جام درک Jam Durrak

جام کے کلام میں عنایت ، تغزل اور نغمگی تو ہے ہی ۔ مگر وہ امیجری بھی غضب کی کرتا ہے ۔ اُس کی شاعری میں بجلیاں کڑکتی نہیں ہنستی ہیں۔ اُس کا دل دُھند میں ماہ پری مانگتا ہے ۔ اس کی گھوڑی کی دم زامر کے پودے کی طرح گھنی ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کو دُر حدیث پکار کر خوش حدیث ہونے کی دعوت دیتا ہے ۔ اس کی گلنار محبوبہ نے اپنے رک (ہونٹ) رُتک (سرخ ) کر لیے ۔ اور اُس نے اپنا چہرہ عارض کے ساتھ جام کو بخش دیے ۔
غضب کا شاعرتھا وہ ۔ باکمال ۔ ترکیبات پہ مکمل عبوراور قابو۔ بہت خوبصورت تشبیہات ہیں۔ اچھے استعارات ہیں۔ وہ بہت پُر معنی بات کرتا ہے ۔بہت خوبصورت تشبیہات ہیں۔ اچھے استعارات ہیں۔ وہ بہت پُر معنی بات کرتا ہے۔ معنویت سے حاملہ الفاظ ہیں جو اُس کے حضور دست بستہ مگر چست کھڑے ہیں۔ اور محبت؟۔ محبت تو اس کی یروشلم ہے ۔ اُس کا دل محبت کے receptorسے بھرا ہوا ہے ۔ کرب کی آمیزش سے ملائم محبت ۔ اور محبت کے اظہار کے لیے ماوند کی شہد کی چھوٹی مکھی سے بنا شیریں لہجہ۔ جام کافراق بھی وصل جیسا پر مسرت ۔ اُس کے فراق میں محض درد نہیں ہوتا ، زاری ہوتی ہے ۔ زاری کا ایک دورہ چلا جاتا ہے ۔ دوسرا ابھرجاتا ہے ۔ مگر یہ زاری فقط سیاہ رنگ کی نہیں ہوتی اسی فریاد میں بے شمار شیڈز ہوتے ہیں۔ زاری کا قوسِ قزح ۔مختلف ویولنگھتوں کے رنگ۔ اُس کی شاعری بھر پور جمال کا بیانیہ ہے جمال اور تغزل :
آتکغاں کنداناں گروخ دوشی
کے ہویّا ژہ جُلگمہ پارا
حال دوستانی داثغاں مارا
ماگُلی گِنّاشتاں اوو جانا
رُستہ یک درینے ڈکھنڑئے پارا
پہ گُرا استینے عجب رنگیں
درست منی دوستئے مہذوے گوناں
مں گنوخاں کہ گوں دلہ جھیڑاں
دل گنوخےں کہ گوں مناں جھیڑی
گریہہ کنت تنگو دروشمیں بچی
زورہ کنت شاہ و ظالمی ترکی
مں مژاں زنزیر مہ فرے لوٹی
اژ ہماہاں کہ مں صذاں یکے
مولے ماں گوہاراں دہ صذو لکھے
مادلئے حال پہ مرکبا داثہ
ڈاہ بڑتہ بِری آ رووخینا
ژِ لّہ کنت مَوری زامریں دُمبا
جنت اوو سرزاناں ملوکیناں
” او منی واژہ بنگ و مسکانی
مں تئی پاغا مسک ہُراسانی
قادرہ سوبا را نغہ دار بئے
مں ترا بیگاہی براں اوذا
اوذا مں میری دیرہ ئے دیما
اوذکہ آہو دروشمے مانیں
آں سرو قدین گور گُہر گریہہ ایں
لال و ہیرا او آسمی بوئیں
ٹِلّی مں مَسنداں ہریویغاں
عرض کن واظہار کں سری گالاں
اژ وثی محتاجیں دلہ حالاں
نندو ثی اندوہاں کنئے تالاں
واس چمبیلئے گل سترمارا
وث سئی اے ژہ عشقہ اسرارا
دوست اغا درمانے بہ دا مارا
دُر حدیث بیا کہ وہش حدیث بیوں
اندوہاں لعلیغاں بہ گالہایوں
دژمناں حاخ ماں دیذغاں ساﺅں

ترجمہ :
کل رات بجلیاں ہنستی ہوئی آئیں
قوت سے ، مغرب کی جانب سے
انہوں نے محبوب کی خیر خبر مجھے پہنچائی
ہم نے انہیں پھولوں کے لمس کی مانند جسم پہ محسوس کیا
جنوب کی طرف جو ایک قوسِ قزح ابھری ہے
اُس کے قریب دلکش رنگ کے بادل کا نمایاں ٹکڑا ہے
ان سب مناظر میں ہماری محبوبہ کے نقوش کا رنگ جھلکتا ہے
میں پاگل ہوں کہ دل کے ساتھ الجھتا ہوں
دل پاگل ہے کہ مجھ سے الجھتا
یہ(دل ) سنہرے بیٹوں جیسی ضد کرتا ہے
ظالم ترک بادشاہ جیسی منہ زوری کرتا ہے
غبار آلود بادلوں میں زنجیر آسازلفوں والی محبوبہ مانگتا ہے
وہ ،جو سینکڑوں میں ایک ہو
جس کی قیمت ہزاروں لاکھوں میںہو
میں نے دل کا حال اسپِ تازی کو دیا
وہ سبک رفتار صورتِ حال سے مطلع ہوئی
وہ اپنی سیاہ زامر(گھنی اوربلند بیل) جیسی دم کو پھیلا دیتی ہے
وہ اسے اپنے خوبصورت رانوں پہ مارتی ہے
” اے میرے خوشبوو عطر والے مالک
تیری پگڑی پہ سدا خراسان کا عطر لگا ہو
خدا کی فتح تمہیں نصیب ہو
میں تمہیں شام تک وہاں پہنچا دوںگی
وہاں جہاں میروں کا ڈیرہ ہے
وہاں جہاں آہو صورت محبوبہ ہے
جو سرو قدگہر رنگ اور خوش آواز ہے
لعل ، ہیرا اورنرگس کے پھول کی مانند ہے
ہرات سے لائے لباس میں مدھر چلتی ہے
شروع ہی میں مدعا عرض کرنا
اپنے مجبور دل کی حالت بیان کر نا
اس کے ساتھ بیٹھ اور اپنے دل کے اندوہ دور کرنے کی کوشش کر
میرے لےے تو وہ چمبیلی پھول ہے
وہ عشق کے اسرار و رموز سے واقف ہے
محبوب اگر مجھے دوا دے دے
اے خوش گفتار، آکہ خوش گفتار ہوں
محبوب کی یادوں بھرے اندوہوں کی بات کریں
دشمنوں کی آنکھ میں مٹی ڈال دیں۔
(بڑے شاعر کی بڑی باتیں!!)۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*