سوری یار!
تمہاری ای میل کا reply کرنے میں دیر ہوگئی
دراصل وقت ہی نہیں ملا
وقت اب بازار میں بھی تو ناپید ہے
بلیک پر پوچھو تو بھی میسر نہیں
آج تھوڑا سا بچا کھچا وقت ہاتھ آ گیا،
تمہیں reply کرنا بھی یاد آ گیا
یار!
اتنی طویل فہرست لکھی ہے تم نے مسائل کی!
پڑھتے پڑھتے بوریت ہونے لگی
وہی گھسے پٹے مسائل!
جیسے زمانہِ قدیم کی بوسیدہ اوراق والی کتاب!
جس کا نہ اب کوئی ہم مذہب ہے اور نہ ہم خیال!
پورے دس ہزار حروف لکھے ہیں تم نے!
اس زمانے میں بھلا کون پڑھتا ہے دس ہزار حروف کی داستانِ غم!
مختصر مختصر لکھنا تھا یار!
بس اتنا سا ہی تو کہنا تھا تم نے کہ تنہائی غصب کرچکی ہے تمہارے گھر کو!
کمرے سارے خالی پڑے ہیں
جن کے لیے بنائے تھے وہ ہجرت کر گئے ہیں
وڈیو کال، زنداں کی کال کوٹھڑی کی طرح کیوں ہے!
کہ زرا سا بھی ایک دوسرے کو چھوُ نہیں سکتے!
اک سرسراہٹ جتنا بھی ایک دوسرے کو چوم نہیں سکتے!
ارے یار!
زرا خود سے جینا سیکھو
زندگی ایک ہی پہیے کی ہاتھ گاڑی ہے
انسان اس کے سائز سے بہت ہی لاغر ہے
مگر اپنا ٹھیلا خود ہی دھکیلنا ہے اسے
وہ دو پہیے والی کہانی کسی کی پھیلائی ہوئی افواہ تھی
اور کچھ بھی نہیں
ٹھوکروں سے ہی سہی،
تم بھی زرا زرا سا زندگی کو دھکیلا کرو آگے کی طرف
چند ٹھوکروں کا ہی تو ہے یہ سفر!
ایک خالی کمرے سے دوسرا خالی کمرہ
دوسرے سے تیسرا خالی کمرہ!
پھر وہی کمرہ، پھر وہی کمرہ، پھر وہی کمرہ!
اور بس!
اور ایک تم ہی نہیں ہو، جسے اب کسی کے مرنے پر دکھ نہیں ہوتا
کیوں تمہیں نہیں معلوم کہ دکھ خود بھی مر چکا ہے کب کا!
اب فقط دکھ سُکھ کے ڈاؤنلوڈڈ علامتی نشان ہیں باقی
سب ہی ان سے کام چلا لیتے ہیں
رو بھی لیتے ہیں، ہنس بھی لیتے ہیں
اور ہاں، زمانے سے کیسا شکوہ یار!
زمانہ تو خود جیسے پاگل کتے کا کاٹا ہوا پاگل ہوچکا ہے
اب تو ننگ دھڑنگ، زبان نکالے، منہ سے جھاگ اڑاتا پھرتا ہے
اس پاگل کو تم بھی ایک پتھر مار دیا کرو
ماں بہن پر ایک عدد ننگی گالی دے دیا کرو
دل پر ٹھنڈ ڈال لیا کرو
گالی ہی اب آخری ہتھیار ہے گویا
آخری ہتھیار ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرو
رہی محبت!
تو اس کی کمی کا کیسا رونا یار!
محبت کا کفن اوڑھ کر ہی تو دکھ جا سویا ہے اُس قبرستان میں
جہاں قبریں اب صرف نمبروں سے پہچانی جاتی ہیں
کون اب قبروں پر نام لکھتا ہے یار!
تم اور میں، کس نمبر میں دفن ہیں، کون اس کی خبر رکھتا ہے یار!
دنیا ایکسپائر ہو چکی ہے
تم اور میں ایکسپائرڈ دنیا میں ایکسپائرڈ زندگی جی رہے ہیں یار!