ہتھوڑے کے ہاتھوں میں سونے
کے کنگن
جچے کیوں نہیں
اور تانبے کی عورت
تپی— تمتمائی— مگر
مسکرائی— جمی ہی رہی
کیوں پگ
پاؤں جلتے رہے— وہ کڑی
دھوپ میں بھی کھڑی ہی رہی
اس کے آنے تلک
لوٹ جانے تلک
نہیں اس کو سچ مچ کسی بات
کی بھی
کوئی سدھ نہیں
(بشکریہ شاہد مرشد)