Hallucination

 

ہمارے جسم کوہ ہسار و دشت سے
دھتکارے جانے کے بعد
بلا جواز دربدر بھٹکتے رہے۔
ہمارے سینے کوہِ آتش فشاں کی مانند دہکے۔
ہماری نرمل پوریں ہجرستانی کوچوں پر
سفید رت سے
ہمارے بوسیدہ خال و خد تراشنے لگیں۔
ہمارے نرم قدم بےمٹل چلتے رہے،
عہدِ تجدید نے ہماری دماغی صلاحیتیں
سلب کیں،
ہمارے دل نے کینہ و بغض کو فروغ دیا۔
من سلوی سے انکاری ہو کر
ہم تجدیف کے منکر بنے۔
تجدیدِ معکوس میں ردوبدل کی
خاکہ سازی کی مشینیں لگائیں۔
نجس خالی جگہوں کو
گُلال کی لالی سے پُر کیا۔
تجدیدِ امثال کو گہنا سمجھ کر
لبدھڑ کلائیوں میں پہننے لگے۔

ٹرانس جینڈر کے گھٹنوں سے گودا نچوڑ کر
بیواؤں کیلئے سندور بنایا۔

نظامِ فطرت میں نفرت کی بُو بھری
وائرس کا اختراع کیا۔
خوبرو جسموں نے گلوبل وارمنگ کا تندور تپایا
نوزائیدہ سانسوں نے
چولہوں میں آگ سلگائی۔

” ہالو سینیشن کا فریب کھا کر بھی
ہم مرضِ اختلاجِ قلب و انا سے باغی نہ ہو سکے”.

 

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*