ثانیہ لاہور کے ایک متوسط رہائشی علاقے میں مقیم تھی۔ دو کمروں پہ مشتمل اُن کا فلیٹ دور سے Doll House سے مشابہ دکھائی دیتا تھا۔ قریب آنے پر یہ گھر Thrill max میں بدل جاتا ہے۔ پانی والی موٹر اور ایئر کولر کا مسلسل چلنا، کچن میں پانی کے بہاؤ کی مسلسل آواز،بچوں کا گھر کی اشیاء کو کھینچنے کی کھڑ کھڑاہٹ۔۔۔گویا شوروغل کی ہر طرح کی نسل ان کے ہاں پائی جاتی ہیں۔ دو عدد شرارتی بچے اُن کے گھر کی رُونق تھے میاں صاحب کا مزاج شرارت، شرافت اور دیانت جیسی خوبیوں کا حامل تھا۔ ماں۔ ثانیہ بھی سادہ مزاج اور خوش گفتار تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام سے محروم (درحقیقت محفوظ) یہ فیملی چار افراد پر مشتمل تھی۔ علی اور منزہ میں دو سال کا فرق بظاہر ختم ہوچکا تھا۔ مشترکہ سرگرمیوں میں دونوں بچے یکساں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ گھر میں اُودھم مچانے سے لیکر گھر کی دیواروں کو لرزا دینے والی شرارتوں میں وہ ”ایک اور ایک“ گیارہ کا نقشہ پیش کرتے۔ روز گار کے عدم استحکام،ضروریات زندگی کا ناگزیر ہونا اور اشیاء کا قوت خرید سے بلند تر ہوتے ہی چلے جانا۔ اس صورتحال میں گھر کا ماحول بدلتا جارہا تھا۔ ماں ثانیہ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کی تصویر پیش کرتی۔ پہلے وہ گھر جو خوشیوں اور شرارتوں سے سجا رہتا تھا۔ دھیرے دھیرے طنزو تنقید ”تو تو‘میں میں“ کی تکرار سے گھر کی فضا آلودہ ہوچکی تھی۔ بجلی کے بل کی ادائیگی کا مرحلہ تو کبھی مہمان نوازی کے نتیجے میں ہونے والے غیر متوقع اضافی خرچے سے معاملہ شدت اختیار کرگیا۔
کچھ مہینوں کے مستقل تناؤ کے بعد نتیجہ سنگین لڑائی کی صورت میں نکلا۔ ثانیہ بیگم اپنے بچوں کے ہمراہ والدین کے گھر پناہ گزیں ہوگئیں۔ دوسری طرف محترم شوہر شاہد صاحب آفس سے گھر آتے تو گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ صاف ستھرا گھر اُجڑے بکھرے مکان میں تبدیل ہوچکا تھا۔ کچن سے تازہ کھانے کی مہک اور نہ ہی گرم گرم چائے کی عیاشی…… نہ ہی سارے دن کی تھکاوٹ اور غصہ اُتارنے کیلئے بیوی دستیاب تھی۔ گھر کی ویرانی منہ چڑاتی۔ دل بچوں کے ہنسی مذاق کی دلکش آوازیں سننے کیلئے بے تاب تھا۔ ٹی وی پروگرامز میں بھی دل نہ لگتا…… اور نہ ہی F.B کی ”گل کاریوں“ سے، حالانکہ بیوی بچوں کی موجودگی میں یہ سارے کام خشوع و خضوع سے جاری رہتے تھے۔
ثانیہ صاحبہ کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم پڑا کہ محترمہ کا رونے دھونے کا وظیفہ بھی جاری ہے۔ اس وظیفے کی ادائیگی، سکون و اطمینان کے ساتھ تینوں وقت کے کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہے۔ گھر والے بھی مفاہمت کی بات کرنے سے گریزاں رہے کہ کہیں ثانیہ صاحبہ کو ان کے میکے گھر ”قیام“ کو ”گراں“ بار نہ سمجھا جائے۔
اچانک شاہد صاحب کے دوست ارسلان صاحب کا اُن کے گھر آنا ہوا۔ سرجھاڑ، منہ پھاڑ عورتوں کی طرح اپنی بیگم کا ڈوپٹہ سر پہ لپیٹے۔ چادر میں چھپے چارپائی پر دراز ہیں۔ کچن میں گندے برتنوں کا انبار اور نیم تاریک کمرے بھوت بنگلے کا نقشہ پیش کررہے ہیں۔ ارسلان صاحب کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ آپ کی بھابھی ناراض ہوکر میکے ”بھاگ“ گئی ہیں ……”بھاگ گئی۔ جی جی میکے بھاگ گئی ہیں“ اب میں ساری زندگی ایسے ہی گزارہ کروں گا…… جو اللہ کی مرضی…… ٹپ ٹپ کرتے آنسو زاروقطار آہ و ذاری میں بدل گئے۔ ارسلان صاحب اپنے دوست کی بہادری پہ عش عش کر اُٹھے۔ لیکن اٹل فیصلے پر حیران کہ ”میں اب ثانیہ سے کوئی رابطہ نہیں رکھوں گا“ ارسلان صاحب اپنے بہادر دوست کو روتا چھوڑ کر واپس آگئے۔
گھر واپسی پرثانیہ بھابھی کو فون ملایا۔خیرو عافیت پوچھنے کی دیر تھی کہ بھابھی کی سسکیاں آہستہ آہستہ باآواز بلند رونے دھونے میں بدل گئیں۔ ذرا توقف فرمایا …… اور ببانگ دہل اعلان جاری کیا ”میں اب ساری زندگی گھر واپس نہیں جاؤں گی۔ میری قسمت میں ٹھوکریں لکھی ہیں …… ارسلان صاحب کا ماتھا ٹھنکا…… اگلی صبح ترو تازہ ہوکر اُٹھے۔ شاہد صاحب کو فون ملایا۔ شاہد بھائی رات میری ثانیہ بھابھی سے فون پر بات ہوئی تھی …… جی جی…… دوسری طرف ہچکیاں شروع ہوگئیں …… نہیں ارسلان میں آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گا…… آپ کی آواز…… کٹ کٹ …… کر آرہی ہے۔ دوبارہ بتائیے گا۔ جی…… میں بالکل ٹھیک ہوں …… آپ میری فکر نہ کریں۔ ویسے آپ کیا کہہ رہے تھے۔ جی! شاہد بھائی آپ حوصلہ کریں …… بھابھی آپ کے لیے بہت اُداس ہیں …… وہ اپنے گھر کو بہت یاد کررہی تھیں …… بس وہ آپ کی منتظر ہیں۔ کل شام ہم دونوں اُن کو لینے جارہے ہیں۔ شاہد بھائی کی آواز آئی…… ایک تم ہی تو میرے واحد سچے اور پکے دوست ہو۔ بے شک تم عمر میں چھوٹے ہو۔ مگر ہمیشہ سے میرے دل میں تمہارے لیے بڑوں جیسا احترام رہا ہے…… میں تمہارا حکم کیسے ٹال سکتا ہوں۔ میرا تو ثانیہ کو واپس لانے کا ارادہ نہ تھا۔ بس تمہارا ہی پیار میری مجبوری ہے۔ جیسے ہی فون بند ہوا۔ ثانیہ بھابھی سے رابطہ کیا۔ انہیں مطلع کیا گیا۔ ”شاہد صاحب آپ سے اور بچوں کے لیے بہت اُداس ہیں کل شام ہم دونوں آپ کے ہاں آئیں گے۔ تیاری کیجئے…… جی جی کی مخصوص روہانسی آواز میں بھابھی نے جواب میں قطعاً اس گھر واپس نہ جاتی لیکن ارسلان بھائی آپ میرے لیے سگے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میں آپ کا حکم ٹالنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ نہ آئندہ ایسے کرنے کی جرات کروں گی۔ آپ کی یہ خواہش ہے تو میرا احترام کرنا واجب ہے۔
اگلی شام آفس سے واپسی پر طے شدہ پروگرام کے مطابق بھابھی کے میکے پہنچ گئے۔ ثانیہ بھابھی اور بچوں کی لش پش تیاری عروج پر تھی۔ قریب ہی رکھے تین عدد سامان سے لبریز بیگ ہمارا منہ چڑا رہے تھے۔ سامان کی کثرت سے میں رضاکارانہ طور پر قربان ہونے کیلئے ”مطلوب“ تھا۔ گھر والوں نے بھی شکرانے کے طور پر پُر تکلف چائے کا اہتمام کیا تھا۔ الوداعی ملاقات کے بعد سڑک پر رکھے سامان اور سواریوں کی سیٹنگ سے ابھی بمشکل فراغت ہی ہوئی تھی اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کرکے رفتار بھی نہ پکڑی تھی کہ کیا دیکھتا ہوں۔ شاہد بھائی ثانیہ بھابھی بچوں سمیت میری نظروں سے اُوجھل ہوچکے تھے…… جیسے ہم الگ الگ مسافر ہوں …… تیز رفتاری سے بمشکل ان کے قریب ہونے کا موقعہ ملا۔ ٹریفک کے شور کے بیچ میں میرے کانوں میں شاہد صاحب کی آواز پڑی…… میرے پیارے دوست…… ہمارے بیگ کل ہمارے گھر دے دینا۔ ”ارسلان دیکھ لو۔ یاد رکھنا میں نے تمہارا کہنا مان لیا۔ واپسی پہ ”مووی“ دیکھتے ہوئے ہمیں بہت دیر ہوجائے گی…… میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اُن کا موٹر سائیکل میری نظروں سے اُوجھل ہوگیا……
ماہنامہ سنگت کوئٹہ