اے اپسرا تُم کون ہو؟

تُم کو کہیں دیکھا ہے شاید، پَر کہاں؟
تُم نجد کی وادی میں بھٹکے قافلے سے تو نہیں؟
آنکھیں تمہاری گُم کسی احساس میں

آنکھیں کہ جن میں آگ ہے، آنکھیں کہ جِن میں رنگ ہیں
آنکھیں کہ جِن میں آئنے ، آنکھیں کہ جِن میں سنگ ہیں
آنکھیں کہ جِن میں قافلوں نے رَسّیاں کُھولیں تو پِھر بیٹھے رہیں
آنکھیں کہ جِن میں زندگی جھانکے اگر تو سانس لینا چھوڑ دے
رُخ زرد پَڑ جائے ہواؤں کا وہیں

اے نازنیں !
تُم راہبوں کے طائفہ سے تو نہیں؟
بکھری ہوئی زُلفوں کی لو
سرکش ہواؤں سے کسی پیکار کی روداد کہتی ہے مُجھے

اُف آگ ہے رنگت تِری
وہ آگ جِس میں زندگی ایندھن بنے
وہ آگ جِس کی روشنی تطہیر کا باعث بنے
کیا تُم کوئی زرتشت ہو؟
کوروش کے اشکوں کی تسبیح ِ رواں
زنّار لہجوں کا بیاں
اُٹھتے ہوئے بربط کی چیخوں کا دُھواں

تُم کون ہو؟

سوداگروں کی بھیڑ میں نکلی کنیزوں کی قطاروں میں سے تُم اِک تو نہیں؟
مُجھ کو تمہارے جسم سے محلات کی خُوشبو ملی

اے زندگی!
تُم رہزنوں کی ٹولیوں سے تو نہیں؟
تُم سے نگاہیں کیا مِلیں
میں نے مرے دل کا پتا گُم کر دیا
تُم کون ہو؟

تُم معبدِ ناہید کی کوئی پُجارن تو نہیں؟
سنگِ غضب کی مُورتی!
سازِ طَرَب سے کیا علاقہ ہے تُمہیں ؟
گردن غزالوں سی مُڑی
تابندگی رُخ پر وہی
نخوت تمہاری چھاتیوں کی مرمریں اجسام سی
گُم کردگی احساس کی ، چُپ بھی وہی
تُم مُجھ سے کوئی بات کیوں کرتی نہیں؟

میں سرزمینِ قیس کا بھٹکا کوئی رہگیر ہوں
مُجھ کو اساطیری کسی کردار سے صحبت نہیں
میں داستانِ یوسفؑ و یعقوبؑ کا راوی نہیں
نہ میں کوئی اوتار ہوں
میں سُورماؤں کی کسی اِک فوج کے دستے سے ہوں
ہارا سپاہی زاد ہوں
میری زرہ پر زنگ ہے
ٹُوٹی ہوئی تلوار کا دستہ پڑھو

چلتے ہوئے یونہی نظر تُم پر پڑی
میرے قدم خود رُک گئے

اَب کیا کہوں تُم کون ہو
مفروضگی سے اِس قدر شفّاف تر
ہر اِک گُماں سے پاک تر

تُم کون ہو اے اپسرا ؟

تُم رَہزنوں کی ٹولیوں سے تو نہیں ؟
تُم سے نگاہیں کیا مِلیں
میں نے مرے دل کا پتا گُم کر دیا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*