قصہ کتاب چھپنےکا (افسانوی مجموعہ :چندن راکھ)

 

زندگی کے سفر میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب انسان کو اپنا آپ گھور گھپ سرنگ میں سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ان لمحات میں لفظ چمکتے جگنو تھے جو میرے آکاش پہ ٹمٹماتے تھے۔ میں نے ان جگنوؤں کو بچوں کے سے اشتیاق سے دل کی ہتھیلیوں پہ رکھا ان کی روشنی مجھے روشن کر گئ۔
تو صاحبو! ہم بھی صاحب کتاب ہوگئے-صاحب کتاب ہونے پر ایک بارہا سنا لطیفہ یاد آیا جب ابلیس نے کسی کی پیدائش پر فخریہ مسکراتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ” ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے”-
ماہتاک سنگت کے نمائندہ خصوصی زکریا خان نے کتاب کی پروف ریڈنگ کی درد سری اپنے سر لے لی اور اس درد سے مجھے بری الذمہ قطعی نہیں کیا ۔ سچا کامریڈ ہے، مجھے اس نے برابر کا شریک رکھا اور اس ادا سے کہ درد سری مجھ تک
سہ آتشہ ہو کر پہنچتی رہی۔ہرایک افسانے کی ہر ایک لفظ کی املا اس نے بزریعہ واٹایپ مجھ سے تصدیق کروائی ۔ اسی پہ اکتفا ہو جاتا تو بھی خیر تھی لیکن ظالم زکریا ایک لمبی تمہید باندھ کر ہر لفظ کی درستی چیک کراتا ۔کچھ اسطرح کا مکالمہ چلتا :آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔
جی ؟
طبیعت ٹھیک ہے نا آپ کی؟
جی بالکل فسکلاس!
ایک لفظ کی املا پر زرا وہم سا ہے۔
کونسا؟
لفظ نحیف ایسے ہی ہے نا؟
ہے تو ایسے ہی۔۔آپکو غلط لگ رہا ؟
نہیں !نہیں! ایسے ہی احتیاطاً پوچھ لیا۔
میں نےبھی احتیاطاً ہر بار لغت اٹھا کر ہر لفظ کے حروف جانچے ۔
اب حال یہ ہے کہ ہر لفظ کی املا غلط نظر آتی ہے – جانے "غلط’ غ سے ہے کہ گ سے؟؟؟
اور اب بات ہو جائے ٹائٹل کی،
محمد اظہر رانا صاحب کی انتہائی ممنون ہوں کہ انھوں نے اپنی بنائی شبیہہ بطور سرورق مراحمت فرمائی۔ وہ وسیع المطالعہ دانشور کمال مصور اور sculptor ہیں ۔ غربت اور جہالت کے تازیانے سہتے طبقے کی خوشحالی کی تمنا میں ایک طویل جدوجہد ان کی زندگی کا حاصل ہے۔
محمد اظہر رانا افسانہ نگار بھی ہیں وہ لفظوں میں نہیں لائنوں میں افسانہ تحریر کرتے ہیں-
چندن راکھ کے افسانوں میں سب سے شاندار دلپذیر افسانہ اس کا ٹائٹل ہے-محترم محمد اظہر رانا نے کتاب کے بیک ٹائٹل پر اپنی صائب رائے سے بھی نوازا ۔ایک لطیف پیرائے میں انھوں نے مجھے کرشن چندر کا لقب عطا کیا ۔ "کرشن چندر ” قرار دینا ایسے ہی تھا کہ جیسے ہاتھ میں سورج رکھ دیا جائے- اٹھانے کا یارا نہ ہوتے ہوئے بھی سورج اٹھانے کی شکتی رکھنے والے کو لوٹانے کا حوصلہ بھی نہ ہو،من آنم کہ من دانم۔
قصہ مختصر زکریا خان کے سعی پیہم سے کتاب اشاعت طباعت کے مراحل سے بہ خوبی گزر گئ۔
فیسبک پہ کتاب کی رونمائی نے دلچسپ صورتحال اور توقعات
کری ایٹ کر دیں۔
بہت سارے پیغامات ان باکس
مبارک باد کے آئے اس فرمائش کے ساتھ کہ ہمیں کتاب تحفتاً بھجوائیے ۔۔
کیوں صاحب! ہم کوئی شاعر ہیں کہ پہلے سو جتن کر کے کتاب چھپوائیں اور پھر اندھے ہو کر احباب میں ریوڑیاں کی طرح بانٹ دیں!!
ایک جناب نے کچھ اسطرح گفتگو کا آغاز کیا؛ موصوف: آپ فلاں نوید صاحب کی مسز ہیں؟
مصنفہ ایک حیرت بھری لمبی جیییییییی کے بعد گویا ہوتی ہیں۔ دیکھیں !نوید میرا بالکل میرا اپنا یعنی کہ ذاتی نام ہے اس کا کسی اور نوید نامی سے کوئی تعلق نہیں ہے-
موصوف: اوہ ! معذرت
مصنفہ:خیر لگتا ہے فیسبک پہ جتنی بھی آئی ڈیز نوید نام کی ہیں ان سے …..be aware of رہنا پڑے گا۔
موصوف :(سنی ان سنی کرتے ہوئے)
پھر تعارف ہو جائے۔ایسے آپ کا تعارف تو کرشن چندر کے نام سے تو ہوچکا اور مدر ڈے پر آپ کی روہانسی تحریر ‘میری امی” بھی پڑھی تھی۔
مصنفہ: (بیک فٹ پہ جاتے ہوئے) جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے مدر ڈے پہ کوئی تحریر امی پر نہیں لکھی
دوسری بات یہ ہے بھائی صاحب! کرشن چندر بطور استعارہ لکھا گیا ہے ہم سچی مچی میں کرشن چندر نہیں ہوئے، آپ گھبرائیں نہیں!
موصوف: کرشن چندر کا ذکر گول کرتے ہوئے بولے اچھاآآ "میری امی ” آپ نے نہیں لکھا ۔پھر جانے کیوں دھیان آپ ہی کی طرف گیا ۔۔
مصنفہ: آپ مہربانی سے دھیان کا دھیان رکھا کریں یہ نٹ کھٹ ،منچلا بالک سا رویہ بھی اپنا لیتا ہے ۔
موصوف: معذرت چاہتا ہوں آئندہ دھیان کا دھیان رکھوں گا ۔عید کی چھٹیوں کے بعد اپنی افسانوں کی کتاب تو دان کیجیے۔ ۔۔
بہرحال ,چونکہ, اگرچے ,مگرچے دیر تک ہاتھوں میں ہاتھ دیے دائرے میں گھومتے رہے: بول میری مچھلی ! کتنا پانی ۔۔۔
اسی طرح کی ایک دو اور بحثا بحثی کے بعد ہمارے سانس اسطرح اکھڑ گئے جیسے کرونا ہوگیا ہو۔ موقع غنیمت جان کر خود کو ایسے قرنطینہ کیا کہ جی ڈھونڈتا تھا جو فرصت کے رات دن وہ بھی نصیب میں آ ہی گئے۔
خیال و خواب کی انگلی تھامے زرا پیچھے پلٹ کر دیکھا تو بات زیادہ دور کی نہیں کچھ سال پہلے ہی ماہتاک سنگت کو اپنا پہلا افسانہ بھجوایا ۔واجہ شاہ محمد مری کے تعریفی کلمات سننے کے بعد ، ٹوکری میں ایک انڈے کا اثاثہ دیکھتے ہوئے، شیخ چلی نے پولٹری فارم بنانے کا سوچا۔آسمانوں میں اڑنے کی چاہ رکھتی آشا نے شاہ محمد سے پوچھا : کاش میری کتاب کا پیش لفظ آپ لکھیں ؟ جواب ملا : ” تم مرا کب ؟ جو ہم رویا نہیں-” بھونچکا رہ جانے کے اصل معنی اسی دن سمجھ آئے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا : ” یہ بلوچی کہاوت ہے جب کتاب آئے گی تو پیش لفظ بھی لکھا جائے گا ۔فالحال سنگت کے لیے دوسرا افسانہ لکھنا شروع کرو۔”
افسانے لکھے جاتے رہے اور سنگت میں تسلسل میں چھپتے بھی رہے ۔پھر ایک دن شاہ محمد مری ہی سے سیکھی انکساری سے کام لیتے ہوئے عرض کیا ” ہم کوئی عظیم رائٹر تو ہیں نہیں بس شوقیہ فنکار ہیں ۔خیر سگالی جذبات سے زرا برادرانہ سا پیش لفظ لکھ دیجیے ۔ ازراہ کرم بحر ظلمات میں گھوڑے نہ دوڑا دیجیے گا”_

"اچھآا! اب تم مجھکو لکھنا سکھائے گا-” شاہ محمد مری نے اپنی ہنستی مسکراتی آواز میں کہا۔،”اس موقع پہ ایک بلوچی کہاوت ہے۔۔۔۔”
میں نے جلدی سے دونوں ہاتھ جوڑ دیے-
"صاحب! خدا کا واسطہ ،بلوچی کہاوتوں کی مار نہ ماریے-”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*