حُور وَش

 

خَلوت کے کینوس پر مُزین
سبزۂِ نوخیز پہ
ہم چاہت کی اوٹ لگائے بیٹھے ہیں۔
اوندھے امبر کے سائے تلے امرت ندی بہتی ہے۔
جس میں سنہری شگوفوں کے رَگ و رَیشے
اے میری حُور وَش!!
تمہاری مسکان کے توسط سے کھلتے ہیں۔
ہم مقامِ ہُو میں رہ کر
محبت کے صحیفے یا وہ نظمیں لکھ سکتے ہیں۔
جو پاتال کھنگالنے پر بھی
لوگوں کی پہنچ سے دور رکھی جاتی ہیں۔
لوگوں کے دکھانت کا سَوانحِی خاکہ کھینچ سکتے ہیں۔
ہم اک زنبیل تشکیل دے سکتے ہیں۔
جس میں لوگوں کے جسم و روح کو
محفوظ کر کے ان سے متوصل رہیں۔
کاتبِ اعمال ہمارے اَنتَرا ہیں۔
اے میری حُور وَش!!
ہمارا دماغ عجب چیستانی بندر ہے۔
جو مزح کی اَٹکل سے خوب واقف ہے۔
دل برفانی ریچھ جو فقط
مچھلی کھا کر ڈکار مار سکتا ہے۔
ہم سوچ بچار سے ضرب المثل لگا کر
دنیا کی آخری پرت میں چھپایا گیا
کاغذِ راز کھوج سکتے ہیں۔
جان سکتے ہیں دِیو لوک سے ہمارا کیا رشتہ ہے۔
اے میری حُور وَش ۔۔۔!!

” صد افسوس دامے، درمے، قدمے، سخنے، ہو کر بھی
ہم خَلوت کے کینوس پر نہیں رہ سکتے ہیں”۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*