خمار اُترے گا تو کھلے گا

 

ابھی تولہروں پہ

بہتے جاؤ

سلگتے رنگوں کے زاویوں سے

بھنور اُٹھاؤ

حیات کے دوسرے سرے سے

بس ایک لمبا سا کش لگاؤ

دھواں اُڑاؤ

ابھی تو گہرے سنہرے پانی میں

کھنکھناتی ہنسی ملاؤ

نشہ بڑھاؤ

دہکتے غنچوں پہ

سبز جھیلوں پہ نظم لکھو

ابھی بہاروں کے گیت گاؤ

خمار اُترے گا تو

بلا خیز ساعتوں کی خبر ملے گی

خزاں نصیبوں کے قافلوں سے

گلاب لمحے گزر گئے تو پتہ چلے گا

اُجاڑ صحرا ہے زندگی کا

سفر کڑا ہے

خمار اترے گا تو کھلے گا

الم زدہ،دلگداز لمحہ وہیں پڑا ہے

 

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*