تخلیق

 

بہت سی ادھوری کہانیاں
میرے گیسوئووں کی
بل کھاتی زہریلی
ناگنوں میں پھنکارتی ہیں
ہمیں مکمل تو کردو،
کہ ہم
سانس لینا چاہتی ہیں
ہمارے عنوان،
خزاں کے پتوں پہ قلم تھے
جو نا جانے کب کے
خس وخاشاک ہوگئے
کہ تم بہاروں سے بھاگتے بھاگتے
پرانے برگد کے تنے میں
چھپ کے بیٹھی تھی۔
وہیں پہ پلکوں کی چلمن سے
سسکیاں ابھرتی ہیں
بہت سی
ان کہی نظمیں
جنم لینے کو
تخلیق کی زچگی کا
انتظار کرتی ہیں
تخلیق کی کوکھ
کب سے ہی خالی ہے
اب جننے سے عاری
تخلیق ۔۔
اپنے قلب کا کشکول تھامے
آنکھوں کی خشک سالی سے
نمو کے چند قطرے
اپنے بیضے کو
زریاب کرنے کی سعی میں
بھیک مانگتی ہے
یہ جانے بنا
کہ
ان آنکھوں کو
زمانے کے خداؤں نے
جب سنگسار کیا تھا
تو ان پہ بندھے
احساسات کے سب بند
مسمار ہو گئے ۔۔۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*