شکست

 

اپنے سینے سے لگائے ہوئے امید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے
تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تها دوچار
دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے
جب بهی راہوں میں نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں سے تجهے یاد کیا ہے میں نے

اور جب اب کے میری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گهٹا چهائی ہے
تم دہکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے

میرے محبوب یہ ہنگامہء تجدید وفا …..
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں
میں نے جو پهول چنے تهے ترے قدموں کے لیے
ان کا دهندلا سا تصور بهی میرے پاس نہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*