چنگ و رباب اول چنگ و رباب آخر

جب سے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو تجسس کے ساتھ قبرستان میں جاتے دیکھا ۔ لیکن مجھے قبرستان جانا پسند کیوں ہے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا ۔ اس کیوں کے لیے میرے پاس کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ شاید کوئی وضاحت ہو لیکن مجھے معلوم نہ ہو ۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میں جب بھی دنیا میں کسی بڑے شہر گئی وہاں کے قبرستان ڈھونڈ نکالے ۔ اسی طرح جیسے وہاں کے عجائب گھروں کو ڈھونڈا ۔ جیسے تھیٹیڑوں کو ڈھونڈا۔ کتاب گھرو ں کو دیکھا ۔ لائبریریوں کو چھانا۔ اپنی ہر تلاش کو شش سمجھ میں آتی ہے ۔ لیکن قبرستان یا ترا سمجھ سے باہر ہے ۔ شاید دنیا سے جانے والوں کے ایسے امکانات کے خاتمے کی کہانی سننا چاہتی ہوں جو وہ سنا نہیں سکتے۔ یہ کوشش مجھے بعض اوقات اس موسیقار جیسی لگتی ہے جو سروں کی دنیا میں سروں کی نئی ترتیب ڈھونڈ رہا ہے ۔ کیا انسان ایسی نوع ہے جو ہمہ وقت نئے امکانات کی تلاش میں ہے ۔ یہ تلاش اُسے لیے لیے پھر رہی ہے ۔ آفاق میں ، سمندروں میں ، پربتوں میں، ندیوں میں ، ہواﺅں میں، صحراﺅں میں، انسان کے ذہنوں میں، ان کے جذبوں میں ، ان کے خوابوں میں اور جانے کہاں کہاں ۔امکانات کی تلاش اُسے کن حیرت کدوں میں لے جائے شاید اُسے خود بھی معلوم نہیں۔ لیکن حیرتوں کا سفر جاری ہے ۔
تو کیا قبرستان یاترا کے لیے میری حیران ہونے کی خواہش مجھے لے جاتی ہے ۔ میں اس سر گم کی تلاش میںنکل پڑتی ہوں جو ترتیب پاسکتی تھی لیکن ترتیب نہ ہوسکی۔ قبرستان اُن کوششوں کا نوحہ لکھ رہا ہے ۔ جو بے ثمر رہیں ۔ کیا ہر قبر ہمیں یہی پیغام دے رہی ہے کہ امکانات کی دنیا میںرہنا ہی زندگی ہے ۔ جیتے جی امکانات کا در بند کر دینا موت ہی ہے ۔ موت جو زندگی کے سیمابی سفر کی قاطع ہے ۔
میں اُن لوگوں کے بارے میں سوچنے لگی جو جیتے جی اپنے لیے اُن امکانات کا در بھی بند کر لیتے ہیں جن امکانات کے حصول کی کوشش اُنہیں خوش کرسکتی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟
انسان کا دل و دماغ عجب پُر اسرار ہے ۔ اس کی اپنی تباہی کی کوشش میں اس کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیتا ہے ۔ اور اپنی تعمیر میں بھی ساتھ دینے میں کسر نہیں چھوڑتا۔
یہی سوچتے ہوئے مجھے اپنے ایک عزیز کا خیال آیا۔
گاﺅں کی خاموش راتوں میں اُن کی بانسری کی مست دھنیں یاد آئیں ۔تاریک سناٹے میں سے طلو ع ہوتی یہ دھنیں دل کو مست سکون دیتیں ۔ کالی رات کے خوف سے نجات دلاتی تھیں۔ آنکھوں میں خوبصورت خواب سجاتی تھیں۔ دل کو محبت کے جذبے سے سرشار کرتی تھیں۔ حسن کے تجربات ایک خوبصورت یاد بن کر لوٹ آتے تھے ۔ حسین دنیا ﺅں کے امکانات کی تلاش کی طرف مائل کرتی تھیں۔ کانوں میں یہ دھنیں بسائے ہم سوجاتے تاکہ صبح جلدی اُٹھ کر طلوع آفتاب کے رنگ دیکھ سکیں۔ نورِ سحر کے شفق رنگ دیکھ سکیں۔
اُن کی بانسری کی سریلی دھنیں میرے بچپن کی حسین یاد بن کر ہمیشہ میرے فیصلوں اور انتخاب میں مدد گار رہیں۔
جس دن اُن کے جنازے پر گئی تو خاندان کے باقی لوگوں کو میں نے ان کی بانسری کی دھنوں کو یاد دلانے کی کوشش کی ۔
اُن کی بڑی بیٹی جوکہ سعودی عرب میں رہتی ہے مجھ سے ناراض ہوگئی۔ اس کے خیال میں بانسری کی زمین کا ذکر میںاس لیے کر رہی ہوں کہ میں اُن کی توہین کرنا چاہتی ہوں ۔ وہ بار بار میری بات کو رد کرنے کی کوشش میں تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ کہہ رہی تھی کہ اس نے کبھی یہ بانسری نہ دیکھی نہ سنی۔ سعودی ریالوں نے کچھ عجب سے دل و دماغ وطنِ عزیز میںپیدا کر دیے ہیں۔
میرے ان عزیز کا بیٹا ذہنی معذوری لے کر پیدا ہوگیا۔ اسی کی ذہنی پسماندگی کی دیکھ بھال میں ایسے مصروف ہوئے کہ وہ شاید بھول ہی گئے کہ کبھی وہ بانسری کی مدھر تانوں کے خالق تھے ۔ شاید نہیں بھولے تھے ۔ ایک دُکھ ، ایک غم اُن کی شخصیت میں رچ بس گیا تھا۔
اس ذہنی معذور بیٹے نے جب وفات پائی تو اُن کی ایک بیٹی نے جو انگلینڈ میں مقیم تھی انہیں اپنے پاس بلایا ۔ میں اُن سے ملنے گئی جب وہ انگلینڈ سے واپس آئے ۔
چہرے پر خوشی تھی ۔ خوشدلی سے عجائب گھروں کی ، کتب خانوں کی، تھئیڑوں کی ، ساحل سمندر پر محو خرام لوگوں کی، سمندر کی متحرک لہروں کی ، سمندر میںرنگ برنگ نہاتے لوگوں کی باتیں کر رہے تھے ۔
سمندر اور باغات کے بارے میں تو شادمانی سے محوِ گفتگو تھے ۔ میں اُن کے چہرے کے تاثرات دیکھتی رہی۔
فوس و قزح کے رنگ یاد آئے ۔ یہ خوشدلی اور شادمانی مدتوں بعد اُن کے چہرے کو پرنور کیے ہوئے تھے ۔
میں نے یونہی شرارت کرنے کا سوچا۔
”اچھا مجھے یہ بتائیں کہ لندن میں آپ کو ایس کیا نظر آیا جسے دیکھ کر آپ کو حیرت اور مسرت بیک وقت ہوئی“۔
لندن میں جگہ جگہ مجھے وہ دکانیں نظر آئیں جو موسیقی کے خوبصورت سازوں سے آراستہ تھیں۔ موسیقی کے ساز اتنے خوبصورت اور اتنی افراط میں مجھے حیران کر گئے ۔ شاید خوش بھی“ ۔انہوں نے جواب دیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*