تانبے کی عورت

 

ہتھوڑے کے ہاتھوں میں سونے

کے کنگن

جچے کیوں نہیں
اور تانبے کی عورت
تپی— تمتمائی— مگر

مسکرائی— جمی ہی رہی
کیوں پگ

ھل نہ سکی
پاؤں جلتے رہے— وہ کڑی

دھوپ میں بھی کھڑی ہی رہی
اس کے آنے تلک
لوٹ جانے تلک
نہیں اس کو سچ مچ کسی بات

کی بھی
کوئی سدھ نہیں

(بشکریہ شاہد مرشد)

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*