گل خان نصیر کا مجسمہ

ایوبی دور میں قلی کیمپ کے عقوبت خانے کے درودیوار سے چیخ و پکار کی آوازیں سازِ امروز بن چکی تھیں۔ اس عقوبت خانے میں مصائب و مشکلات واحد پہچان تھے ۔معمولی حقوق عظیم رعایتوں کا درجہ پا چکے تھے۔ بربریت نے انسانیت کی رمق ریت میں نچوڑ دی تھی۔ اب صرف سفاکیت تھی۔ خالص سفاکیت ۔ باہر مارشل لا ہو تو جیل میں کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا۔
”…. کسی موقع پر جیل کے عملے نے میر نصیر سے اُس کا نوٹ بک اور قلم چھین لیا تھا ۔ جس سے یہ شاعر و تاریخ دان اور مصنف کا پریشان ہونا یقینی تھا۔ میر صاحب جیسے درد کَش سیاسی کارکنوں اور آدرش رکھنے والے قہر مانوںکے لیے جیل کی سختیاں اور مصائب توکوئی معنی نہیں رکھتے لیکن قلم اور کاغذ سے محروم رہنا اُن کے لیے نا قابل برداشت تھا۔ میر گل خان نے یہ نوحہ خود یوں لکھا:….”ہمارے پاس کاغذ تھا اور نہ ہی قلم ۔ وہ سب چھین کر لے گئے تھے ۔ میر غوث بخش بزنجو جب آئے تو ان کے پاس نہ جانے کیسے پنسل اور نوٹ بک تھی ۔ یہ چیزیں ہم تینوں ، (گل خان نصیر ، بزنجو ، میر عنقا ) نے تین جگہ بانٹ دیں“ ( یعنی ایک پنسل کو تین ٹکڑوں میں توڑا ۔ ایک ایک تہائی پنسل ایک نعمتِ خداوندی تھی جو نوشکی، نال اور مچھ میں تقسیم ہوچکی تھی)۔……..” اور پھر جب جیل کے سپاہی سگریٹ کے خالی ڈبے پھینکتے ،تو میں انہیں اٹھا کر کھولتا اور ان پر اشعاروغیرہ نوٹ کرتا اور انہیں پھر اپنے تکیہ کے اندر چھپا کر رکھتا تا کہ انہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔
” ایک دن میرے اپنے عزیز فتح خان بولا زئی جو فوج میں تھے اور ہمارے نگران بھی ، نے میری پنسل دیکھ لی ۔ میں نے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑے کہ دیکھ فتح خان ، مجھ سے میری پنسل نہ چھیننا ۔ پھر اس نے یہ مہربانی کی کہ مجھ سے پنسل نہیں چھےنی “۔
بعد میں صوبے کے وزیر تعلیم اوربلوچی زبان کے سر شاعر قرار پانے والے گل خان ! تجھ پر تو سارے قلم، سارے کاغذاور سارے فتح خان قربان! ۔کاش تیری قربانیوں کی علامت کے بطور تیری عظمت کی نشانی کی خاطر بلوچستان کے ہر بڑے شہر کے بڑے چوک پر تیرے جوڑے ہوئے مقدس ہاتھوں اور پنسل کے ٹوٹے کے مجسمے بنائے جائیں !!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*