تمھاری بہنیںاور میرے بھائی خیراتی سکولوں کے بجائے پرائیویٹ اور پبلک سکولوں میں پڑھیں گی۔میری ماں میونسپلٹی کے مفت شفاخانہ کی سرخ دوائی کے بجائے کسی مشہور ڈاکٹر سے علاج کروائے گی۔“
”اور شامو!“ تمنّا نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا،” ہم دونوں یہ واہیات نوکری چھوڑدیں گے ۔“
”ہاں،تمنّا!نہ مجھے ڈپٹی کی ڈانٹ سننی پڑے گی اور نہ تمھیں کوئی مشکوک نگاہوں سے دیکھے گا۔“
”لیکن اس طرح توایک لاکھ روپے سال بھر میں ختم ہوجائیں گے۔“
”ہم بزنس بھی تو کریں گے۔“
”کون سا؟“
میں سوچ میں پڑگیاتھا۔کپاس اور گندم کی تجارت سے لے کر سونے کی سمگلنگ تک ایک ایک کاروبار میرے ذہن میں آکر لوٹ گیا۔
”میں بتاو¿ں؟“ تمنّا نے کہا تھا۔
”بتاو¿۔“
”ہم ایک ڈاٹسن کارلیں گے۔“
”ڈاٹسن کیوں؟“ میں فوراً کہاتھا،” ہم شیورلیٹ،امپالا یا مرسڈیز بینز لیں گے۔“
”اپنے لیے لیں گے ناں؟“
”ہاں۔“
”ڈاٹسن کاربطور ٹیکسی چلائیں گے۔“
”واہ! گڈ آئیڈیا۔“
”اچھی آمدنی ہوتی ہے آج کل ٹیکسی سے،“ تمنّا نے کہا تھا،” پھر میں نائٹ کالج کی جگہ سینٹ جوزف کالج میں داخلہ لوں گی۔“
”ایکسی لنٹ۔“
”اور تم انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے لیے کراچی یونی ورسٹی میں داخلہ لینا۔“
”ونڈر فل،“ میں نے جواب دیاتھا،” ہم روز روز دال کھانا بھی چھوڑ دیں گے۔“
کچھ دیر تک تمنّا نے بات کی تھی نہ میں نے۔ہم دونوں اپنے اپنے خیالات سے الجھتے،امیدوں کے تاج محل بناتے اور گراتے رہے۔تصور کی دنیا آنکھوں کے سامنے آگئی تھی۔میں نے اپنے آپ کو سیاہ گاو¿ن میں ایم اے کی سند لیتے دیکھا ایئرکنڈیشنڈ آفس میں فوم کی نرم کرسی میں بیٹھتے پایا۔ڈاٹسن ٹیکسی کو کراچی کی سڑکوں پر دوڑتے پایا۔اچانک تمنّا نے تصورکی دنیا کو ذہن کے پردوں سے ہٹادیاتھا ۔ اس نے پوچھا تھا،”اس بار تو اپنا حل صحیح نکلے گا نا؟ شامو!“
”کیوں صحیح نہیں نکلے گا،“ میں نے اسے اور اپنے آپ کو تسلی دی تھی،” محمد پان والا اور غفور نائی کے تکوں بھرے حل صحیح ہوسکتے ہیں ،تو کیا ہم پڑھے لکھوں کا حل کبھی صحیح نہیں نکلے گا!“
تمنّا کے ہونٹوں پر ایک بے حد حسین اور دلکش مسکراہٹ آگئی تھی۔وہ مسکراہٹ ہمیشہ سودا کی طرح میری سانسوں میں سمائی ہوتی ہے۔
لیکن اس دن صبح کے اخبار میں کراس ورڈ معمہ کا نتیجہ دیکھ کر تمنّا کے ہونٹوں سے لازوال مسکراہٹ کو میں نے ہمالے کی برف کی مانندپگھلتے ہوئے محسوس کیاتھا۔میں نے اسے اداس اور مایوس محسوس کیاتھا۔ تب میں نے اپنی حسرتوں کی راکھ اڑاکر ،تمنّا کی شکستہ امیدوں کو اپنے دامن میں پکڑ لیاتھا۔میں نے سوچا تھا،تمنّا اداس ہوگی،بے چین ہوگی آج کیپٹل سنیما میں The Killers کا پہلا شو دیکھیں گے کچھ دیر کے لیے خواہشوں اور آرزوو¿ں کا گرا ہوا بھنبھور بھول جائیں گے۔
میں ڈریس سرکل کی A لائن میں پچھلی دو نشستیںبُک کرواکر ،ایڈوانس بکنگ کا کوپن جیب میں ڈال کر دفتر آیاتھا۔
تمنّا برآمدے کے پچھلے ستون کے قریب بے حد اداس اور بے چین کھڑی تھی۔اس نے جوں ہی مجھے دیکھا تو بس دیکھتی ہی رہ گئی۔میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہاتھا،” اس بار بھی ہمارا حل غلط نکلا، شامو! ہماری قسمت کبھی نہیں بدلے گی۔“
”ناامید مت ہو،تمنّا!“ میں نے اسے تسلی دی تھی،” آئندہ ماہ ہمارا حل صحیح ہوگا اور پرائز بونڈ کا لکی نمبر بھی اپنا ہی نکلے گا۔“
”کب تک،کب تک ،شامو! ہم اس طرح اپنے آپ کو فریب دیتے رہیں گے؟“
”پگلی!“ میں نے ایک ویران مسکراہٹ کے ساتھ اسے کہا تھا،” سنا نہیں کہ ہر غم کے پیچھے ایک سکھ ہوتا ہے۔“
”ہاں،اپنا جی بہلانے کا بہترین طریقہ ہے۔“
”انتظار کر،تمنّا! ایک دن ہماری روح کے زخم بھی بھر جائیں گے، دل کا درد کم ہوجائے گا،“ میں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا،” ایک دن ہماری صحرا ایسی بنجر زندگی میں خوشیوں کے موگرے بکھر جائیں گے۔“
”اور اس وقت کے انتظار میں شاید تم رہو نہ میں رہوں۔“
”ایسا مت کہو،تمنّا!ایسا مت کہو۔“میں نے تڑپتے ہوئے کہاتھا،” مجھے مایوس مت کر،میرا دل مت توڑ ،تمنّا!“
تمنا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔اس نے آنکھیں بند کرکے سر کھمبے سے لگا دیاتھا۔اس کے خشک ہونٹوں پر چمٹے ہوئے لپ سٹک کی پپڑیاں پھڑکنے لگی تھیں۔اس کی لانبی پلکیں کانپنے لگی تھیں۔قسمت کے ہاتھوں کھائی ہوئی شکست کے احساس کے مارے اس کا وجودبیراگ کی آگ میں جلنے لگا تھا۔
”تمنّا!“
”جی۔“
”آج دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھائیں گے۔“ میں نے کہا تھا۔
”اچھا،“ اس نے جواب دیاتھا،” اب جاو¿،ڈپٹی نے تمھیں میرے ہاں دیکھ لیاتو خواہ مخواہ شور مچائے گا۔“
تمنّا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔میں نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے ڈپٹی کے کمرے کے دروازے کے شیشے سے جھانک لیاتھا۔ڈپٹی نہیں آیاتھا۔
ہمارا ڈپٹی طویل قامت،موٹا اور سفید تھا۔اس کی آنکھیں بھوری اور سر کے بال نچے ہوئے تھے۔ ہم اسے افلاطون کہتے تھے۔دفتر کا پرانا بابو کہتا تھاکہ عقل کے دروازے ڈپٹی تک پہنچتے پہنچتے بند ہوگئے تھے۔
اس کی میرے ساتھ بالکل نہیں لگتی تھی۔اس نے ایک بار پہلے بھی مجھے تمنّا سے گفتگو کرتے دیکھ کر اپنے دفتر بلایا تھا اور سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا تھا،” لوگ ہماری فیکٹری کا تیار کردہ بناسپتی گھی کیوں نہیں کھاتے؟“
”جناب! لوگوں کو ہماری فیکٹری کا گھی پسند نہیں ہے۔“
”کیوںپسند نہیں ہے؟“ ڈپٹی نے برہمی سے پوچھا تھا،” تم کلرک کس مرض کی دوا ہو؟ آپ کو صرف کلرکی نہیں کرنی ،بلکہ لوگوں کو ہمارا بناسپتی گھی کھانے پر بھی آمادہ کرنا ہے۔“
”جی ،جناب!“
”اور ہمارا بناسپتی گھی ،دیسی گھی سے زیادہ بہتر ہے۔“ڈپٹی صاحب نے کڑک آواز میں کہا تھا،” خالص گھی کھانے والے سست اور بناسپتی گھی کھانے والے چست ہوتے ہیں۔“
میں نے اس انکشاف پر ڈپٹی صاحب کی طرف حیرت سے دیکھا تھا۔ڈپٹی صاحب خود بناسپتی گھی نہیں کھاتا تھا۔وہ خود خالص گھی ٹھٹھہ سے منگواتا تھا۔
”سمجھے؟“
”جی،جناب!“
”تم کیا خاک سمجھو گے۔اپنا کام بہتر کروورنہ نوٹس مل جائے گا۔“ڈپٹی نے سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے کہا تھا،” اور کان کھول کر سنو،تمنّا سے ملنا بند کردو۔“
”یَس ،سر!“
لیکن ڈپٹی اُس دن چھٹی پر تھا۔میں اس کے دروازے کے شیشے سے اندر جھانک کر اپنے کمرے کی طرف چلاگیاتھا۔
میں نے گردن موڑکر گھڑیال کی طرف دیکھا ۔پانچ بجنے میں بارہ منٹ باقی تھے۔
”تو کیا لیلیٰ بھی کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھی ؟“ بیل نے راجا سے پوچھا۔
”لیلیٰ بھیڑوں کی اون کترتی تھی۔“ راجا نے کہا۔
میں نے غصہ سے دونوں کی طرف دیکھا۔بیل نے دانت نکالتے ہوئے کہا،”بات تمھاری لیلیٰ کی نہیں،ہم قدیم لیلیٰ کے متعلق بات کررہے ہیں۔“
”تم بدتمیز ہو۔“
”تھینک یُو۔“ راجا نے کہا۔
ہیڈکلرک نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور ہماری طرف قہری نگاہوں سے دیکھا۔بیل اور راجا نے بولنا بند کردیا اور خواہ مخواہ فائیلوںکو پلٹنے لگے۔
”ہیڈکلرک ہے یا ہیڈماسٹر!“
”کمبخت چوکیدار ہے،“ بیل نے کہا۔
میں نے پتلون کے عقبی جیب سے پرس نکال کر گھٹنے پر رکھا۔گھٹنا میز کے نیچے کردیا۔پرس کھول کر تمنّا کی تصویر دیکھی۔بیل اوپر نیچے ہوا لیکن میرے گھٹنے پر پڑا ہوا پرس نہیں دیکھ سکا۔
”ہلنا بند کر،کرسی نہ توڑڈالو۔“ راجا نے بیل سے کہا۔
”تم اپنی بکواس بند کرو،“ بیل نے راجا کو ڈانٹا اور دوبارہ میرے گھٹنے پر پڑا پرس دیکھنے کی کوشش کی۔ جب اس کی پرس دیکھنے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی تب خفگی سے کہا،”آفس کا ٹیبل ہے یامُردوں کو چیرنے پھاڑنے والی میز! ہم کلرک نہیں بلکہ میڈیکل سٹوڈنٹ ہیں ۔“
راجا نے اسے میز کے نیچے سے لات ماری۔بیل لات کا دردبرداشت کرگیااور کچھ دور کھسکتے ہوئے کہنے لگا،” واہیات! میرے جوتے کی پالش خراب کردیتے۔“
راجا نے آنکھ کے اشارے سے بیل کا دھیان ہیڈ کلرک کی طرف کرایا۔بیل دیوار کی طرف سرک گیا اور میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
”کیا دیکھ رہے ہو؟ مجنوں!“ بیل نے آہستہ پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔“ میں نے آہستہ جواب دیا۔
ہماری سرگوشیوں پر ہیڈ کلرک نے ہم تینوں کی طرف دیکھا۔اس نے اپنی پتلی اور ہڈیالی انگلی گھنٹی پر دوتین بار کچھ اس طرح ماری جس طرح مرغا دانہ چگنے کے لیے مٹی میں ٹھونگے مارتا ہے۔ بیل اور راجا نے اپنا منہ بند کردیا۔
میں نے پرانے گھڑیال کی طرف دیکھا۔پانچ بجنے میں دس منٹ تھے۔ باقی ماندہ دس منٹ دس صدیاں بن چکے تھے۔سبھی غاشق ایسا ہی محسوس کرتے ہوں گے،میں نے سوچا۔
بیل اور راجا فائیلوں کے اوراق پلٹنے لگے۔میں نے اپنی نگاہیں تمنّا کی تصویر پر ٹکادیں۔ دوتین گھنٹے قبل تمنّا اورمیں نے مل کر ظہرانہ کیاتھا۔وہ مجھ سے پہلے اپنے کمرے سے نکل کر میرے کمرے کے سامنے پچھلے کھمبے کے قریب کھڑی ہوگئی تھی۔جوں ہی ایک بجے کا گجر بجا میں نے میز کی دراز سے رومال میں لپٹی ہوئی روٹی نکالی اور سیدھا تمنّا کے سامنے جاپہنچا تھا۔ میں نے راجا کی آواز سنی تھی،” گڈ لک ، مجنوں!“
میں تمنّا کے پاس پہنچا تھا تو تمنا نے کہا تھا،” برنس گارڈن میں چل کر روٹی کھائیں گے۔“
”او کے۔“
ہم دونوں دیگر کلرکوں کی قہر برساتی نگاہوں سے گذرتے دفتر کی حدود سے باہر نکل گئے ۔برنس گارڈن میں ناریل کے درختوں کے نیچے سبزگھاس پربیٹھتے ہوئے تمنا نے پوچھا تھا،” آج کیا لائے ہو ؟“
”دو چپاتیاں اور تلے ہوئے آلو۔“
تمنا کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔ اس نے اپنا کھانے والا باکس کھولتے ہوئے کہا تھا،” میں بھی دو روٹیاں اور تلے ہوئے آلو لائی ہوں۔“
”ملباری سے دال لے آو¿ں؟“
”نہیں، آج آلو ہی کھائیں گے۔“
تمنا نے روٹیاں رومال پر رکھیں اور اپنے ٹین کے باکس میں آلو ملادیے۔ میں نے پیار سے تمنا کی طرف دیکھا تھا۔ تمنا نے سر اٹھاکر مجھے دیکھا تھا اور ہماری نگاہیں پل بھر کے لیے مل کر الگ ہوگئی تھیں۔ تمنا نے ایک لقمہ کھانے کے بعد ایک عجیب سوال کیاتھا،” شامو! مجھے چاہتے ہو؟“
میں نے بڑے عجیب انداز میں گردن ہلاکر ہاں کی تھی اور پھر اپنے آپ کو احمق محسوس کیاتھا۔
تمنا نے ٹک باندھ کر مجھے دیکھا تھا پھر آہستہ آہستہ کہا تھا،” میں بدنام ہوں،شامو!پھر بھی مجھے چاہتے ہو!؟“
میں نے اس کے سوالوں کے جواب نہیں دیے ،الٹا اس سے پوچھ لیا،”مجھ سے شادی کیوں نہیں کرتیں ؟ تمنّا!“
تمنا کے ہونٹوں پر اداس مسکان کے سائے آئے اور چلے گئے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور سر جھکا کر روٹی کھاتی رہی تھی۔
”کیا میں تمھیں پسند نہیں ہوں؟“ میں نے عجیب سوال کیاتھا۔میں سوال کرکے پچھتایا تھا۔ مجھے لگا تھا کہ تمنا مجھے احمق سمجھ کر ، میرے بے حساب پیار پر ہنس دے گی ،لیکن تمنا کے ہونٹوں سے کچھ نہیں نکلا ۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کی پرچھائیاں پرمارتی رہیں۔
”میں پاگل ہوں،تمنّا!“ میں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا،” میں پاگل ہوں، مجھے محبت کرنی بھی نہیں آتی۔“
اس نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں اٹھایا لقمہ میرے آگے رکھ کر میرا لقمہ اپنے منہ میں لے لیاتھا۔
اسے خاموش دیکھ کر میں نے دوبارہ پوچھا تھا،” مجھ سے شادی کیوں نہیں کرتیں؟تمنّا!“
”شامو!“وہ کچھ آگے سرک آئی تھی،”میں بدنام ہوں، شامو!“
”یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے،تمنّا!“
”میری بدنامی مجھ تک محدود ہے،“ تمنّا نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا تھا،” تم سے شادی کرکے تمھیں، تمھاری بہنوں ،بھائیوں اور ماں کو بدنام کرنا نہیں چاہتی۔“
”میں ڈپٹی نہیں ہوں کہ بدنامی سے ڈر جاو¿ں،“ میں نے کہاتھا،”میں ایک معمولی کلرک ہوں۔ تمنّا ، بیل اور راجا میرے دوست ہیں۔“
”تم تن تنہا دو خاندانوں کا بوجھ اٹھاسکوگے؟“
”کیوں نہیں اٹھاپاو¿ں گا۔اب بھی تو پارٹ ٹائم ٹیچنگ کرتا ہوں،شادی کے بعد کسی پریس میں بھی کام کروں گا۔“
تمنا کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی۔میں اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔
اس نے بات کی۔موضوع بدلنے کی خاطر کہاتھا،” تمام دن یہاں کام کرنے کے بعد تھک نہیں جاتے کہ شام چھہ بجے سے رات دس بجے تک سکول میں بھی پڑھاتے ہو؟“
”نائٹ سکولوں میں لاٹ صاحبان کے بچے نہیں پڑھتے۔میں تھکا ہوتا ہوں تو شاگرد بھی دن بھر کی مزدوری سے تھکے ہوتے ہیں۔“ میں نے جواب دیاتھا،” لیکن اس کے باوجود میں رات بارہ سے صبح چار بجے تک کسی پریس میں پروف ریڈر بن جاو¿ں گا۔“
وہ خیالات کے بھنور میں اترگئی۔اس کا ہاتھ کا لقمہ ہاتھ میں ہی رہ گیاتھا،نگاہیں کسی جگہ اٹک گئی تھیں۔ میں اسے متجسس نگاہوں سے دیکھتا رہا۔تب کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے اپنا ہاتھ تمنا کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ اس نے میری آنکھوں میں دیکھا تھا۔
”ہاں کہو،تمنا!“ میں نے آہستہ کہا تھا،” کہو کہ مجھ سے شادی کروگی،تمنا! ہاں کرو۔ہاں کرو ،تمنا !! ‘ ‘
ایک گہری ،لمبی اور درد کو ہلکا کردینے والی ٹھنڈی سانس لے کر اس نے کہا تھا،” شامو! میں نہیں چاہتی کہ تم میرے لیے مشین کی طرح کام کرتے رہو۔میں تجھ سے زندہ رہنے کا حق چھیننا نہیں چاہتی۔“
”یہ خواہ مخواہ کے بہانے ہیںتمنا!“ میں نے پتہ نہیں کس طرح کہا تھا،” کہو کہ مجھ سے شادی کرنا نہیں چاہتی ہو۔“
”شامو!“
”ہاں،تمنا!تم میرے لیے پوری زندگی تمنا ہی رہوگی۔میں دل کی دنیا لٹانے کے بعد بھی تمھارے دل میں تل برابر بھی جگہ حاصل نہیں کرپایاہوں۔تم میرے لیے چاند کی طرح دور ہو،تمنا! خواب کی طرح مبہم ہو۔“
اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا،” آگے کچھ مت کہنا، کچھ مت کہنا،شامو! میں پریشان ہوں ،مجھے اور پریشان مت کر۔“
میں نے تھرموس کے ڈھکن میں پانی بھرکر دوتین چار گھونٹ پیے بقیہ گھاس پر رکھ دیاتھا۔اس نے تھرموس کا ڈھکن اٹھاکر ہونٹوں سے لگالیا تھا اور بچایا ہوا پانی ایک ہی سانس میں پی گئی تھی۔
اس نے کہا تھا،” آئندہ ماہ کراس ورڈ معمہ کا حل صحیح نکلے گا ،مجھے یقین ہے ،شامو!پھر ہم شادی کر لیں گے۔“
”ان معموں نے ہماری زندگی کو بھی حل نہ ہونے والا معمہ بنادیا ہے۔“
”صبح جو تم نے کہا تھا کہ غموں کے بعد خوشیاں ۔“
”ہاں،تمھارا دل رکھنے کے لیے کہہ دیاتھا۔“
”نہیں،شامو! اس بار ہمارا حل ضرور درست نکلے گا۔“ تمنا نے میرے دل کو تسلی دینے کے لیے کہا تھا ، ”ہمارا اپنا گھر ہوگا ً۔ تمھاری اور میری بہنیں، تمھارے بھائی پبلک سکول میں پڑھیں گے۔ ماں کا علاج کسی ایمآرسیپی ڈاکٹر سے کروائیں گے اور شامو! میں سینٹ جوزف کالج میں اور تم یونی ورسٹی میں داخلہ لو گے اور شامو! ہم شیورلیٹ ، امپالا یا مرسڈیز بینز بھی لیں گے۔“
”اور پوری عمر اس انتظار میں ختم ہوجائے گی۔“
”نہیں، شامو!“
”خواہ مخواہ اپنے آپ کو فریب مت دے ،تمنا!“
”شامو! ہماری زندگی فریب ہے۔“ تمنا نے بے حد دکھ کے مارے کہا تھا اور رومال پھٹک کر لپیٹتے ہوئے مجھے دیاتھا۔
لوٹتے ہوئے، دفتر کی حدود میں تمنا نے بات کی تھی نہ میں نے کچھ کہا تھا ۔ میں نے دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے کہا تھا،” آج فرسٹ شو میں The Killers دیکھیں گے۔“
”کل تو تمھارے پاس صرف دو روپے تھے۔“
”میں نے قمیص کے لیے آٹھ روپے بچا کر رکھے تھے نا، ان میں سے بکنگ کرواکر آیا ہوں۔“
”تم نا ایسے مت کیا کر ،شامو!“
”چلو گی نا؟“
”ہاں، چلیں گے۔“
میں اس وقت سے چھٹی کا انتظار کررہا تھا، بٹوہ بند کرکے پچھلی جیب میں ڈال لیا۔ میں نے گردن موڑ کر گھڑیال کی طرف دیکھا۔ پانچ بجنے میں چار منٹ باقی تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ چپت ہوا کے پروں پر اڑتاجاتا ہے! کسی نے کہاتھا کہ پلک جھپکتے ہی صدیاں گذر جاتی ہیں! سچ ہوں گی یہ کہاوتیں! لیکن انتظار کی ایک ساعت سے دوسری ساعت تک ، ایک لمحہ سے دوسرے لمحہ تک برسوں کی مسافت ہوتی ہے۔
”راجا ! سنو تو سہی،“ بیل کی آواز پر میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، ”کیا مجنوں کے گھر میں ایک بیمار ماں، دو معذور بوڑھی پھوپھیاں، چار بھائی اور تین بہنیں ہوتی تھیں؟“
” بیل ! بتاو¿ تو،“ میں نے سخت غصہ میں کہاتھا،” تمھاری بہن فلموں میں ہیروئن بننے کے لیے گھر سے بھاگ گئی تھی تو میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا؟ مہربانی کرکے میرے گھرکے معاملات میں دخل مت دیا کر۔“
بیل ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے چہرے پر زردی کھنڈ گئی۔ راجا نے بات رکھنے کے لیے کہا،” تم ناراض کیوں ہوتے ہو ؟ بابا! تم جدید ہو، ہم قدیم مجنوں کے متعلق بات کررہے ہیں۔“
میں نے بیل کی طرف دیکھا۔ وہ انگوٹھے کے ناخن سے میز کی میل اتار رہا تھا۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھی، پیشانی پر پسینہ کے قطرے چمک رہے تھے۔ وہ مجھے بڑا ہی معصوم نظر آیا۔ میں نے آہستہ اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا،” مجھے معاف کر ، دوست!“
اس نے میرے ہاتھ پر تھپکی دی۔
”باتیں کرنا بند کرو،“ گدھ مارکہ ہیڈ کلرک چیخا۔ہم تینوں چونک پڑے۔
بیل اور راجا ہمیشہ کی طرح فائلیں الٹنے پلٹنے لگے اور میں نے اپنی نگاہیں گھڑیال کے کانٹوں پر جمادیں۔ وقت کھنچ گیاتھا۔
میں نے پتلون کی جیب سے ایڈوانس بکنگ کا کوپن نکال کر کھولا اور پڑھا۔ تاریخ، درست۔ فرسٹ شو۔ ڈریس سرکل کے اے قطار میں پچھلی دو نشستیں۔ میں نے سوچا، تمنا کو دیوار کی طرف بٹھاو¿ں گا اور خود دوسری طرف بیٹھوں گا۔ جب ہال میں تاریکی ہوجائے گی اورفلم شروع ہوگا، تب اپنا ہاتھ تمنا کے ہاتھ پر رکھوں گا وہ میری طرف کھسک آئے گی اور اپنا منہ میرے کندھے پر رکھے گی میں اپنے آپ کو اور تمنا کو منانے کے لیے کہوں گا،” تمنا! ایک نہ ایک دن انعامی بانڈ کا نمبر ہمارا ہی نکلے گا، تب ہمارے بچے پبلک سکولوں میں پڑھیں گے کوئی مشہور ڈاکٹر ہمارا علاج کرے گا، پھوپھیوں کو چشمے اور آلہ سماعت لے کر دیں گے، شیورلیٹ ، امپالا یا مرسڈیز بینز لیں گے اور اور ۔“ میں نے سوچا، جب مستقبل کے سپنوں کو بنا سنوار کر ،سجا کر دل کی دنیا کو بہلا لیں گے اور جب حسرتیں خوش فہمی کی دلدل میں اتر جائیں گی، تب میں سرگوشی کرکے تمنا سے کہوں گا،” تمنا! کاش یہ دنیا سینما ہال تک محدود ہوجائے اور یہ زندگی اس فلم جتنی مختصر ہم دونوں کندھے سے کندھا ملائے سرگوشیوں کی صورت گفتگو کرتے رہیں حسرتوں اور خواہشوں کے سراب سے دور محبت کی باتیں اور باتوں کے لامحدود ، مسلسل سلسلے ہمارے غموں کی مانند طویل اور زخموں کی طرح بے انداز۔“
”پورے پانچ بجے ہیں، مسٹر مجنوں!“ راجا نے میرے خیالات کو منتشر کردیا۔
میں اٹھ کھڑا ہوا۔ہیڈ کلرک نے گھور کر پہلے مجھے دیکھا اور پھر اپنی کلائی میں بندھی نسوار کی ڈبیا ایسی گھڑی میں دیکھتے ہوئے پوچھا،” مسٹر! کہاں جارہے ہو؟“
”جناب! پانچ بجے ہیں۔“
”میری گھڑی میں تین بجے ہیں۔“
”لیکن آفس کے گھڑیال میں پانچ بجے ہیں۔“
ہیڈ کلرک نے اپنی پتلی گردن شتر مرغ کی طرح گھما کردیوار پر ٹنگے گھڑیال کو دیکھا۔
میں تقریباً دوڑتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ پیچھے بیل کی آواز سننے میں آئی،” گڈ لک، مجنوں!“
جس طرح سکولی بچے چھٹی ہونے پر کلاسوں سے نکلتے ہیں، اسی طرح دفتر کے کمروں سے کلرک، ٹائپسٹ، دفتری اور چپڑاسی نکلتے ، ایک دوسرے کو دھکے دیتے ،سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔
جب برآمدہ خالی ہوگیا، تب میں نے سامنے تمنا کوڈپٹی کے ڈرائیور سے بات کرتے دیکھا۔ تمنا کی نگاہ مجھ پر پڑی تو وہ میری طرف چلی آئی۔ اس کے پپڑیوں جمے ہونٹ اور بھی خشک ہوچلے تھے۔ لپ سٹک کئی جگہوں سے دھیمی پڑ چکی تھی۔ وہ پریشان تھی۔ اس کی آنکھوں میں تردد تھا۔ اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا،” شامو! مجھے ڈپٹی نے بلوایا ہے۔“
میری نس نس سے تھوہر اگ آیا۔میں نے گھڑی بھر کے لیے تمنا کو زندگی کے پاتال میں غرق ہوتے دیکھا۔ میں نے کہناچاہا،تمنا! محتاجی، مفلسی زندگی کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ لیکن جو کچھ کہنا چاہا وہ کہہ نہ پایا۔ الفاظ سینے کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔
تمنا نے ڈرائیور کو موٹر کے پاس ٹھہرنے کا کہا۔
ہم دونوں گردن جھکائے سیڑھیاں اترنے لگے ۔ بات نہ اس کی نہ میں نے۔لیکن باوجود اس کے ہم دونوں نے ایک دوسرے کی زخمی روحوں میں جھانک لیا۔
میں نے آہستہ کہا،” ایک نہ ایک دن ہم یہ واہیات نوکری چھوڑ دیں گے۔“
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی گردن اور بھی جھک گئی۔
میرے دل میں کشمکش جاری تھی۔ ازلی جنگ سینے کی دھرتی کو چیرتی رہی۔ محبت اور گھر والوں کی بھوک بیماری کے تصورات، متضاد قوتوں کی طرح آپس میں لڑتے رہے۔
میں نے اپنی کانپتی ہوئی انگلیوں سے تمنا کے سنگ مرمر ایسے بازو کوچھوا،” تمنا!“
”تمنا!“ میں نے تھوک نگل کر کہا،” ڈپٹی کی کار کون سی ہے؟“
”اوپل۔“
”ہم شیورلیٹ، امپالا یا مرسڈیز بینز لیں گے۔ ہاں نا تمنا!“ میں نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔
تمنا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے اپنی انگلیاں میری انگلیوں میں جکڑ لیں۔الفاظ زخمی روح کے کسے کونے سے بلبلاتے کراہتے ، تڑپتے درد کے ببول میں الجھتے باہر آتے رہے،” ہمارا اپنا گھر ہوگا ، تمنا!ہماری بیمارماں کسی مشہور ڈاکٹر سے علاج کروائے گی ہم روز روز دال نہیں کھائیں گے میں انگریزی میں ماسٹرز کروں گا اور تم سینٹ جوزف کالج میں “
آخری سیڑھی پر تمنا اپنی انگلیاں میری انگلیوں سے چھڑا کر بھاگتی ہوئی موٹر کی پچھلی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی ۔اس نے چادر کا کونا منہ میں ڈال کر ہونٹ بھینچ لیے اور آنکھیں بند کردیں۔کار ایک جھٹکے کے ساتھ پلک جھپکتے ہی دھول اڑاتی آفس کی حدود سے نکل گئی۔
اُدھر سے بیل نے چیخ کر کہا،” بیڈ لک، مجنوں!“
میرے چہرے پر ویران مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ ٹوٹتے ستارے کی طرح روشنی کی لکیر بناتی مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں گم ہوگئی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*