اس شہر میں رہ کیا گیا ہے

 

لٹن روڈ کی
مہکتی شادابیوں کی جگہ
کنکریٹ زدہ راہگزر نے لے لی
پرنس روڈ کی
ناشاد یکطرفگی کی سزا
نہ لوٹتے سیاحوں کو دی گئی
دور سمنگلی کے
اجڑتے باغوں میں
اک شہرِ نوک نوا سجتا گیا
زندہ دلانِ سریاب کے
چہکتے دلوں کو روزِ امروز کی
مایوس خشک سالی
مانندِ کاریز خشک کرتی گئی

کوہِ مہردر کی قرنطینہ زدہ
اداس تنہائیاں ہوں
کہ چلتن کی
دلکش وادیوں کی آہ و بکا
ہنہ کے سفید پانیوں کا
ناچار رک جانا ہو
کھلکھلاتے میڑو پارک کا
مرجھائے جانا
اس شہر ِنارسا کی
کس ناکام ادا کا ماتم کروں
یا یہ بتا،
کس ناچار ترویج کا جشن مناﺅں

ایک ادائے دلبرانہ لیے
قندھاری آ جاتے تھے
خلقِ سبی اسے
مسکن گرما بناتے تھے
پشین کے دیسی انگریز
سارا سال آباد رکھتے تھے
نوشکی کے خوبرو ورنا
اس کی سڑکوں کو
چَوَٹ پہنے قدموں سے
دوام بخشتے تھے
اور وطنِ دیگر کے
سارے احبابِ ہم س±خن بھی
برفاگِ سردا کی تپش سے
کھینچے چلے آتے تھے

اب نہ وہ جنونِ دلبری ہے
نہ وہ التفاتِ ہم دلی
بس مردود سڑکوں کی
شوریدہ خاموشیاں ہیں
اور تاریخ کے قہوے کا
مخروطی پیالا ہے
جس میں قہوے کی جگہ
حال کے تلخ مشروب نے لے لی ہے۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*