حسن عسکری

 

(6اپریل 1950 تا 5مئی 2021)

حال ہی میں ہم اپنے سینئر ساتھی محمد علی بھارا کے تعزیتی جلسے میں ملتان میں اکھٹے تھے ۔ تین دن تک مستقبل کے منصوبے بناتے رہے ۔ سانگڑھ وکوئٹہ اور سندھ و بلوچستان میں تحریک کے فروغ کی باتیں اور پروگرام بناتے رہے۔ کسے خبر تھی کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔
بعدمیں بھی دو چار بار فون پہ لمبی باتیں رہیں۔ پھر فیس بک پہ اس نے لنگ کینسر کی برباد کر ڈالنے والی خبر سنائی ۔ آپ ایسے مریض سے کیا باتیں کریں گے ، ڈاکٹر کے بطور کچھ باتیں مریض ، علاج اور فرق پڑنے کی ۔ باقی میری طرف سے لطیفے اور ہلکی پھلکی باتیں اور اُس کی طرف سے بہادری اور جرات کا اظہار۔
…..اور پھر ” لٹ خانہ تحریک” والوں کے  بقول وہ اوپر چلا گیا۔

1972میں میں اُس پارٹی میں شامل ہوا جس میں حسن عسکری پہلے سے  موجود تھا ۔ شامل ہونا کیا تھا کوئی ریڈ کارڈ تو کٹتی نہ تھی۔ بس ہفت روزہ عوامی جمہوریت پڑھنے کا عادی ہوا، اُس کے ایڈیٹر سے خط وکتابت ہوئی ۔اور مقامی شاخ میں بھرتی کر لیا گیا ۔بس۔
اُس کے آٹھ دس سال بعد حسن عسکری سے بالمشافہ واقفیت ہوئی ۔ اصل میں وہاڑی کا حسن اُس زمانے میں سانگڑھ سندھ میں اپنی چھوٹی زمین داری پہ گزارہ کرتا تھا۔ پولیو زدہ ٹانگ ، بہت ہی لاغر ، بے داڑھی بے مونچھ ، ورکرٹائپ کا آدمی۔
عام بلوچی میں ”امسرو“ (ہم عصر) حتمی طور پر ہم عمر کو نہیں کہتے ہیں ۔ بس طبیعتیں ملنے والا شخص، ادھیڑ عمر تک یہ لفظ کوالی فائی کرتا تھا۔ مگر ہم معنوی لحاظ سے بھی اَمسرو تھے ۔ چار سال کی بڑائی تو کوئی بات نہیں ہوتی۔
حسن خوش مزاح نصف صرف اس حد تک تھا کہ وہ اچھی بات انجوائے کرتا تھا ۔اس کا اپنا لہجہ مگر شیریں نہ تھا۔ پتہ نہیں اس کے کیا کیا عوامل تھے ۔ مگر ایک فیکٹر تو یہ بھی تھا کہ باپ 1947میں پاکستان آیا۔حسن نے ایک دربہ در اور غریب زندگی جی لی، پھر اپنا نیا وطن وہاڑی چھوڑ بالکل الگ کلچر سانگڑھ آیا۔
حسن کی جوانی اور ایوبی مارشل لا کے خلاف عوامی تحریک کی نوجوانی دونوں اکھٹی آئیں۔ آپ نوجوان ہوں، کالج پڑھتے ہوں اور ایوب مخالف بڑی تحریک چل رہی ہو تو شعور کے تومزے ہوجاتے ہیں۔ عوامی ہل چل کے ماحول میں شعور تو ترقی کرنے والی سب سے پہلی چیز ہوتی ہے ۔ ایوب مخالف تحریک کے سیاسی نکات اپنی جگہ مگر غریب تو اس وقت اچھل کر اُس میں شامل ہوتا ہے جب روٹی دسترس سے باہر ہوجائے ۔ ایوب کی بدبختی کہ گندم یک دم 90روپے من کردی گئی۔ یہی کافی نہ تھا یہ گندم مارکیٹ سے غائب بھی ہوگئی۔ بس پھر تو کسانوں کے خالی پیٹ کی تپش سے گلیاں شعلہ فگار ہوگئیں۔ ایک فوری اور خود رو تحریک شروع ہوئی۔ جھٹ سے اس تحریک کو مرزا اعجاز بیگ، محمد علی بھارااور چودھری حفیظ میسر آئے ۔ اِن تینوں نے قیادت سنبھالی ۔ اِن تینوں کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ یہ زمانہ 1960کی دھائی کے دوسرے نصف کے اوائل کا تھا ۔
شہر کی گلیوں میں روز جلوس امڈ آتے اور خالی پیٹ کی گہرائی سے مہنگائی کے خلاف نعرے لگتے ۔ ایک ایسے ہی پر جوش جلوس کے وقت اچانک مرزا اعجاز بیگ نے ہانکا لگایا”سرکاری گودام لوٹ لو“ ۔ یہ حکم تھا، درخواست تھی یا ترغیب۔ فقرہ پیٹ کو بہت اچھا لگا۔ مزدکی خالی آنتیں حرکت میں آئیں اور آناً فاناً سے قبل گودام خالی ہوچکے تھے۔ غلہ غریب کی کٹیا منتقل ہوکر پیٹوں کی آگ پہ پانی کا کام دینے لگا۔
سرکار حرکت میں آئی ۔ نیپ کے لوگوں پہ مقدمے ہوئے اور سارے لیڈر تھانے میں ۔ حسن عمر میں بھی چھوٹا تھا، پولیو کی وجہ سے لنگڑا بھی تھا اس لیے پولیس والوں کے لیے دلچسپی کا مرکز ہوا۔اُس پہ کوئی قید نہ تھی کہ وہ قیدیوں کے لیے چائے روٹی لے جانے ، پیغام وغیرہ پہنچانے کاکام کرے۔
حسن عسکری پکا سیاسی بن گیا ۔ 1967کا وہ دن اور 2021کا اس کی زندگی کا آخری دن کسان ، پارٹی، اور انقلاب اُس کے عقل کی چادر کے پلو سے بندھے رہے ۔ آخرت کا توشہ!!۔
چونکہ بھارا، مرزا،اور چودھری حفیظ جیسے اُس کے اساتذہ اور قریبی لیڈر کسان تحریک سے تھے اس لیے حسن بھی کسانوں کی تنظیم ” کسان کمیٹی “ کا دلارا بنتا گیا۔
1971میں اپنی زمین کے ٹکڑے پر پلنے کے لیے وہ سانگھڑ شفٹ ہوگیا۔ سانگڑھ سندھ میں ہے ۔ یک دم پورا پیراڈائم بدل گیا تھا۔ اس نے کسانوں میں کام شروع کیا تو جلد ہی سندھی سیکھ لی۔ غریب تو ہر جگہ کے بس ایک سے ہوتے ہیں تو رچ بس گیا۔ او رامیر بھی ہر جگہ کے ایک سے ہیں ۔ وہاڑ ی کے چودھری اور سانگڑھ کا وڈیرہ ایک جیسی کرتوتوں والے تھے ۔ چنانچہ بہت کچھ بدلنے کے باوجود کچھ نہ بدلا۔
کراچی قریب تھا، بڑی سی ٹریڈ یونین موجود تھی ، قیادت گجرانوالہ کی کنیز فاطمہ رہی تھی۔ سو اُسے سپیس مل گئی ۔ سانگڑھ کی نسبت کراچی آسان لگا۔ کنیز فاطمہ کے اعتماد سے حسن عسکری ،شوکت حیات ، روشن کلہوڑو ،سلیم رضا کھلا کام کرنے لگے ۔ کنیز پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی صدر ہی نہ تھی وہ سی آر اسلم کی سوشلسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی او رسیکریٹریٹ کی ممبر بھی تھی ۔ اسی زمانے میں انیس ہاشمی میں بھی سوشلسٹ پارٹی میں آچکاتھا۔
ضیاءالحق کا دور ہم سب کی سرگرمیوں کے عروج کا دور تھا ۔ پارٹی کا کوئی ورکر آرام سے نہ بیٹھتا۔ چونکہ پارٹیوں پر پابندی تھی اس لیے سارا زور کسانوں اور مزدوروں کے فرنٹ پہ تھا۔ چنانچہ کسان کانفرنسیں اور مزدور کانفرنسیں ہر ضلع میں ہونے لگیں۔ حسن بھی پیچھے نہ رہا۔
کراچی میں پارٹی آفس میں کچھ چھڑے دوستوں کی رہائش بھی تھی ۔ یہی میٹنگ پلیس بھی تھی اور سرگرمیوں کا محور بھی۔
تحریک کسی نہ کسی صورت زندہ رہی۔ اس زمانے میں پارٹی کا سٹوڈنٹس ونگ بھی زبردست طور پر سرگرم رہا۔ نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ لیڈر شپ میں آگئی۔ ملک میں مارشل لائیں اپنی صورت اور نام بدلتے رہے ۔ یہی مارشل لائیں پارٹیوں کو توڑتی پھوڑتی رہیں۔ ہم بھی ٹوٹے پھوٹے ۔ ایسے کہ دوبارہ کبھی نہ سنبھلے ۔
رہی سہی کسر ملک الموت نے پوری کردی ۔ بڑھاپا طاری کرتے کرتے پھر اُس نے انہیں قتل کرنا شروع کردیا۔ اور بالآخر سرگرم ترین، ہوشمند ترین اور اور مدبر ترین سی آر اسلم بھی ٹمپل روڈ چھوڑ میامی قبرستان دفن ہوا۔
میں اور حسن عسکری ابھی چند  ماہ قبل بھارا صاحب کے تعزیتی جلسے کے سلسلے  میں  ملتان میں آخری بار ملے تھے ۔ زیرو سے شروع کرنے کا دوبارہ سہ بارہ چہار بارہ۔۔عزم کر چکے ۔اُدھر ملک الموت ہنس رہا تھا۔
تین ماہ بعد حسن انتقال کر گیا۔ میرا کوئی آنسو نکلایا نہیں، مگر اُس کے طبقاتی دشمن کے دل میں گلاب کھل اٹھے ۔قہقہے فلک شگاف ہوگئے۔
جن لوگوں نے پچاس برس تک آپ کے ساتھ مارشل لا کے خلاف سیاست کی ہو، جیلیں، روپوشیاں سہی ہوں ، اُن کی ایک ایک کر کے رحلت بہ ذاتِ خود ایک تکلیف دِہ بات ہے ۔ حسن عسکری بھی آدھا رہ گیا تھا۔
سیاست کے آخری برسوں میں اُسے ٹراٹسکائیوں، گرامچی والوں، اور پیٹی بورژوا رجحانات رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مرج شدہ ایک پلیٹ فارم پہ کام کرنا پڑا۔ یہ ایک ایسا میدان تھا جس کی اُسے نہ تو عادت تھی نہ ٹریننگ ۔ لہذا وہ ”جیب اجازت نہیں دیتی“ ، یا” صحت خراب ہے “کہہ کر اس ملے جلے مینورنجن سے کبھی نکلا کبھی شامل ہوا۔ مگر آخر تک ایڈجسٹ نہ ہو پایا۔
مگر یہ کیا کم بات ہے کہ اُس نے سوشلزم کی بنیادی باتوں پہ کبھی کمپرومائز نہ کیا؟ ۔ جہاں بھی موقع ملا اپنی بات کر ڈالی۔ جہاں بھی موقف ٹیڑھا لگا درستگی کی کوشش کی۔ بے رو بے رعایت۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*