الف لیلہ، تعارف و پس منظر:
الف لیلہ کا عربی ادب میں وہی مقام ہے جو عالمی ادب میں ہومر کی ’اوڈیسی‘ کا ہے۔ اسے عربی کا کلاسیکی شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام ’الف لیلة و لیلة‘ ہے۔ عربی میں الف‘ ہزار کو کہتے ہیں اور لیلة‘ رات کو۔یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ یہ ایک ہزار ایک کہانیوں پر مشتمل داستان ہے۔ اس لیے اسے ’ہزار داستان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے اولین حصے کا تحریری عہد آٹھویں صدی عیسوی بتایا جاتا ہے۔ جب عرب قصہ گوئوں نے اس کا آغاز کیا۔ روایتاً بعد ازاں ترک، مصری اور ایرانی قصہ گوئوں نے اس میں اضافے کیے۔
قصے کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ سمرقند کا بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورت ذات سے ہی بدظن ہو گیا۔ اس نے دستور بنا لیا کہ ہر رات ایک باکرہ لڑکی سے شادی کرتا اور اگلے روز اس کا سر قلم کروا دیتا۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ لوگ اپنی بچیوں کو لے کر ریاست سے بھاگنے لگے اور بادشاہ کے لیے لڑکیاں کم پڑنے لگیں۔ بادشاہ کے لیے لڑکیوں کا انتظام وزیر کے ذمے تھا۔ اس کی دو بیٹیاں شہرزاد اور دنیا زاد تھیں۔ اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے شہرزاد‘ بادشاہ سے شادی پہ راضی ہو گئی۔ شادی کی پہلی رات اس نے بادشاہ کو قائل کر لیا کہ وہ اسے مرنے سے پہلے اسے ایک کہانی سنانا چاہے گی۔ اس نے کہانی کہنا شروع کی،صبح ہوئی تو کہانی ایک دلچسپ موڑ پہ ختم ہوئی۔ بادشاہ نے آگے کا پوچھا تو شہرزاد نے کہا کہ اگلا حصہ اگلی رات کو۔ بادشاہ نے کہانی سننے کے لیے اسے قتل کرنے کا ارادہ موخر کر دیا۔ یوں شہرزاد ہر رات اسے ایک دلچسپ کہانی میں مگن رکھتی۔ یہاں تک کہ ایک ہزار ایک راتیں گزر گئیں۔ اس دوران اس کے ہاں تین بچے بھی ہو گئے۔ آخر میں بادشاہ کو اپنی ناانصافی کا احساس ہوتا ہے، اور وہ اسے قتل کرنے کا ارادہ موخر کر کے بچوں سمیت اپنا لیتا ہے۔ اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
یہ وہ پس منظر ہے جس سے ان قصوں کا خمیر اٹھا ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ الف لیلہ کی اکثر کہانیاں بابل، مصر اور یونان کی قدیم لوک داستانوں کو شامل کر کے لکھی گئیں۔ اس لیے اس میں مختلف خطوں کا کلاسیکی رچائو بھی ملتا ہے۔البتہ اس پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان قصوں کا زمانہ آٹھویں صدی عیسوی کا ہے۔ بعدازاں اس میں اضافے بھی ہوتے رہے۔ اور ایک ہزار ایک کہانیاں مکمل ہونے کے بعد ہی اس کا نام ’الف لیلہ و لیلہ‘ رکھا گیا۔
الف لیلہ کا ماخذ:
یہ دلچسپ امر ہے کہ مشرقی ادب کے اس شاہکار کی دریافت کا سہرا مغربی مستشرقین کے سر ہے۔ اسے سب سے پہلےAntonie Gallandنامی فرانسیسی مستشرق نے اٹھارویں صدی میں ڈھونڈ نکالا۔انتونی گلینڈ مشرقی علوم میں دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ خود بھی ایک زبردست قصہ گو تھا۔اسے سب سے پہلے ایک فرانسیسی کتب خانے سے سند باد کی کچھ حکایات ہاتھ آئیں۔اس نے جلد ہی ان کہانیوں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کر دیا۔ بعدازاں اسے علم ہوا کہ سندباد کی یہ کہانیاں دراصل ’الف لیلہ‘ نامی عربی حکایات سے ماخوذ ہیں۔ جس کے بعد اس نے اس شاہکار کی تلاش شروع کی۔ عربی ادب کے پارکھ اور ناقد محمد کاظم کے بقول،
”گلان کو حلب میں ایک ایسا شخص مل گیا جس کے پاس الف لیلہ کی چار جلدیں موجود تھیں۔ گلان نے اس سے یہ چاروں جلدیں لے لیں اور۴۰۷۱ءمیں ان کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا اور تیرہ سال کے عرصے میں اسے بارہ جلدوں میں تکمیل کو پہنچایا۔“(۱)
گو کہ یہ مکمل ترجمہ نہ تھا، مگر اس کے توسط سے پہلی بار اس عرب شاہکار کے لیے عالمی دنیا کے قاری کا دروازہ کھلا۔ اور یہی اس کی اصل اہمیت ہے۔ وگرنہ عربی ادب کے ماہرین اس ترجمے کو نہایت کمزور اور گمراہ کن بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتونی گلانڈ نے اس میں اپنی قصہ گوئی کی صلاحیت کا بھی بھرپور استعمال کیا، کہیں قصوں میں اپنا رنگ جمایا تو کئی قصوں میں اپنی طرف سے گھڑے واقعات بھی شامل کر دیے۔ مگراس ترجمے نے فرانسیسیوں کے دل موہ لیے۔ جس زمانے میں (۴۰۱۷ءتا۷۱۷۱ئ) یہ تراجم شائع ہو رہے تھے، کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں فرانس کے محل سرائوں سے لے کر، گلیوں بازاروں تک انھی قصوں کی دھوم تھی۔ لوگ نہایت شدت سے اس کی اگلی قسط کا انتظار کرتے۔ یہی ترجمہ آگے چلا اور ابتدائی طور پر تمام تراجم اسی ماخذ سے کیے گئے۔ انگریزی، اطالوی، جرمنی، یونانی اور‘ روسی زبانوں کے علاوہ سپین، پرتگال، رومانیہ، ہالینڈ، ڈنمارک، سوئیڈن اور ہنگری کی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے۔ اس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فرانسیسی میں ابھی اس کا ترجمہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ۳۱۷۱ءمیں انگریزی میں بھی ساتھ ساتھ ہی اس کے ترجمے کا آغازہو چکا تھا۔
انگریزی ترجمہ:
جیسا کہ ذکر ہوا کہ الف لیلہ کی شہرت کے باعث اس کا انگریزی ترجمہ فرانسیسی ترجمے کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ انگریزی میں ایڈورڈ ڈبلیولین اور جان پین نے ابتدائی تراجم کیے۔مگر انگریزی کا مشہورِ زمانہ ترجمہ سر رٹرد برٹن نے۵۸۸۱ءمیں مکمل کر کے شائع کیا۔ جسے شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ حتیٰ کہ اردو تراجم کے لیے بھی زیادہ تر اسی سے استفادہ کیا گیا۔انگریزی ترجمے نے اس عربی شاہکار کو جست لگاکر عالمی کلاسیکی ادب کا حصہ بنا ڈالا۔ جس کے بعد یہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوا، نیز اس پہ فلمیں بھی بنائی گئیں۔
اُردو ترجمہ:
مشرقی ادب کے اس عالمی فن پارے کا اردو ترجمہ بیسویں صدی میں کہیں جا کر ہوا۔اُردو کی معروف ویب سائٹ’ ریختہ ‘پر اس کا جو اولین ایڈیشن ’الف لیلہ المعروف بہ ہزار داستان‘ کے نام سے موجود ہے(۲)، اس میں مترجم کا نام کہیں درج نہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اسے مختلف مترجمین نے مکمل کیا۔ اس لیے اس پہ مترجم کا نام نہیں لکھا گیا۔ نیز یہ باتصویر ایڈیشن ہے۔ناشر کی جگہ جے ایس سنت سنگھ اینڈ سنز تاجرانِ کتب، چوڑیوالان دہلی درج ہے۔ بعدازاں اس کا ایک مقفیٰ و مسجعٰ ترجمہ رتن ناتھ سرشار اور مولوی عبدالکریم نے بھی کیا۔ جسے جدید عہد میں ۱۱۰۲ ءمیں سنگِ میل نے انتظار حسین کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا۔ جب کہ اس کی دوسری اشاعت آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام شمس الرحمان فاروقی اور اجمل کمال کی زیرادارت ۲۱۰۲ءکو چار جلدوں میں عمل میں آئی۔ انتظار حسین اپنے پیش لفظ میں بتاتے ہیں کہ اردو میں جن بزرگوں نے الف لیلہ منتقل کی ان میں، ”مولوی عبدالکریم، رتن ناتھ سرشار، مرزا حیرت دہلوی اور (ابوالحسن) منصور احمدکے نام خاص ہیں۔“ (۳)اس ترجمے کے متعلق آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ،
”سرشار نے الف لیلہ کو ترجمہ نہیں کیاہے۔ کتاب کے پہلے ایڈیشن میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ انھوں نے بکمالِ فصاحت و بلاغت انگریزی و عربی الف لیلہ سے ترجمہ کر کے ناول کے ڈھنگ پر تحریر کیاہے۔ناول کے ڈھنگ پر تحریر کرنے کیفیت یہ ہے کہ انھوں نے جو کہانیاں مناسب سمجھی ہیں، اردو میں منتقل کی ہیں، مگر اس طرح کہ طویل کہانیاں ان کے یہاں چند صفحوں میں سما گئی ہیں۔“(۴)
الف لیلہ کا اردو میں ایک اور رواں ترجمہ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر، ڈاکٹر ابوالحسن منصور نے کیا۔ جو۰۴۹۱ءسے ۶۴۹۱ءکے درمیان سات جلدوں میں انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی کے سلسلہ مطبوعات کے تحت شائع ہوا۔ اس کا جدید ایڈیشن پاکستان میں تخلیقات نے ۹۰۰۲ءمیں شائع اسی طرح سات جلدوں میں شائع کیا۔(۵)یہ سب سے آسان، سادہ، سلیس اور رواں ترجمہ ہے جو اصل متن کے نہایت نزدیک ہے۔
الف لیلہ کے معروف کردار:
الف لیلہ کی اصل داستان تو ویسے بادشاہ شہریار،ملکہ شہرزاد اور اس کی بہن دنیا زاد کے گرد گھومتی ہے۔ مگر اس میں جن دیگر تاریخی اور افسانوی کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے چند اہم کردار مندرجہ ذیل ہیں:
افسانوی کردار: نائی اور مچھیرا،مرجینا،علی بابا،سند باد جہازی، الہ دین
تاریخی کردار: حاتم طائی،برامکہ،شیریں،خسرو پرویز،ہارون رشید
الف لیلہ پر بنائی گئی فلمیں:
الف لیلہ کے قصوں سے ماخوذ سب سے زیادہ فلمیں انگریزی میں بنائی گئیں۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی فلم ”بغداد کا چور“۴۲۹۱ءمیں بنی۔اسی نام سے پھر۰۴۹۱ئ، ۲۵۹۱ءاور پھر ۱۶۹۱ءمیں بھی فلمیں بنیں۔ جب کہ اس سلسلے کی سب سے مشہور فلم ”عریبین نائٹس“۲۴۹۱ءمیں بنی۔اسی نام سے پھر۹۵۹۱ءاور۴۷۹۱ میں فلمیں بنیں۔ الہ دین ۲۹۹۱ءمیں بنی۔(۶)
ہندوستان میں حاتم طائی کے نام سے۰۹۹۱ءمیں فلم بنی۔
پاکستان میں بھی اس داستان سے استفادہ کرتے ہوئے اسے فلم سازی میں استعمال کیا گیا۔۵۶۹۱ءمیں ”ہزار داستان“ کے نام سے فلم آئی۔ جس کاری مکس ”الہ دین“ کے نام سے ۱۸۹۱ءمیں پیش کیاگیا۔جب کہ ”حاتم طائی“۷۶۹۱ءمیں ریلیز ہوئی۔ (۷)
عربی ادب میں الف لیلہ:
یہ کیسی عجب بات ہے کہ عرب کی سرزمین پر جنم لینے والی کہانیوں کی یہ کہانی، مغرب کے توسط سے دنیا تک پہنچی مگر خود اپنی جنم بھومی میں اٹھارویں صدی تک یہ گم نامی کی دھند میں پڑی رہی۔ دنیا اس شاہکار سے تب واقف ہوئی جب فرانسیسی سے ہوتی ہوئی یہ داستان انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ تبھی عربی ادب میں بھی اس کا شہرہ ہوا اور اس کے اصل متن کی تلاش ازسر نو شروع ہوئی۔ عربی ادب نے اپنے اس کلاسیکی نثر پارے سے اتنا عرصہ کیوں کر اغماز برتے رکھا؟اس کی ایک وجہ بیان کرتے ہوئے محمد کاظم لکھتے ہیں:
”الف لیلہ کے عربی ادبیات میں بار نہ پا سکنے میں ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ عربی ذہن اپنی ساخت کے اعتبار سے تصور و خیال کے مقابلے میں وصف و بیان سے زیادہ مطابقت و موانست رکھتا ہے۔ وہ امیجی نیٹو کم اور ڈسکرپٹو زیادہ ہے۔“(۸)
یعنی ان کا یہ ماننا ہے کہ عربوں کے ہاں چوں کہ فصاحت و بلاغت کا رواج تھا اس لیے وہ شعر گوئی کی طرف مائل تھے۔ کم الفاظ میں زیادہ بات کہنے کو وہ فصیح مانتے تھے۔ عربی مثل ہے کہ،”خیر الکلام ما عقل ودل“ یعنی بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو لیکن مطلب واضح کرے۔ جب کہ الف لیلہ ایک طویل داستان ہے، قصہ در قصہ ہے، اس کی زبان بھی عامیانہ ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق عام آدمی سے تھا۔ شعر گوئی و شعر فہمی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، جب کہ کہانی کا بنیادی قاری ہی عام آدمی ہے۔ اس لیے اس کی شعریات و لسانیات مکمل طور پر عام آدمی کی ذہنی سطح کے مطابق رکھی جاتی ہے۔ اور عربوں میں زبان کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر محمد کاظم کے بقول، یہ مفروضہ دلوں اور دماغوں کے اندر بیٹھ گیا تھا کہ جو چیز عوام کی خاطر تصنیف کی گئی ہو اور جس سے عوام کی دل جوئی اور تفریح مقصود ہو، وہ ’ادب‘ کے زمرے میں کبھی شمار نہیں ہو سکتی۔کیوں کہ عرب اپنی زبان اور قادرالکلامی پر نہایت فخر کرتے تھے۔ پند و نصائح، قصیدہ، ہجو، طعنہ، ان کے ہاں عام تھے۔ وہ بھلا ایسی عامیانہ زبان سے بھری، کہانی در کہانی سناتی داستان کو کیوں کر منہ لگاتے۔جس کا اول وآخر مقصد سننے والوں کو تفریح بہم پہنچانا تھا۔
یہی بات انتظار حسین کچھ اس طرح کرتے ہیں:
”الف لیلہ کی کہانیاں انسانی فطرت سے آشنائی پیدا کرتی ہیں۔۔۔۔ انسانی فطرت کے اس مطالعے میں نہ تو جذبات و تعصبات کو دخل ہے، نہ کوئی اخلاقی معیار راہ میں حائل ہے۔ الف لیلہ کے مصنفوں نے وعظ و پند کا فرض اپنے ذمے نہیں لیا ہے۔ وہ کسی منبر پر نہیں کھڑے ہیں، کسی اونچے مقام سے نہیں بولتے۔ اپنی طرف سے کوئی تبصرہ، کوئی رائے زنی نہیں کرتے۔ بھول چوک کی اس پوٹ کو جیسا انھوں نے جانا ہے، پیش کر دیا ہے۔“(۹)
یہی وجہ ہے کہ الف لیلہ سے عربی ادبیات ایک عرصے تک کنارے کنارے رہا، تاوقتیکہ کہ مغربی مستشرقین کے ذریعے اسے عالمی پذیرائی اور وقعت نصیب ہوئی۔
الف لیلہ کا ہندی ماخذ:
محمد کاظم ممکنہ طور پر اس اغماز کی ایک اور حیران کن اور دلچسپ وجہ بھی بتاتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر حیران کردیتے ہیں کہ، ”الف لیلہ کا موطن و مبدہ عرب کی سرزمین نہیں ہے، بلکہ کسی حد تک ہند اور پھر ایران کی سرزمین ہے۔“(۰۱)اس کے لیے دلیل وہ یہ لاتے ہیں کہ اول تو اُس زمانے میں پہلوی زبان میں ہندی اور ایرانی کہانیوں کی ایک کتاب‘ہزار افسانہ‘ کے نام سے مشہور تھی، جس میں اسی طرز پر کہانی در کہانی قصہ چلتا ہے۔ اس لیے اس کتاب کے پہلے حصے پر فارسی اور ہندوستانی رنگ غالب ہے۔ مزید وہ اس کے لیے ایک ہندی کہانی کا مرکزی خیال بتاتے ہیں کہ جس میں ایک عورت اپنے خاوند کے دوردراز سفر پر جانے کے بعد کسی دوسرے شخص سے پینگیں بڑھانا چاہتی ہے تو گھر کا پالتو توتااپنے مالک کی وفاداری میں اسے اس فعل سے بچانے کو ایک انوکھا طریقہ کھوجتا ہے۔ وہ روزانہ سورج غروب ہونے کے بعد اپنی عاشق مزاج مالکن کو ایک کہانی سناتا ہے اور دیر گئے اسے ایک دلچسپ موڑ پر لاکر کہتا ہے کہ باقی کا حصہ کل اسی وقت، اگر تم گھر پہ رہیں تو سنائوں گا۔ یوں روز وہ کہانی سے کہانی نکالتا ہے، حتیٰ کہ شوہر واپس آ جاتا ہے۔ کاظم صاحب کے بقول الف لیلہ کا مرکزی خیال اور بنیادی فریم ورک اسی ہندی کہانی سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے مقدس صحیفوں سے لے کر پنج تنتر وغیرہ میں قصہ گوئی کا یہی طرز رائج رہا ہے۔ بعدازاں یہ کہانیاں سفر کرتی ہوئی فارس اور پھر عرب سرزمین تک پہنچیں تو انھوں نے اس میں اپنا علاقائی، جغرافیائی و ثقافتی رنگ شامل کر کے اسے ایک ہزار ایک کہانیوں تک پہنچا دیا۔ اور کیوں کہ اس کی پرورش اور تکمیل وہیں ہوئی، اس لیے یہ عربی کلاسیک کہلائے، وگرنہ اس میں برصغیر سے لے کر فارس و مصر تک مشرق کے سبھی رنگ اور ذائقے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
فروری ۰۱۰۲ءمیں مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ہندوستان کی جواہر لعل یونیورسٹی نے اس ادبی شاہکار پر ایک، سہ روزہ عالمی سیمینار منعقد کروایا، جس میں مشرق سے لے کریورپ تک کے عالم فاضل شامل ہوئے، تو وہاں بھی مقامی ادیبوں نے یہی دعویٰ کچھ اس طرح کیا کہ اس عالمی شہ پارے کی ابتدائی کہانیوں کا ماخذ اور مرکزی تھیم ہندوستان کی سرزمین سے ملتے ہیں۔دلی سے اس سمینار کو رپورٹ کرنے والے بی بی سی اُردو کے نامہ نگار مرزا اے بی بیگ نے لکھا کہ، ’ہندوستان کا اس سلسلے میں یہ دعویٰ ہے کہ اس کی کہانیاں ان کی ہیں کیونکہ ان کے یہاں ایسی کہانیوں کی روایت رہی ہے۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ پنچ تنترکی کہانیاں پہلے عربی زبان میں کلیلہ و دمنہ کے نام سے ترجمہ ہوئیں اور پھر وہاں سے فارسی زبان میں آئیں‘۔(۱۱)
اس معاملے میں محمد کاظم کی یہ رائے صاحب معلوم ہوتی ہے کہ،
”الف لیلہ قسم کے شاہکاروں پر کسی ایک ملک یا قوم کا اجارہ نہیں ہوا کرتا۔ وہ دنیا کے سارے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں اور ہر ملک میں اپنے ملکی ادب کی حیثیت سے ان کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔“(۲۱)
جب کہ انتظار حسین یہ کہہ کر ساری بات سمیٹ لیتے ہیں کہ،
”الف لیلہ ہماری اجتماعی ذات کی دستاویز ہے۔“(۳۱)
حواشی و حوالہ جات:
ا۔ محمد کاظم، ”عربی ادب میں مطالعے“، نقشِ اول کتاب گھر لاہور، ۹۹۳۱ ھ(۸۷۹۱ئ)، ص۰۱
۲۔https/www.rekhta.org/ebook
s/unknown-mukammal-
dastan-hazar-laila-alf-ur=1?lang-
ebooks-author
۳۔انتظار حسین، ”ہزار داستان“، سنگِ میل لاہور،۱۱۰۲ئ، ص ۶۱
۴۔ ایضاً، ص ۶۱۔۷۱
۵۔ابوالحسن، منصور احمد، ”الف لیلہ و لیلہ(ایک ہزار ایک داستان) جلد اول تا ہفتم“، تخلیقات لاہور، ۹۰۰۲ئ
۶۔الف۔لیلہ۔و۔لیلہ۔ur.wikipedia
.org/wiki/https
۷۔jang.com.pk/https
۸۔ محمد کاظم، ص ۶۲
۹۔انتظار حسین، ص ۴۱
۰۱۔محمد کاظم، ص ۶۱
۱۱۔www.bbc.com/urdu/02/201
0/100225_arabian_nights_sz
۲۱۔ محمد کاظم، ص ۲۳
۳۱۔انتظار حسین، ص ۵۱