جام درک

یہ مسئلہ تو رہے گا کہ اُس نے اپنی شاعری میں یہ نہیں بتایا کہ ”جام “ اُس کا نام ہے یا خصوصیت ۔ مست تﺅکلی نے البتہ اپنے بارے میں یہ واضح کیا تھا کہ ” مست “ اُس کی خصوصیت ہے ۔ اس نے کہیں کہیں تﺅکلی کے ساتھ لفظ ” مستیں “ لکھ کر ہمارا مسئلہ حل کر دیا تھا ۔ جبکہ جام دُرک نے ”جامیں“ درک کہیں نہیں کہا ہے ۔ لہٰذا یہ معمہ شاید ابد تک رہے کہ وہ اصل میں جام تھا یا دُرک تھا ۔البتہ اس کی شاعری سے یہ بات تواخذ کی جاسکتی ہے کہ اس کے والد کا نام کرمو ہو گا ۔
گو کہ اُس کی شاعری ہمارے کلاسیکل دور سے ذرا بعد کی ہے۔ مگر اس کا ذائقہ کہیں نہ کہیں اُس کلاسیک سے ضرور ملتا ہے ۔جام فیوڈل اور بعد از فیوڈل عہد کے دوسرے بڑے بلوچی شاعروں کی طرح اپنا نام شاعری میں ضرور استعمال کرتا ہے ۔ وہیں سے اُس کا نام، اُس کے والد کا نام اور اس کے قبیلے کا نام معلوم ہوتا ہے ۔ ہم واللہ اعلم بالصواب پہلے کہہ دیتے ہیں اوراس کے بعد محترم ملک محمد رمضان کی تحقیق یہاں نقل کرتے ہیں جس نے سردار ڈومبکی (جسے تاریخی طور پر بلوچوں کے شجرہِ نسب کا ریکارڈ ہولڈر سمجھا جاتا ہے ) کے تاریخی شجرہ نسب کے حوالے سے جام درک کا شجرہ یوں لکھا ہے :جام بن درک بن کرم خان بن ہوت خان بن سردار میر محمد خان دوئم بن سردار میر میرو خان اول بن سردار محمد خان اول بن سردار میر حسن خان بن سردار امیر اسحاق خان بن سردار میر شہداد خان بن سردار عبداللہ خان بن سردار رند خان بن سردار میر جلال خان۔ملک رمضان مرحوم کا لکھنا ہے کہ اس نے یہ شجرہ سردار میر چاکر خان ڈومبکی کے تاریخی دفتر سے یہ نقل کیا ہے ۔(1)۔
ممکن ہے کہ وہ عوام الناس کی خان کلات کے دربار تک بلا روک ٹوک رسائی والا معاشرہ تھا۔ یاپھر یہ جام کی تکریم تھی کہ اس کا وہاں آنا جانا تھا۔جام‘ شہر یا اسی دربار میں کہیں دل دے بیٹھا تھا۔ اسی شہری مرکز والی تہذیب کے زیرِ اثر جام نے اپنے سے قبل والی شاعری کے برعکس اپنی محبوبہ کا نام کہیں نہیں لیا ۔ یہ حجاب در اصل فیوڈل زمانے کا ہوتا ہے ۔منحوس و بے وجہ حجاب۔ دوسری زبانوں کے فیوڈل عہد کی شاعری میں تو اس قدر حجاب داری ملتی ہے کہ اندازہ نہیں ہوتا کہ شاعر مردانہ محبوب سے مخاطب ہے یا اُس کی محبوبہ عورت ہے ؟۔ بلوچی کے کلاسیکل (ما قبل جاگیرداری) عہد کی شاعری میں محبوبہ کے سینے تک کے تذکرے موجود ملیں گے ۔ مگر جام کے فیوڈل عہد میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتیں توبتہ النصوح کا درجہ رکھتی تھیں ۔
جام کی شاعری بلا شبہ بہت رنگین، رواں، امیر اور لذیذ ہے۔ اُس زمانے کے لحاظ سے یہ جدید صنف یعنی غزل نما صنف کی شاعری ہے ۔ اور بڑی لین دین والی غزل ہے ۔ جام درک بلا جھجک پڑوس سے الفاظ لیتا رہا۔
بلوچ اپنے اس شاعر کا ذکر کر تے ہیں۔بھلا اُس جام کا ثانی ، اُس کی نظیر اور اُس کا بدل کیا ہوگا جس کا مست تﺅکلی نے بہت ناز سے ذکر کیا تھا:
شاعری تہ جام
باقی کُل ناکام
بلوچ کے ہاں شاعری ہر عام آدمی نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے خدائی مدد چاہیے ہوتی ہے ۔ اس لیے بلوچ ،جام دُرک کو بھی ایک ولی قرار دیتے ہیں ۔ایک لحاظ سے تو بات یہی سچ ہے ۔ مگر ایک سچ اور بھی ہے ۔ وہ یہ کہ بلوچ ہر شاعر کو ولی سمجھتے ہیں۔ اُسے کوئی ماورائے انسان ہستی گردانتے ہیں !!۔
اور پھر جام دُرک کی توایسی اچھی شاعری ہے کہ بلوچی کے پڑوسی زبانوں میںبھی شاید ہی ہو۔
مگر،نصیر خان نوری کے عہد کا یہ بڑا سخن ور ،درباری شاعر نہ تھا۔ خود بلوچ دربار بھی شاید ادارتی طور پر اس قدر زیادہ منظم نہ تھا۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ دربار کی توصیف و ثناءنہیں کرتا تھا تو خانیت کے خلاف بھی بات نہیں کرتا تھا،غربت و استحصال کے خلاف بھی نہیں بولتا تھا ۔ مگراچھا اس لئے تھا کہ اس نے شاہ کی تعریف نہ کی ۔ بقیہ تخلیق تو ہے ہی عوام کی ملکیت کہ بلوچ ثقافت کی ہر اچھی چیز عوام کی ہوتی ہے ۔ اور جام کی موسیقی بھری عشقیہ شاعری تو عوام الناس کے دلوں کی آواز ہے ۔عالمگیر صداقتوںکا اس کا مشاہدہ و اعتراف اُسے بڑا بناتے ہیں، جمالیات اُسے بلند کرتی ہے، تغزل اُسے دلوں میں بساتا ہے۔
ایک اور امتیازی بات یہ ہے کہ جام کی ساری دستیاب شاعری عشقیہ رہی۔ ایک آگ ہے جو اس کے من میں روشن ہے، ایک الا¶ ہے جس کا اسے سامنا ہے۔اس عشق میں وہ شعور پاتا ہے ، کندن بن جاتا ہے ۔ ساری انسانیت اُس کے ساتھ ہوجاتی ہے اس لئے کہ انسان بنیادی طور پر مہر و محبت کی تخلیق و مخلوق ہے۔
جام درک کوئی بہت سخت بلوچی نہیں بولتا ۔وہ عام بلوچی میں عام فہم شاعری کرتا تھا۔ ہر جوان دل اور سن رسیدہ ذہن کی پہنچ کی شاعری۔ بہت رنگین، یاقوت و لعل جڑی شاعری:
گالوں گوئشتغاں
درّوں سپتغاں
لعل اوں رپتغاں
ترجمہ:
میں نے شعر کہے ہیں
میں نے موتی پروئے ہیں
میں نے لعل جڑے ہیں

پتہ نہیں انسان کو تقابلی مطالعوں کا بہت شوق کیوں ہے میں جام کا کسی اور شاعر سے مقابلہ اور دنگل قطعاً نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ ہردانشور کا عہد، جغرافیائی آس پاس اور حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ تقابل برا کام ہے ۔ چنانچہ بس آپ جام کا اوپر دیا گیا شعر ، اور حافظ کا یہ شعر ضرور دیکھیے، آپ کو دانش کے افق convergeہونے کی بات سمجھ آئے گی۔

غزل گفتی و دُرسفتی بیا او خوش بخواں حافظ
کہ برنظمِ تو افشاند فلک عقدِ ثریارا

سولہویں صدی کی زبردست اور ضخیم کلاسیکی شاعری کے بعد اٹھاویں صدی میں ابھرنے والا ہمارا یہ شاعر کمال کا نکلا۔ اور کمال یہ کہ ڈھائی تین صدیوں سے جام بلوچی کا سب سے مقبول شاعر چلا آرہا ہے۔ اس کی مقبولیت کے گراف میں کبھی جھول نہ آئی۔ وہ جسے کہتے ہیں ناں کہ ہر عمر اور ہر عہد میں مقبول ۔ جام درک ایسا ہی مقبول شاعر ہے ۔بالخصوص مشرقی بلوچستان میں تو جام درک بہت ہی مقبول و محترم شاعر تصور ہوتا ہے۔ گو کہ اُس کا بہت کم کلام دستیاب ہے ۔
یہ احسان بھی انگریز سامراج کا ہے کہ جام درک کا کلام کچھ نہ کچھ محفوظ رہا۔ یہ عجب ہے کہ درندوں ، قزاقوں اور مہذب شہر جلانے والے انگریزوں میں سے ایک شخص بلوچوں کا محسن نکلے ۔ اس شخص کا نام لانگ ورتھ ڈیمز تھا۔ وہ ہمارے مشرقی بلوچستان میں ڈیرہ غازیخان کے مقام پر پولیٹیکل ایجنٹ تھا۔ دراصل،مشرقی بلوچستان کی پولیٹیکل ایجنٹی کرتے ہوئے ہی لانگ ورتھ ڈیمز کا جام کی شاعری سے تعارف ہوا تھا۔ اور اس نے 1907کو اُس کی شاعری کوبلوچوں کی عوامی شاعری کے مجموعے Popular Poetry of the Baloches نامی کتاب میں Durrak’s Love Songs کے عنوان سے شائع کر دیا ۔ اس نے جام کے پانچ شئیر دیئے ہیں ۔
1963 میں بشیر بلوچ نے ”دُرچین“ کے نام سے جام کی شاعری چھاپی۔ اُس نے یہ پانچ بڑھا کر 28 شیئر کردیئے جن میں ڈیمز والے بھی شامل ہیں ۔ جام کی ساری شاعری تاریخ کی دھند میں لپٹی ہے ۔ پتہ نہیں اُس کی کتنی شاعری گم ہے اورنہ یہ معلوم ہے کہ اس کتاب درچین میں دی ہوئی شاعری میں اور کس کس کی شاعری ڈال دی گئی ہے ۔
جیسے کو ذکر ہوا، جام کے جاگیر داری دورمیں سماج بدل گیا تھا۔ہمسایہ زبان فارسی نے بلوچی زبان اور شاعری پر بھی اثر ڈالا۔لہٰذا اِس زبان کے الفاظ و تراکیب اس کی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔البتہ، وہ الفاظ غیر یاخارجی نہیں لگتے۔ جام کا کمال یہ ہے کہ اس نے خیال، طرز اور الفاظ کو کمال مہارت اور ہنر مندی سے بلوچیایا ہے۔
صُحواں یاد کناں ستارا
روزی رازقیں ڈاتارا
گوش داریں حدیثاں یاراں
جامہ گوئشتغیں گفتاراں
لوڑی زیر منی قطارا
گوں دئی گوں ژلوخیں تارا
بر گوئر حاکما سڑدارا
ماروشے رپتغاں پئے کارا
ما گنجیں ڈھاڈرہ دربارا
ما شخصے دیثہ مں بازارا
کُڑتی اے سری گوں شارا
جنت شانہ و زُنہارا
پیچہ داث اوو گیوارا
رَک اے رتکغاں گلنارا
شم کنتی مساگ دارا
پونزے دراژہ چو کاٹارا
ماباغاں دیثغاں سے طوطی
ہر سئے امسرو اژ موتی
گُل ماں صاحوی باغاناں
سلطانئے سر و پاغاناں
گوئشتوں کہ امُلہ گنداں
میری مجلساں ننداں
سوالی محفلانی بنداں
نِیں کہ بیثغوں رُوپہ رُو
دیثوں کثرت و دوستئے خوب
غم کشیں دلا بوذآتکہ
گلاّں تازغی پُل بیثہ
ہر شاخا وثی رنگ بیثہ
دوست اژ مئیں دلا سئی بیثہ
دیم گوں آرضاں بشکاثہ
زیبا جما لاداثہ
ترجمہ :
سحر گاہ میں خدائے ستار کو یاد کرتا ہوں
روزی رساں داتا کو
دوستو‘ میرا کلام میری حدیث سنو
جام کے کہے اشعار سنو
مطرب میری شاعری لے لو
خوش نوا تاروں کے ساتھ ہم آہنگ کرلو
حاکم اور سردار کے ہاں جا کر سنالو
ایک دن میں کسی کام کے لئے گیا
امیرِ ڈھاڈر کے دربار میں
میں نے بازار میں ایک حسینہ دیکھی
جو کُڑتی اور دوپٹہ پہنے ہوئے تھی
گیسو زنار کی طرح شانوں پر رکھے ہوئے تھے
مانگ کو پُر پیچ بنا رکھا تھا
اس گلنار نے ہونٹ سرخ کر رکھے تھے
اس نے دنداسہ لگایا ہوا تھا
اس کی ناک کٹار کی مانند تھی
میں نے باغ میں تین طوطیاں دیکھیں
تینوں ہم عمر اور دُرِ آبدار
یہ پھول حکام کے باغوں میں ہیں
سلطان کے سرودستار میں
میں نے کہا محبوب سے ملوں گا
اس کی میری مجلس میں بیٹھوں گا
محفل میں سوالی بن کر بیٹھوں گا
اب جب ہم رو بہ رو ہو گئے
اور اُس کی شان اور ادائیں دیکھیں
دلِ غم زدہ میں جان آگئی
گلوں کے درمیان تازہ پھول پیدا ہوئے
ہر شاخ جدا رنگ سے بہرہ ور ہوگئی
محبوبہ میرے دلِ زار کی حالت سے آگاہ ہوئی
اپنے گال اور عارض بخش دیئے
اور جمالِ دل افروز دکھلایا
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جام کی شاعری میں وارفتگی بہت ہے ۔ مگر وہ اپنی شاعری میں روتادھوتا نہیں ہے ۔ اس کی محبت ناکام شاکام نہیں ہوتی ۔ رونا دھونا اور پیٹنا اور ماتم کوئی نہیں ہے۔ اُس کی شاعری رواں اور موجیں مارتی ہے ۔ نرم نرم موجیں ہیں، ہلکورے ، نرمگیں ۔ جیسے جھیل کے پانی کو ہوا جھولا جھلا رہی ہو۔ جیسے رقص کرتی حسینہ کی زلف رخسار پہ میٹھی دستکیں دے رہی ہو۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*