انسان کا بچہ پالنا کھیل نہیں!

 

‎وہ نوعمر لڑکی ہمارے سامنے بیٹھتے ہی بھبھک بھبھک کے رو دی،

‎“ڈاکٹر مجھے بتائیے، مجھے ابھی تک حمل کیوں نہیں ہو رہا؟”

‎حیرت کے مارے ہم کرسی سے اچھل پڑے۔ سر سے پاؤں تک اسے دیکھنے کے بعد اس سے پوچھا،

‎“بیٹا عمر کتنی ہے تمہاری؟

‎“جی بیس برس” وہ قدرے شرما کے بولی،

‎“اور شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا؟” ہم نے پوچھا

‎“چار ماہ “ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔

‎دل چاہا کہ اپنے بال نوچ لیں لیکن دل پہ قابو پا کے پوچھا،

‎“بیٹا آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے؟”

‎“وہ اصل میں میری نند کی شادی میرے ساتھ ہی ہوئی تھی نا اور وہ پہلے ماہ ہی حاملہ ہو گئی اور مجھے پانچواں ماہ جا رہا ہے اور کچھ ہو ہی نہیں رہا” وہ منہ بسورتے ہوئے بولی،

‎“تو کیا آپ دونوں میں کوئی مقابلہ ہے کہ کون اول آئے گا بچہ حاصل کرنے کی ٹرافی میں؟” ہم قدرے جل کے بولے

‎“جی دیکھیے نا، ہر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ نیلم کو تو حمل ہو گیا۔ تمہیں بھی ہوا کہ نہیں؟”

‎“کون پوچھتا ہے؟”

‎“جی وہ میری ساس، نندیں اور باقی رشتے دار”

‎“ یہ سوال کیا صرف آپ سے کیا جاتا ہے یا دولہا میاں سے بھی؟” ہم نے قدرے تلخ ہو کے کہا۔

‎“نہیں ان سے تو کوئی نہیں پوچھتا”

‎وہ آہستہ سے بولی،

‎“پوچھنا تو چاہیے نا کہ میاں تمہاری صحت تو ٹھیک ہے؟ تم نے دلہن کو ابھی تک حاملہ کیوں نہیں کیا؟ تمہاری بہن کو اس کے شوہر نے تو پہلے ہی مہینے میں یہ میڈل پہنا دیا”

‎یہ سن کر وہیں موجود دولہا میاں اپنی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے پہلو بدل کر ہماری طرف گھورنے لگے، ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ڈاکٹر ہے یا کوئی خبطی بڑھیا؟

‎ہم نے اپنے سوال جاری رکھے،
‎“بیٹا کیا آپ کو بچہ پالنا اور اس کی ذمہ داری اٹھانی آتی ہے؟”

‎یہ پوچھتے ہوئے ہمارے تصور میں ہماری بیس سالہ صاحبزادی کی شکل گھوم گئی جو ابھی تک کدکڑے لگاتی پھرتی ہے اور اماں کی گود میں سر چھپا کے لیٹنا اسے بے حد بھاتا ہے۔
‎اف کیسا لگے، اگر اس بچی کی جگہ شہربانو ہو تو؟

‎“جی مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں، میں بہت پیار کرتی ہوں ان سے” لڑکی نے فورا جواب دیا۔

‎“بیٹا کیا دنیا میں آنے والے نوزائیدہ کی ضرورت محض یہی ہے کہ اسے ماں گڑیا گڈے کی طرح اٹھائے، چومے چاٹے اور اس کے منہ میں دودھ کی بوتل دے دے”

‎ہماری نظر کے سامنے وہ بے شمار نوعمر بچیاں آ گئیں جو شیر خوار جھولی میں ڈالے بے حال نظر آتی ہیں اور parenting کی الف بے کا بھی علم نہیں ہوتا۔ ابھی تو خود بچپنے کی حدود سے نکلی نہیں ہوتیں کہ ماہواری اور رحم کی پڑتال شروع ہو جاتی ہے۔

‎ماہواری اور رحم کے علاوہ وہ عورت ایک وجود رکھتی ہے جس کا کائنات کی ہر خوشی پہ کسی بھی دوسرے انسان جیسا حق ہے، یہ نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ ہی سوچنا چاہتا ہے۔ مرد کے بنائے ہوئے تانے بانے کا فائدہ اسی میں ہے کہ سر اٹھانے سے پہلے ہی بیڑیاں ڈال دی جائیں۔

‎ہم نے سہج سے بچی اور شوہر کو سمجھایا، کہ شادی کے بعد کچھ باتیں آپس میں بیٹھ کر طے کر لینی چاہییں۔ اگر پہلے سے ملنا جلنا ہو تو تب اور بھی بہتر ہے۔

‎کیا ہمیں شادی کے فوراََ بعد بچہ چاہیے؟
‎یا شادی کے بعد کچھ عرصہ ذہنی مطابقت کے لئے مختص کیا جائے؟

‎المیہ یہ ہے کہ جس وقت دولہا دولہن ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے زندگی کے سفر کا آغاز کر رہے ہوتے ہیں، اسی وقت دلہن بیگم قے کر کر نڈھال ہو چکی ہوتی ہیں، دولہا میاں فارمیسی اور ہسپتال کے چکر کاٹ کے بے حال ہوتے ہیں اور ارد گرد والے اعتراضات کا جال پھینک رہے ہوتے ہیں۔ سوچیے اس بنیاد پہ جو کچھ بھی تعمیر ہو گا وہ کیسا ہو گا؟

‎اگلا سوال یہ ہے کہ اگر فورا بچے نہیں چاہیئں تو منصوبہ بندی کے لئے کیا استعمال ہو گا اور کتنے عرصے کے لئے؟

‎یہ طے کر لینا بھی مناسب ہے کہ سماجی دباؤ کا مقابلہ اور ہر قسم کے سوالات کا کیا جواب دیا جائے گا؟

‎سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب بھی ماں باپ بننے کی ہڑک اٹھے، اس سے پہلے ہونے والے بچے کی احتیاجات کو مل کر سمجھا جائے۔ کون کیا ذمہ داری نبھائے گا، طے کیا جائے۔ اچھے ماں باپ کیسے بنا جاتا ہے، سیکھا جائے۔ ہمارے ماں باپ نے ہمیں ایسے ہی پالا تھا، سے بات نہیں بنتی۔ ضروری نہیں کہ جو غلطیاں آپ کے والدین نے کی ہوں، انہیں دہرایا جائے۔ آخر ایک اور انسان کی زندگی کو اس الاؤ میں دھکیلنے کا فائدہ؟

‎بچوں کی تعداد بھی باہمی مشاورت سے طے کر لی جائے، جو لڑکی یا لڑکے کی طلب سے مشروط نہ ہو۔ دنیا جنسی تفریق کی بالادستی کو ختم کرنے کی طرف قدم بڑھا چکی ہے۔ اولاد کی ذہنی اور جسمانی صحت کی چاہ رکھنا سات یا آٹھ بچے پیدا کرنے سے کہیں بہتر ہے۔

‎آخری بات یہ کہ اگر کسی بھی جوڑے کے ہاں ایک برس تک ساتھ رہنے اور نارمل ازدواجی تعلقات رکھنے کے بعد بھی آنگن میں پھول کھلنے کے آثار پیدا نہ ہوں تو تب ہی ڈاکٹر کے پاس مشورے کے لئے جائیے۔ اس سے پہلے اپنی جیب ڈھیلی کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔

‎والدین بننا دنیا کا خوبصورت ترین کام ہے لیکن اس عہدے پہ آپ کو فائز کرنے والوں کے حقوق جاننا اور ادا کرنے کی کوشش کرنا تمام والدین کی ذمہ داری ہے!

‎بچہ پالنا ہے بھئی، انسان کا بچہ! یہ کوئی گڑیا گڈے کا کھیل نہیں!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*