کالی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بہتے سارے آنسو کالے
اور تمہاری کھنکتی ہنسی بھی کالی
کُن ہاتھوں کا سہارا لوں
کہ لبوں پہ لالی پر کالی کے سارے ہاتھ ہی کالے ہیں
انتظار کی سُلگتی لکڑیاں کہہ رہی ہیں
آن لائن مُحبت اور کالے بستروں پہ لیٹنے سے
تھکن کبھی نہیں اُترتی ہے
کالی راتوں کے کالے راہی جگتے میں سوتے ہیں
سولی پہ لٹکے رہتے ہیں
کہ وعدے کا ہر رنگ ہے کالا
میرا سچ بھی کالا تمہارا جھوٹ بھی کالا
سوگ میں ڈوبے باغ کا ہر گُلاب ہے کالا
کپڑے کالے، اُوپر گرتی سب دیواریں کالی
اور ان پہ لکھے سارے حرف
اور ان حرفوں سے بننے والے سارے لفظ
ان لفظوں سے جو معنی بھی اخذ کروں وہ سارے معنی کالے ہیں
کینوس پہ کھنچی ساری لکیریں
میرے ماتھے کی شکنوں سے بڑھ کر کالی ہیں
اور ان شکنوں میں چُھپے ہوئے سارے نقوش بھی کالے
میں نے گھبراہٹ میں ہر کھڑکی اور ہر دروازہ بند کیا
آنکھیں بند کیں
پر وہ تیسری آنکھ، اُس کو کیسے بند کروں
کوئی ہے جو اُس کو بند کردے؟
اُس آنکھ سے جو بھی نظر آئے وہ سارا منظر کالا
بڑے قدوں کے چھوٹے بونے
اُجلے چہروں کے پیچھے سارے چہرے کالے
کالی سوچ کے سب پرچارک
کاندھوں پہ رکھے بھاری بھرکم خیال بھی کالے
بدن میں ہلکورے لینے والے وہ خواب جو زندہ رکھتے تھے
اُن میں بھی سیاہی اُتر گئی ہے
جو وقت پہ نہ اُٹھے تو میری آواز
اور مصلحتاً چُپ رہنے والی تمہاری چُپ بھی کالی
کالی آندھی کہاں اُڑا کر لے جائے گی
کہ ہر بستی اور ہر جنگل تو کالا ہے
کالی لہروں سے اٹا پڑا سارا سمندر کالا ہے
رگوں میں بہنے والا سارا سیال بھی کالا
میرے سینے میں بھونکنے والا
وہ کُتا بھی کالا ہے
سگریٹوں کے کالے دھویں سے سارا اندر کالا ہے
میں مہا کالی اور تُم بھی کالے
اِک دِل ہی بس کالا نہ ہوا باقی تو ہر شہہ کالی ہے
خوابوں میں اتنی سیاہی گُھل گئی ہے
کہ
اتنی کالک میں جینے کو اب جی نہیں چاہتا ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*