فیض بہ حیثیت نقاد

فیض احمد فیض بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت یافتہ ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں اس کے فکر و فن اور شاعری و شخصیت پر بہت کچھ تحریر کیا گیا ہے ۔ لیکن بہ حیثیت نقاد اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ فیض کی شاعری جس مقبولیت کی اعلیٰ سطح تک پہنچی، اس سطح تک اس کی نثری تحریریں نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فیض نے اپنی ساری توجہ شاعری پر مرکوز کی اور نثر پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ اس لیے اس کی نثری تحریروں کا حجم اس کی شاعری کی نسبت بہت کم ہے۔ اور اس میں فیض وہ معیار بھی قائم نہیں کرسکا، جو اس کی شاعری کا معیار ہے۔ اس وجہ سے اس کی شاعری پر جس قدر لکھا گیا، اس قدر اس کی نثر خصوصاً اس کی تنقید پر نہیں لکھا گیا ہے۔
ہر چندیہ امر فطری بھی ہے کہ بہت کم شاعروں کی شاعری اور نثر میں بیک وقت اس قسم کا معیار پیدا ہوسکا ہے۔ بعض ادیبوں کی نثر تو اعلیٰ مقام تک پہنچی لیکن ان کی شاعری وہ مقام حاصل نہ کرسکی۔ مثال کے طور پر مولانا شبلی نعمانی کی نثر تو بہت ہی اعلیٰ پائے کی ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اس کی شاعری میں وہ بات نہیں ہے۔ لہٰذا وہ بحیثیت نثر نگار تو بہت ہی اعلیٰ درجے کا ادیب مشہور ہوا۔ مگر بحیثیت شاعر اس نہج تک نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح سجاد ظہیر کی اعلیٰ نثر کا معیار اس کی نثری نظموں کے مجموعے پگھلا نیلم میں کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے۔سجاد باقررضوی کا نام اردو ادب میں ایک نقاد کی حیثیت سے جا نا پہچانا جاتا ہے۔لیکن بہت ہی کم لوگ اس کی شاعری کے متعلق جانتے ہیں۔حالاں کہ اس کے دو شعری مجموعے تیشہِ لفظ اور جوئے معانی بھی منظرِ عام پر آئے اور اس کی شاعری (خصوصاً غزل)میر تقی میر اور یاس یگانہ چنگیزی کی رنگ میں ہے۔ مگر پھر بھی وہ شاعری میں وہ مقام حاصل نہیں کر پایا، جو اس نے اپنی نثر نگاری (خصوصاً تنقید) میں حاصل کیا۔
اسی طرح بہت سے شاعروں کی شاعری بہت عروج تک پہنچی۔ مگر ان کی نثر اتنی زیادہ معیاریثابت نہ ہوسکی۔ مثال کے طور پر عبد الحمید عدم، ناصر کاظمی اور ساغر صدیقی کی شاعری بہت بلندی تک پہنچی مگر وہ نثر نگار کے طور پر ادب میں اپنا کوئی مقام حاصل نہ کرسکے۔ بعض شاعر و ادیب اپنی نظم و نثر میں ایک جیسا اعلیٰ معیار قائم کرسکے، ان میں غالب، جوش، شورش کاشمیری، علی سردار جعفری، گل خان نصیر، شیخ ایاز، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری اور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔
فیض کی شاعری کا اعلیٰ معیار اس کی نثر میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی نثر عموماً قارئین اور خصوصاً ناقدین کی توجہ حاصل نہیں کرسکی ہے۔’ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی فیض کی تنقید پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی تحریر کرتا ہے:
’فیض اپنی اولیں حیثیت میں شاعر ہیں۔ ان کی تنقیدی حیثیت زیادہ مستحکم نہیں ہے۔“ (1)
جب کہ فیض کی تنقید نگاری کے متعلق ڈاکٹر شفیق اشرفی تحریر کرتا ہے:
”یوں تو فیض نے ایک شاعر کی حیثیت سے جو مرتبہ حاصل کیا، ایک نقاد کی حیثیت سے اس بلندی تک تو نہ پہنچ سکے لیکن یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی شاعری میں جس نظریہ پر زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہے، اپنے مضامین کے ذریعے بھی اس کی تبلیغ کرتے رہے۔“ (2)
فیض نہ صرف ایک عظیم شاعر ہے ۔بلکہ ایک ترقی پسند نقاد بھی ہے۔ اس کے تنقیدی نظریات اس کی کتابوں میزان، صلیبیں مرے دریچے کی اور مہ وسال آشنائی ، متاعِ لوح و قلم، اورحکایتِ خونچکاں نئے افق، اس کے اقبال سے متعلق مضامین کے علاوہ اس کے شعری مجموعوں کے دیباچوں میں جا بہ بجا پائے جاتے ہیں، جو اردو ترقی پسند تنقید کا اہم حصہ ہیں۔
ابتدا میںفیض احمد فیض نے اپنی شاعری کی طرح تاثریت پسند اور رومانویت پسند تنقید سے اچھا خاصہ اثر قبول کیا۔ اس لیے اس کی ابتدائی تنقید میں داخلیت کا عنصر خارجیت کے عنصر پر کہیں کہیں غالب آجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی دوستی صوفی تبسم کے ساتھ بہت گہری تھی اور وہ صوفی تبسم کی رومانویت پسند شاعری تنقیدسے بہت متاثر ہوا۔علاوہ ازیں وہ اختر شیرانی کی رومانوی شاعری سے بھی بہت متاثر تھا۔ اس لیے فیض نے ادب و فن کی جمالیاتی اقدار کو بہت اہمیت دی۔ اس سلسلے میں ادب میں تخلیقِ حسن کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں فیض مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کرتا ہے:
”حسن کی تخلیق جمالیاتی فعل ہی نہیں افادی فعل بھی ہے۔ چناں چہ ہر وہ چیز جس سے ہماری زندگی میں حسن یا لطافت یا رنگینی پیدا ہو۔ صرف حسن ہی نہیں مفید بھی ہے۔ اسی وجہ سے جملہ غنائیہ ادب (بلکہ تمام اچھا آرٹ) ہمارے لیے قابلِ قدر ہے۔ یہ افادیت محض ایسی تحریروں کا اجارہ نہیں، جن میں کسی دور کے خاص سیاسی یا اقتصادی مسائل کا براہِ راست تجربہ کیا گیا ہو۔“ (3)
اس لیے ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی فیض کی ابتدائی تنقید کے متعلق لکھتا ہے:
”فیض نے ادب کی ادبیت کو اولیت دی۔ وہ ادب کی جمالیاتی اقدار کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ادیب کا بنیادی مقصد تجربات کی ترجمانی کرنا ہے۔ تجربات خارجی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہمارے تجربات میں سے وہ تجربات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جن کا تعلق ہماری سماجی زندگی سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند ادب ان تجربات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ فیض کی نظر میں ادب کا فرض سماجی مسائل کا ادراک اور ان کی طرف توجہ دلانا ہے۔ ان مسائل کا حل کرنا ادب کا فریضہ نہیں ہے۔“(4)
فیض کے نقطہِ نظر میں س وقت ایک بہت بڑی تبدیلی ہوئی جب وہ 1934ءمیںمارکسزم سے روشناس ہوا۔اور یہ نظریاتی تقلیب صاحب زادہ محمود الظفراور اس کی بیوی ڈاکٹر رشید جہاں کی سنگت میں ہوئی۔1934ءمیں فیض احمد فیض، جب ایم اے او کالج امرت سر میں انگریزی کا لیکچرار مقرر ہوا تو اس کی ملاقات وہاں صاحب زادہ محمود الظفر اور اس کی بیوی رشید جہاں سے ہوئی۔ انہوں نے اُسے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین مارکسزم، مارکسی تنقید اور مارکسی شعراءو ادباءسے متعارف کرایا۔ جن سے اس کے فکر و شخصیت میں ایک انقلاب برپا ہوگیااور اس کا تصوریت پسند و رومانویت پسند نقطہ نظر یکسر تبدیل ہوکر مارکسی نقطہ نظر بن گیا۔اس نے ترقی پسندصنفین کی تحریک ، انڈین کمیونسٹ پارٹی اور مزدور ٹرید یونین تحریک سے خود کو وابستہ کیا۔ اپنے نقطہ نظر کی اس تبدیلی کے متعلق اس نے اپنے ایک خط میں اس طرح ذکر کیا ہے:
”ایک دن صاحب زادہ محمود الظفر نے ایک پتلی سی کتاب میرے حوالے کی اور کہا، ”یہ پڑھو لیکن غیر قانونی کتاب ہے۔“ اس لیے ذرا احتیاط سے رکھنا۔ یہ کتاب تھی کمیونسٹ مینی فسٹو، جو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ انسان اور فطرت، فرداور معاشرہ، اور طبقات،طبقے اور ذرائعِ پیداوار کی تقسیم اورپیداواری رشتے،اورمعاشرے کاارتقاء، انسانوں کی دنیا کے پیچدر پیچ اورتہ در تہ رشتے اتے، قدریں، عقیدے، فکروعمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے پورے خزانہ اسرار کی کنجی ہاتھ میںتھما دی ہے۔ یوں سوشلزم اور مارکسزم میں اپنی دلچسپی کی ابتداءہوئی۔ پھر لینن کی کتابیں پڑھیں۔ پھر سوویت معاشرے کے بارے میں دوسرے انقلابی ادیبوں کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اسی زمانے میں ہندوستانی ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہوئی۔ یہ سب پڑھ کے ہم نے اس دوسری تصویر میں رنگ بھرنا شروع کیا۔“ (5)
فیض کی مارکسزم سے شناسائی اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے اس کے نقطہ نظر کو جدلیاتی و تاریخی مادیت پسند نقطہ نظر بنا دیا۔ اب اس نے جہاں اپنی شاعری کو مارکسزم سے مربوط کیا وہاں اپنی نثر کو بھی اس سے متعلق بنانے کی کوشش کی۔ یہ دور اس کی زندگی میں ایک نئے موڑ کی حیثیت کا حامل ہے۔اسی دور میں اس نے ڈاکٹر رشید جہاں اوراس کے خاوند صاحب زادہ محمودالظفر کے ذریعے ماکسزم کی تفہیم حاصل کی اور اسی نقطہِ نظر کو اپنی شاعری اور نثر میں اختیار کیا۔ فیض کی زندگی کے اس دور کے متعلق سلمیٰ محمود لکھتی ہے:”صاحب زادہ محمود الظفر، جو مارکسسٹ دانشور تھا، اور ڈاکٹر رشید جہاں کا خاوند تھا جس نے فیض کو سوشلزم سے متعارف کروایا۔“ (6)
اپنی نظریاتی تقلیب کے بارے میں فیض خود رقم طراز ہے:
”1935ءمیں میں نے ایم اے او کالج امرت سر میں ملازمت کی۔ یہیں سے میری اور میرے بہت سے ہم عصر لکھنے والوں کی ذہنی و جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دوران کالج میں اپنے رفقا صاحب زادہ محمد ظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ملاقات ہوئی۔ پھر ترقی پسند تحریک کے داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس میں بہرحال گرد و پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو تو بھی تو انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک ایسے انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی ، بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالمِ موجودات سے اس کے ذہنی و جذباتی رشتے ہیں، خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے، چناں چہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔“ (7)
بعدازاں فیض نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک ہندوستانی، کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈیونین تحریک میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ کیوں کہ فیض احمد فیض کی مارکسزم سے واقفیت اور اس کے محنت کشوں کی تحریک سے ربط و ضبط نے اسے رومانوی شاعر سے ایک مارکسسٹ شاعر اور مفکر میں تبدیل کردیا۔ اب وہ انسان، سماج اور کائنات کو مارکسسٹ نقطہ نظر سے دیکھنے لگا۔ اس کا شاعرانہ لب و لہجہ بھی مارکسسٹ انقلابی کا لب و لہجہ بن گیا۔ اور اس نے فن و ادب کو بھی مارکسسٹ نظریے سے جانچنا پرکھنا شروع کردیا۔ اس نے شاعروں اور ادیبوں پر جو کچھ اپنے مضامین میں لکھا۔ وہ اسی نظریے کے تحت لکھا۔1940ءمیں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی ختم ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیاں اور ٹریڈیونین سرگرمیاں پھر سے تیز تر ہوگئیں۔چوں کہ فیض احمد فیض بھی ٹریڈ یونین تحریک کا حصہ تھا، اس لیے اس نے بھی اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔اس زمانے میںکامریڈ رمیش چندر چارلی نے لاہور میں تانگہ یونین قائم کی۔ 1941ءتا 1942ءفیض احمد فیض نے اسی تانگہ یونین میں شرکت کی ۔ جسے رمیش چندر چارلی نے قائم کیا تھا۔ یہیں سے فیض کے ادبی نقطہ نظر میں واضح طور پر تبدیلی واقع ہوئی۔جس نے فیض کی زندگی اور نظریے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ہ اپنے فکروعمل اور کردارورفتار میں ایک پکا کمیٹیڈ کمیونسٹ بن گیا۔قمریورش لکھتا ہے:
"فیض صاحب اپنی ذات کو کائنات سے الگ کرکے نہیں دیکھتے تھے۔بلکہ میرا خیال ہے کہ وہ چاند کو بھی اپنی دہرتی کا ایک ٹکڑا تصور کرتے تھے۔وہ مغرور نہیں صاف گو تھے۔پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں میں واد شاعر تھے،جنہوں نے اپنے آپ کو ڈی کلاس کیا تھا۔ اوراپنی زمین کو بلا معاوضہ کسانوں میں تقسیم کیا تھا۔ (8)”
اس نظریاتی تبدیلی کے بعدفیض فرد کو سماج اور کائنات سے مربوط کرکے دیکھنا شروع کیا اور اجتماعیت پسندی کو اختیار کیا۔ وہ لکھتا ہے:
’ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، حسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی ، بہت ہی محدود اور حقیر سی ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو عالمِ موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔“ (9)
اب فیض نے ادب کو سماج سے مربوط کرکے دیکھنا شروع کیا اور اس کی تحریروں میں نظریاتی پختگی آگئی۔اس نے ادبی پیداوار کوبھی مارکسی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا، جس کی رُو سے ادب سماجی زندگی کو منعکس کرتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے:
”ادب کا مقصد محض انسانی تجربات کی کامیاب ترجمانی ہے۔ یہ تجربات خارجی ماحول کے زیراثر لکھنے والے کے ذہن پر منعکس ہوتے ہیں۔ لکھنے والے کو چاہیے کہ انہیں من و عن بیان کردے اور اس طریقے سے اپنے ماحول کا منظر ہو بہو ہمارے سامنے پیش کرے۔ ان تجربات کی نوعیت کیا ہے اور ان سے ماحول کے کون سے پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ ہمیں اس سے سروکار نہیں ہے۔ مثلاً اگر وہ گھریلو زندگی کا ایک معمولی سا واقعہ نہایت خوبی سے بیان کرتا ہے تو اسے کیا پڑی ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی طرح گلے سڑے مزدوروں کا رونا رویا کرے۔ مجھے تسلیم ہے کہ ادب کا فوری مقصد صرف تجربات کی ترجمانی کرنا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ تجربات خارجی ماحول کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ادبی نقطہ نظر سے ایک حقیقی تجربہ جھوٹے اور من گھڑت تجربات سے زیادہ قابل قدر ہے۔“ (10)
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیض ادبی پیداوار کے متعلق لینن کے جدلیاتی نظریہ انعکاس سے کس قدر متاثر ہے۔بعض نقاد ادب میں سماج کے انعکاس کو میکانکی انداز میں سمجھتے ہیں۔اور اسے یا تو آئینہ داری پر محمول کرتے ہیں یا اسے محض فوٹو گرافی تصور کرتے ہیں۔ لیکن فیض کے نزدیک سماج کا ادب میں یہ انعکاس محض آئینہ داری ہے اور نہ فوٹو گرافی نہیں ہے بلکہ فن کارانہ مصوری ہے۔جیسا کہ وہ لکھتا ہے:
”مجھے اس سے تو اتفاق ہے کہ زندگی یا حقیقت کو صداقت اور صحیح طور پر پیش کرنا چاہیے۔ لیکن کس پیرائے میں کس صورت یا کس انداز میں اس کا فیصلہ ادیب کے اپنے اختیار میں ہونا چاہیے۔ وہ فوٹو گرافر نہیںہے، مصور ہے۔“ (11)
اسی جدلیاتی نقطہِ نظر نے فیض کو سماج میں قوتوںکے درمیان جاری طبقاتی کشمکش کا شعور دیا۔جس کا اظہار وہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے:
”انسانیت کی ابتدا سے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِ عمل اور برسرپیکار رہی ہیں یہ قوتیں ہیں تحریب و تعمیر، ترقی اور زوال، روشنی اور تیرگی، انصاف دوستی اور انصاف دشمنی کی قوتیں۔ یہی صورت آج بھی ہے۔ اور اس نوعیت کی کش مکش آج بھی جاری ہے۔“ (12)
جس کی وجہ سے فیض ادب میں انفرادیت پسندی کا سخت مخالف ہے۔اس نے جوش کی انفرادیتپسندی کو ھدفِ تندید بنایا اور اس نے جوش کے فکر و فن پر رائے دیتے ہوئے تحریر کیا کہ وہ سوشلسٹ انقلابی شاعر نہیں ہے۔ بلکہ ایک انفرادیت پسند باغی ہے۔ اس کی طبیعت اور مزاج مارکسزم سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس نے محنت کشوں کو محض ایک جاگیردار کی نظر سے دیکھا اور ان کے مسائل کا صحیح ادراک نہیں کیا۔ اور ان میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ فیض کی نظر میں جوش کی شاعری میں بہت سی مفید باتیں بھی ہیں، جن کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔فیض جوش پر اپنی رائے دیتے ہوئے تحریر کرتا ہے:
”اشتراکیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انقلاب کسی فرد یا کسی ایک شخص کی ذاتی کوششوں اور تدبر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ سماجی اور اقتصادی قوتوں کی باہمی پیکار اور کش مکش سے نمودار ہوتا ہے۔ اس انقلاب میں فرد کی اہمیت طبقوں یا جماعتوں کی اہمیت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جوش کی شاعرانہ طبیعت اور مزاج اس نظریے کے خلاف ہے۔ وہ طبعاً انانیت پسند اور انفرادیت کے مداح واقع ہوئے ہیں۔ جب وہ انقلابی تگ و دو کا ذکر کرتے ہیں تو عام طور سے اس تگ و دو کا ہیرو کوئی طبقہ نہیں بلکہ کوئی فرد ہوتا ہے۔ اور ان کے ابتدائی کلام میں یہ ہیرو جوش صاحب خود ہی ہیں۔“ (13)
فیض جوش کے بارے میں اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتا ہے:
”یہ تصور کہ کوئی ایک فرد یا کوئی ایک شخص انقلاب کو اپنی ذات میں سمیٹ سکتا ہے۔ اور یہ کہ سماجی علل و اسباب اس کش مکش میں غیر اہم ہیں، قطعاً غیر اشتراکی ہے۔ اور اشتراکیوں کے بقول رجعت پسندانہ ہے۔ وہ ذاتی انکسار اور جماعتی تفاخر، جو ایک انقلابی شاعر میں ہونا چاہیے، جو ش کی شخصیت میں نہیں ہے۔۔۔ اشتراکی نظریے کے مطابق سماجی نظام میں سب سے زیادہ تنومند محنت کشوں کا طبقہ ہے۔ کامیاب انقلابی درس دینے کے لیے اس طبقے سے ذہنی، جذباتی اور نظریاتی مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے۔ جوش کے ہاں یہ بات نہیں۔ وہ کسان اور مزدور کا ذکر اکثر کرتے ہیں۔ لیکن بہت اوپر سے اور مشفقانہ انداز میں انہوں نے اس طبقے کی نظر سے مسائل کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ اس طبقے کے مسائل میں انہیں زیادہ دلچسپی معلوم ہوتی ہے۔“(14)
فیض نے دو شاعروں کا موازنہ کبھی بھی ان کے سماجی ماحول کو نظرانداز کرکے نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے ملحوظَ خاطر رکھا۔مثال کے طور پرحالی اور نظیر کو ان کے زمانے کے سماجی پس منظر میں دیکھتے ہوئے ان کو باغی شاعر قرار دیا۔ اس سلسلے مین وہ ان کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”نظیر اور حالی دونوں باغی شاعر تھے۔ دونوں پرانی درباری شاعری میں رسوم و روایات سے بیزار ایک نئی طرزِ سخن ایجاد کرنے کے خواہاں تھے۔ دونوں کی یہ کوشش رہی کہ شاعری جھوٹے اور رسمی جذبات سے ہٹ کر واقعات اور حقیقت کی طرف لوٹ آئے۔ دونوں میں مختلف طریقوں سے شعراءاور زندگی کا درمیانی فاصلہ کم کرنا چاہا۔ شعر کو ایک محدود طبقہ کے چنگل سے چھڑا کر اس کی لذتیں عوام میں بانٹنا چاہیں۔“(15)
علامہ اقبال کی شاعری، فکر اور شخصیت کا تجزیہ ترقی پسندوں کا ہمیشہ سے اہم موضوع رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کی مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔اس سلسلے میں ترقی پسندوں کے دو مکاتیب ِ فکر منظرِ عام پر آئے۔ِایک مکتبِ فکر نے اسے ایک رجعت پسند شاعر اور مفکر کے طور پر یک جنبشِ قلم رد کردیا۔اوردوسرے مکتبِ فکرنے اسے ترقی پسند شاعراور مفکر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کو زور لگادیا اور اس کے رجعت پسند پہلوﺅں کو بالکل نظرانداز کردیا۔بہت کم ترقی پسندوں نے اس کے رجعت پسند اور ترقی پسند پہلوﺅں کا متوازن تجزیہ پیش کیا۔ فیض بھی ان ترقی پسندوں میں تھا، جنہوں اقبال کے فکروفن کے دونوں پہلوﺅں پر اپنی توجہ مبزول کی۔ چناں چہ اس نے ان تمام آرا سے اختلاف کیا جو بہر صورت اقبال کو صرف ترقی پسند ثابت کرتی تھیں۔اوران نقادوں سے بھی اختلاف کیاجو اسے محض رجعت پسند ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ فیض نے دونوں قسم کی انتہا پسند آرا سے اختلاف کرتے ہوئے اقبال کے فکروفن کو اس کے سماجی ماحول میں پرکھنے کی کوش کی۔اس نے اقبال کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا:
”اقبال کی نظر سے دنیا کو بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔ اقبال کی نظر سے اقبال کا مطالعہ کسی نے نہیں کیا۔“ (16)
فیض اقبا ل پر اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتا ہے:
"Iqbal represented the enlightened synthesis of Eastern and Western learning, the best of our traditional literary culture and its modern modes of expression, the poet’s sensibility camped with the scientist’s aptitude for rational rationalism.”(17)
فیض نے وجودیت کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے اقبال کے متعلق لکھا:
”وجودیت کے بعض مسائل ایسے ہیں، جن کے بارے میں ہمارے معاشرے کے ذہن میں تضادات موجود ہیں۔ اور ایک حد تک ان تضادات کی جھلک اقبال کے ذہن میں بھی نظر آتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بادشاہ کا قصیدہ بھی لکھتے ہیں اور بندہِ مزدور کو بغاوت پر بھی اکساتے ہیں۔ جملہ انسانیت کی مساوات کے بھی قائل ہیں اور حقوقِ نسواں اور تعلیم کے بارے میں ان کے ذہن میں بعض شکوک بھی ہیں۔“ (18)
ڈاکٹر نصرف چوہدری کو امٹرویو دیتے ہوئے فیض نے اقبال کے طبقاتی کردار کی بنیاد پر اس کے فکروفن کے بارے میں کہا©
”اس دور کے سب سے بڑے شاعر یقینا اقبال ہیں، جو اس دور کے آخر میں آتے ہیں۔ دیکھیں نا ہر دور میں شاعر جو ہے وہ نہ صرف حالات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ کسی حد تک ایک طبقے کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ طبقہ جو سب سے زیادہ Influencial ہوتا ہے، سب سے زیادہ با اثر ہوتا ہے، اس طبقے کی ترجمانیِ خیالات، اس کے مضامین، اس کی ذہنیت شاعری میں داخل ہوتی ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہ طبقہ امرائ، روسا اور نوابوں کا طبقہ تھا۔ اس کے ختم ہوتے ہی مڈل کلاس آگئی۔ اگلی شاعری جو ہے، اقبال تک اس متوسط طبقے کی شاعری ہے۔ اس میں ایک نیا سیاسی شعور پیدا ہوا، قومیت کا جذبہ آزادی کا جذبہ اور اس زمانے میں جو انگریزی شاعری کی تقلید ہوئی۔“ (19)
تقسیمِ ہند کے وقت اسرارا الحق مجاز کی رومانوی انقلابی شاعری عوام میں بہت مقبول تھی ۔ فیض نے اس کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے بارے میںلکھا:
”وہ ایسا فن کار ہے، جو گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بے زار ہے۔“ (20)
فیض نے ایک اور جگہ مجاز کی شاعری پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا:
”مجاز کی انقلابیت عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں، للکارتے ہیں، سینہ کوٹتے ہیں۔ انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ ان کے ذہن میں آمدِ انقلاب کا تصور طوفانِ برق و رعد سے مرکب ہے۔ نغمہِ ہزار اور رنگینیِ بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہنچانتے۔ یہ انقلاب کاترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گزر چکا ہے لیکن ابمجاز کی غنائیت سے اپنا چکی ہے۔۔۔مجاز انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے۔“ (21)
فیض کا آئیڈیل سماج سوشلسٹ سماج تھا۔اس کے مطابق فیوڈل اور سرمایہدار سماج کو تبدیل کرنے اورعالمی پرامن سوشلسٹ سماج کے قیام میں ترقی پسندادیب،شاعر، فن کار اور دانشور بہت اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔اگر وہ کرہ ارض پر بسنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت اور بقا کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک کریں۔تو وہ اسےجنگ وجدل سے پاک پرامن جنتِ ارضی میں بدل سکتے ہیں۔لہذافیض بھی پر امن اور مبنی بر انصاف عالمی معاشرے کے قیام کے سلسلے میںفن کار یا ادیب کے اس کردار کو نظرانداز نہیں کرتا ہے۔ بلکہ اسے بہت اہم تصور کرتا ہے۔ وہ اس کے بارے میںاپنے ایک مضمونThe Role of the Artist میں لکھتا ہے:
"And thus as a writer or artist, even though I run no State and command no power, I am entitled to feel that I am my brother’s keeper and my brother is the whole of mankind. And this is the relevance to my Peace, of détente and the elimination of the nuclear menace.”(22)
فیض ادب و فن میں جمالیاتی پہلو کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ مواد اور صورت کی جدلیاتی ہم آہنگی پر زوردیتا ہے۔اگر یہ ہم آہنگی نہ ہوتو وہ فن و ادب کا آعلیٰ معیار قائم نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اس کی تنقید میں حسن و جمال کے اظہار کے فن کارانہ اظہار پر بہت زوردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید فیض کی تنقید پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتا ہے:
”بلاشبہ ان کی فکری اساس بھی جدلیاتی فلسفے پر مبنی ہے۔ تاہم انہوں نے حسن کی محرک قوت سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ اسے فعال اور خلاق تسلیم کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فیض نظریاتی برتری ثابت کرنے کے لیے حقائق کو مسخ نہیں کرتے۔ بلکہ تنقید کو تاریخی صداقت سے صیقل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید کا داخلی مزاج خاصہ خنک ہے۔ اور یہ قاری کو مشتعل کرنے کے بجائے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔“ (23)
اگر فن وادب میں مواد اور صورت کے درمیان توازن نہ ہو تو وہ ایک بھونڈہ سا صحافیانہ پروپیگیڈہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اور قارئین کے ذہنوں پر کوئی جمالیاتی اثر مرتب نہیں کرسکتاہے۔اس لیے فیض ادب میں پروپیگنڈے کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ وہ کسی نظریے پر جمالیاتی اقدار کو قربان کردینے پر کسی طور بھی تیار نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک شاعر کی شاعری میں نظریہ اس طرح رچ بس جائے کہ وہ شیر و شکر ہوجائے اور ایک حسین فن پارہ بن جائے تاکہ قاری کے ذوقِ جمال کی تسکین بھی کرے ، اس کے ذوقِ جمال میں بلیدگی بھی پیدا کرے،اور اسے نظریاتی تعلیم کا سامان بہم پہنچا کر اس کے شعور کو بلند بھی کرے۔ اس کے متعلق فیض کہتا ہے:
’ ”میرا ایک نظریہ ہے۔ مگر نظریہ کو سامنے رکھ کر انسان شاعری نہیں کرتا۔ وہ نظریہ شاعری کا جزو بن جاتا ہے۔ بلکہ آدمی کی اپنی ذات کا جزو بن جاتا ہے۔ اسے سامنے رکھ کر لکھنے کا سوال نہیں اٹھتا۔ شاعری ایک مضمون کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی۔ بلکہ وہ مضمون جب اس کی واردات، اس کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے، جبھی وہ شعر کے روپ میں ڈھلتا ہے۔“ (24)
اس لیے فیض احمد فیض کی تنقید نگاری میں بھی کوئی پروپیگنڈہ نہیں پایا جاتا ہے۔بلکہ اس میں ایک توازن اور توافق ملتا ہے۔ اس وجہ سے فیض کی تنقیدکے بارے میں ڈاکٹر ارتضیٰ کریم لکھتا ہے:
”فیض کے تنقیدی رویہ میں جو وضعداری، غیر جانبداری، گہرائی اور وسعت ہے جو توازن اور استدلال ہے، وہ ان کی شاعری کا بھی حصہ ہے اور شخصیت کا بھی۔ دراصل وہ بڑے صابر اور کم گو انسان تھے۔ جو بات کہتے کا غور و فکر کے بعد۔ ان میں وزن بھی ہوتا اور وقار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تنقیدی مضامین میں بھی توازن کا احساس برابر قائم رہتا ہے۔ اور خود مجموعہ کا نام میزان اپنی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“ (25)
المختصرفیض احمد فیض کی تنقید نگاری مارکسی نظریے کے گرد گھومتی ہے، جس سے اس کی شاعری عبارت ہے۔ اورآج کے زمانے میںفیض کی تنقید نگاری کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ مارکسزم پر مبنی ہے۔جس میں فیض نے مارکسزم کا اطلاق وانطباق فن وادب پر کیا ہے۔اور اسے سماج سے مربوط کیا،جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔مارکسزم ،جس پر وہ اپنی پوری زندگی ثابت قدم رہا۔اس کے لیے اس نے کئی سالوں تک قیدِ زنداں کاٹی صعوبتیتں اور مشکلیں برداشت کیں، مزدوروں ور کسانوں میں کام کیا۔اس نظریے سے اس کی گہری کمٹمنٹ میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آئی۔وہ آخری سانستک اسی نظریے پر قائم رہا۔کیوں کہ مارکسسٹ نظریہ اس کی زندگی، شعور اور فنی شخصیت کا اٹوٹ حصہ بن گیاتھا۔اور اسی میں اس کی شاعری اور تنقید کی بنیادیں گہرے طور پر پیوست ہیں۔اس کی شاعری کی طرح اس کے تنقیدی مضامین ما بھی رکسزم کے تاریخی و جدلیاتی مادیت کے اصولوں پر مبنی ہیں، جو ایک ہمہ گیر سائنسی تھیوری ہے۔

ریفرنسز

1۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی۔ پاکستان میں اردو تنقید۔ ملتان: بیکن بکس، 2015ئ۔ ص 101۔
2۔ڈاکٹر شفیق اشرفی۔ فیض بحیثیت نقاد۔ لکھنو: نصرف پبلشرز، 1993ئ۔ ص 6۔
3۔فیض احمد فیض ۔ میزان۔ لاہور: لاہور اکیڈمی، 1965ئ۔ ص 13۔
4۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی۔ پاکستان میں اردو تنقید۔ ص 100
5 ۔فیض احمد فیض۔ مہ وسال آشنائی۔ماسکوَ دارالاشاعتِ ترقی، 1979ئ۔ ص ص 11-12
6۔Salma Mahmud. "Childhood Memories.”
مشمولہ شبنم شکیل۔پاکستانی ادب کے معمار، ڈاکٹر ایم ۔ ڈی تاثیر: شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی ادبیات، 2008ء۔ ص 28۔
7 ۔فیض احمد فیض ، دست تہ سنگ۔ لاہور:مکتبہ کاروان ،ص ص 19 تا 20۔
8۔قمر یورش۔یوںکے اجالے۔ لاہور: یورش اکیڈمی، جنوری 1999ء۔ ص 25
9۔دست تہ سنگ۔۔ ص ص 18-19۔
10۔فیض احمد فیض ، میزان۔ص 19۔
11۔فیض احمد فیض۔ مہ و سال آشنائی۔ ص ص 94-95
12 ۔فیض احمد فیض۔ کلامِ فیض، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاو¿س، 1979ئ۔ ص 265۔
13 ۔فیض۔ میزان۔ ص ص 278-279۔
14۔ایضاً۔ ص ص 279-280۔
15۔ایضاً۔ ص 170۔
16۔ایضاً۔ص 255۔
17. Faiz Ahmed Faiz. Coming Back Home: Editorials and Interviews of Faiz Ahmed Faiz. Ed. Sheema Majeed. Karachi: Oxford University Press, 2008. P. 7
18 ۔شیما مجید، مرتب۔ اقبال: شاعرِ مشرق کے فن و فکر پر فیض کی تحریروں کا مجموعہ۔ لاہور: مکتبہ عالیہ، 1987ئ۔ص 34۔
19۔ڈاکٹر نصرف چوہدری۔ ”فیض احمد فیض سے راقم الحروف کا ایک خصوصی انٹرویو۔“ فیض کی شاعری: ایک مطالعہ۔ لاہور: نگارشات، 1987ئ۔ص 192۔
20۔فیض احمد فیض۔ متاعِ لوح و قلم۔ کراچی: مکتبہ دانیال، 1973ئ، 153۔
21 ۔فیض احمد فیض۔ میزان۔ ص ص 310-311
22.Faiz Ahmed Faiz. Coming Back Home: Editorials and Interviews of Faiz Ahmed Faiz. P. 41
23۔ڈاکٹر انور سدید۔ اردو ادب کی تحریکیں۔ کراچی: انجمن ترقیِ اردو، 1996ئ۔ ص 52۔
24۔ڈاکٹر نصرت چوہدری۔ ”فیض احمد فیض سے راقم الحروف کا ایک خصوصی انٹرویو۔“ فیض کی شاعری:۔ ایک مطالعہ۔ص 41۔
25۔ڈاکٹر ارتضیٰ کریم۔ فیض کا تنقیدی رویہ موضوعات ۔ص 136۔ بحوالہ ڈاکٹر عزیزہ بانو۔ فیض آئینہ نثر۔ الہ آباد: رحمن پبلی کیشنز، جون ، 2009ئ۔ ص 32

فیض بہ حیثیت نقاد
جاوید اختر
فیض احمد فیض بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت یافتہ ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں اس کے فکر و فن اور شاعری و شخصیت پر بہت کچھ تحریر کیا گیا ہے ۔ لیکن بہ حیثیت نقاد اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ فیض کی شاعری جس مقبولیت کی اعلیٰ سطح تک پہنچی، اس سطح تک اس کی نثری تحریریں نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فیض نے اپنی ساری توجہ شاعری پر مرکوز کی اور نثر پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ اس لیے اس کی نثری تحریروں کا حجم اس کی شاعری کی نسبت بہت کم ہے۔ اور اس میں فیض وہ معیار بھی قائم نہیں کرسکا، جو اس کی شاعری کا معیار ہے۔ اس وجہ سے اس کی شاعری پر جس قدر لکھا گیا، اس قدر اس کی نثر خصوصاً اس کی تنقید پر نہیں لکھا گیا ہے۔
ہر چندیہ امر فطری بھی ہے کہ بہت کم شاعروں کی شاعری اور نثر میں بیک وقت اس قسم کا معیار پیدا ہوسکا ہے۔ بعض ادیبوں کی نثر تو اعلیٰ مقام تک پہنچی لیکن ان کی شاعری وہ مقام حاصل نہ کرسکی۔ مثال کے طور پر مولانا شبلی نعمانی کی نثر تو بہت ہی اعلیٰ پائے کی ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اس کی شاعری میں وہ بات نہیں ہے۔ لہٰذا وہ بحیثیت نثر نگار تو بہت ہی اعلیٰ درجے کا ادیب مشہور ہوا۔ مگر بحیثیت شاعر اس نہج تک نہیں پہنچ سکا۔ اسی طرح سجاد ظہیر کی اعلیٰ نثر کا معیار اس کی نثری نظموں کے مجموعے پگھلا نیلم میں کہیں دکھائی نہیں دیتا ہے۔سجاد باقررضوی کا نام اردو ادب میں ایک نقاد کی حیثیت سے جا نا پہچانا جاتا ہے۔لیکن بہت ہی کم لوگ اس کی شاعری کے متعلق جانتے ہیں۔حالاں کہ اس کے دو شعری مجموعے تیشہِ لفظ اور جوئے معانی بھی منظرِ عام پر آئے اور اس کی شاعری (خصوصاً غزل)میر تقی میر اور یاس یگانہ چنگیزی کی رنگ میں ہے۔ مگر پھر بھی وہ شاعری میں وہ مقام حاصل نہیں کر پایا، جو اس نے اپنی نثر نگاری (خصوصاً تنقید) میں حاصل کیا۔
اسی طرح بہت سے شاعروں کی شاعری بہت عروج تک پہنچی۔ مگر ان کی نثر اتنی زیادہ معیاریثابت نہ ہوسکی۔ مثال کے طور پر عبد الحمید عدم، ناصر کاظمی اور ساغر صدیقی کی شاعری بہت بلندی تک پہنچی مگر وہ نثر نگار کے طور پر ادب میں اپنا کوئی مقام حاصل نہ کرسکے۔ بعض شاعر و ادیب اپنی نظم و نثر میں ایک جیسا اعلیٰ معیار قائم کرسکے، ان میں غالب، جوش، شورش کاشمیری، علی سردار جعفری، گل خان نصیر، شیخ ایاز، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری اور دیگر قابلِ ذکر ہیں۔
فیض کی شاعری کا اعلیٰ معیار اس کی نثر میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی نثر عموماً قارئین اور خصوصاً ناقدین کی توجہ حاصل نہیں کرسکی ہے۔’ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی فیض کی تنقید پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی تحریر کرتا ہے:
’فیض اپنی اولیں حیثیت میں شاعر ہیں۔ ان کی تنقیدی حیثیت زیادہ مستحکم نہیں ہے۔“ (1)
جب کہ فیض کی تنقید نگاری کے متعلق ڈاکٹر شفیق اشرفی تحریر کرتا ہے:
”یوں تو فیض نے ایک شاعر کی حیثیت سے جو مرتبہ حاصل کیا، ایک نقاد کی حیثیت سے اس بلندی تک تو نہ پہنچ سکے لیکن یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اپنی شاعری میں جس نظریہ پر زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہے، اپنے مضامین کے ذریعے بھی اس کی تبلیغ کرتے رہے۔“ (2)
فیض نہ صرف ایک عظیم شاعر ہے ۔بلکہ ایک ترقی پسند نقاد بھی ہے۔ اس کے تنقیدی نظریات اس کی کتابوں میزان، صلیبیں مرے دریچے کی اور مہ وسال آشنائی ، متاعِ لوح و قلم، اورحکایتِ خونچکاں نئے افق، اس کے اقبال سے متعلق مضامین کے علاوہ اس کے شعری مجموعوں کے دیباچوں میں جا بہ بجا پائے جاتے ہیں، جو اردو ترقی پسند تنقید کا اہم حصہ ہیں۔
ابتدا میںفیض احمد فیض نے اپنی شاعری کی طرح تاثریت پسند اور رومانویت پسند تنقید سے اچھا خاصہ اثر قبول کیا۔ اس لیے اس کی ابتدائی تنقید میں داخلیت کا عنصر خارجیت کے عنصر پر کہیں کہیں غالب آجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی دوستی صوفی تبسم کے ساتھ بہت گہری تھی اور وہ صوفی تبسم کی رومانویت پسند شاعری تنقیدسے بہت متاثر ہوا۔علاوہ ازیں وہ اختر شیرانی کی رومانوی شاعری سے بھی بہت متاثر تھا۔ اس لیے فیض نے ادب و فن کی جمالیاتی اقدار کو بہت اہمیت دی۔ اس سلسلے میں ادب میں تخلیقِ حسن کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں فیض مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کرتا ہے:
”حسن کی تخلیق جمالیاتی فعل ہی نہیں افادی فعل بھی ہے۔ چناں چہ ہر وہ چیز جس سے ہماری زندگی میں حسن یا لطافت یا رنگینی پیدا ہو۔ صرف حسن ہی نہیں مفید بھی ہے۔ اسی وجہ سے جملہ غنائیہ ادب (بلکہ تمام اچھا آرٹ) ہمارے لیے قابلِ قدر ہے۔ یہ افادیت محض ایسی تحریروں کا اجارہ نہیں، جن میں کسی دور کے خاص سیاسی یا اقتصادی مسائل کا براہِ راست تجربہ کیا گیا ہو۔“ (3)
اس لیے ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی فیض کی ابتدائی تنقید کے متعلق لکھتا ہے:
”فیض نے ادب کی ادبیت کو اولیت دی۔ وہ ادب کی جمالیاتی اقدار کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ادیب کا بنیادی مقصد تجربات کی ترجمانی کرنا ہے۔ تجربات خارجی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہمارے تجربات میں سے وہ تجربات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ جن کا تعلق ہماری سماجی زندگی سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند ادب ان تجربات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ فیض کی نظر میں ادب کا فرض سماجی مسائل کا ادراک اور ان کی طرف توجہ دلانا ہے۔ ان مسائل کا حل کرنا ادب کا فریضہ نہیں ہے۔“(4)
فیض کے نقطہِ نظر میں س وقت ایک بہت بڑی تبدیلی ہوئی جب وہ 1934ءمیںمارکسزم سے روشناس ہوا۔اور یہ نظریاتی تقلیب صاحب زادہ محمود الظفراور اس کی بیوی ڈاکٹر رشید جہاں کی سنگت میں ہوئی۔1934ءمیں فیض احمد فیض، جب ایم اے او کالج امرت سر میں انگریزی کا لیکچرار مقرر ہوا تو اس کی ملاقات وہاں صاحب زادہ محمود الظفر اور اس کی بیوی رشید جہاں سے ہوئی۔ انہوں نے اُسے ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین مارکسزم، مارکسی تنقید اور مارکسی شعراءو ادباءسے متعارف کرایا۔ جن سے اس کے فکر و شخصیت میں ایک انقلاب برپا ہوگیااور اس کا تصوریت پسند و رومانویت پسند نقطہ نظر یکسر تبدیل ہوکر مارکسی نقطہ نظر بن گیا۔اس نے ترقی پسندصنفین کی تحریک ، انڈین کمیونسٹ پارٹی اور مزدور ٹرید یونین تحریک سے خود کو وابستہ کیا۔ اپنے نقطہ نظر کی اس تبدیلی کے متعلق اس نے اپنے ایک خط میں اس طرح ذکر کیا ہے:
”ایک دن صاحب زادہ محمود الظفر نے ایک پتلی سی کتاب میرے حوالے کی اور کہا، ”یہ پڑھو لیکن غیر قانونی کتاب ہے۔“ اس لیے ذرا احتیاط سے رکھنا۔ یہ کتاب تھی کمیونسٹ مینی فسٹو، جو میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ انسان اور فطرت، فرداور معاشرہ، اور طبقات،طبقے اور ذرائعِ پیداوار کی تقسیم اورپیداواری رشتے،اورمعاشرے کاارتقاء، انسانوں کی دنیا کے پیچدر پیچ اورتہ در تہ رشتے اتے، قدریں، عقیدے، فکروعمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے پورے خزانہ اسرار کی کنجی ہاتھ میںتھما دی ہے۔ یوں سوشلزم اور مارکسزم میں اپنی دلچسپی کی ابتداءہوئی۔ پھر لینن کی کتابیں پڑھیں۔ پھر سوویت معاشرے کے بارے میں دوسرے انقلابی ادیبوں کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اسی زمانے میں ہندوستانی ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہوئی۔ یہ سب پڑھ کے ہم نے اس دوسری تصویر میں رنگ بھرنا شروع کیا۔“ (5)
فیض کی مارکسزم سے شناسائی اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے اس کے نقطہ نظر کو جدلیاتی و تاریخی مادیت پسند نقطہ نظر بنا دیا۔ اب اس نے جہاں اپنی شاعری کو مارکسزم سے مربوط کیا وہاں اپنی نثر کو بھی اس سے متعلق بنانے کی کوشش کی۔ یہ دور اس کی زندگی میں ایک نئے موڑ کی حیثیت کا حامل ہے۔اسی دور میں اس نے ڈاکٹر رشید جہاں اوراس کے خاوند صاحب زادہ محمودالظفر کے ذریعے ماکسزم کی تفہیم حاصل کی اور اسی نقطہِ نظر کو اپنی شاعری اور نثر میں اختیار کیا۔ فیض کی زندگی کے اس دور کے متعلق سلمیٰ محمود لکھتی ہے:”صاحب زادہ محمود الظفر، جو مارکسسٹ دانشور تھا، اور ڈاکٹر رشید جہاں کا خاوند تھا جس نے فیض کو سوشلزم سے متعارف کروایا۔“ (6)
اپنی نظریاتی تقلیب کے بارے میں فیض خود رقم طراز ہے:
”1935ءمیں میں نے ایم اے او کالج امرت سر میں ملازمت کی۔ یہیں سے میری اور میرے بہت سے ہم عصر لکھنے والوں کی ذہنی و جذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دوران کالج میں اپنے رفقا صاحب زادہ محمد ظفر مرحوم اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ملاقات ہوئی۔ پھر ترقی پسند تحریک کے داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس میں بہرحال گرد و پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ممکن ہو تو بھی تو انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک ایسے انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی ، بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالمِ موجودات سے اس کے ذہنی و جذباتی رشتے ہیں، خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے، چناں چہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔“ (7)
بعدازاں فیض نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک ہندوستانی، کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈیونین تحریک میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ کیوں کہ فیض احمد فیض کی مارکسزم سے واقفیت اور اس کے محنت کشوں کی تحریک سے ربط و ضبط نے اسے رومانوی شاعر سے ایک مارکسسٹ شاعر اور مفکر میں تبدیل کردیا۔ اب وہ انسان، سماج اور کائنات کو مارکسسٹ نقطہ نظر سے دیکھنے لگا۔ اس کا شاعرانہ لب و لہجہ بھی مارکسسٹ انقلابی کا لب و لہجہ بن گیا۔ اور اس نے فن و ادب کو بھی مارکسسٹ نظریے سے جانچنا پرکھنا شروع کردیا۔ اس نے شاعروں اور ادیبوں پر جو کچھ اپنے مضامین میں لکھا۔ وہ اسی نظریے کے تحت لکھا۔1940ءمیں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی ختم ہونے کے بعد سیاسی سرگرمیاں اور ٹریڈیونین سرگرمیاں پھر سے تیز تر ہوگئیں۔چوں کہ فیض احمد فیض بھی ٹریڈ یونین تحریک کا حصہ تھا، اس لیے اس نے بھی اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا۔اس زمانے میںکامریڈ رمیش چندر چارلی نے لاہور میں تانگہ یونین قائم کی۔ 1941ءتا 1942ءفیض احمد فیض نے اسی تانگہ یونین میں شرکت کی ۔ جسے رمیش چندر چارلی نے قائم کیا تھا۔ یہیں سے فیض کے ادبی نقطہ نظر میں واضح طور پر تبدیلی واقع ہوئی۔جس نے فیض کی زندگی اور نظریے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ہ اپنے فکروعمل اور کردارورفتار میں ایک پکا کمیٹیڈ کمیونسٹ بن گیا۔قمریورش لکھتا ہے:
"فیض صاحب اپنی ذات کو کائنات سے الگ کرکے نہیں دیکھتے تھے۔بلکہ میرا خیال ہے کہ وہ چاند کو بھی اپنی دہرتی کا ایک ٹکڑا تصور کرتے تھے۔وہ مغرور نہیں صاف گو تھے۔پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں میں واد شاعر تھے،جنہوں نے اپنے آپ کو ڈی کلاس کیا تھا۔ اوراپنی زمین کو بلا معاوضہ کسانوں میں تقسیم کیا تھا۔ (8)”
اس نظریاتی تبدیلی کے بعدفیض فرد کو سماج اور کائنات سے مربوط کرکے دیکھنا شروع کیا اور اجتماعیت پسندی کو اختیار کیا۔ وہ لکھتا ہے:
’ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، حسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی ، بہت ہی محدود اور حقیر سی ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو عالمِ موجودات سے اس کے ذہنی اور جذباتی رشتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔“ (9)
اب فیض نے ادب کو سماج سے مربوط کرکے دیکھنا شروع کیا اور اس کی تحریروں میں نظریاتی پختگی آگئی۔اس نے ادبی پیداوار کوبھی مارکسی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا، جس کی رُو سے ادب سماجی زندگی کو منعکس کرتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے:
”ادب کا مقصد محض انسانی تجربات کی کامیاب ترجمانی ہے۔ یہ تجربات خارجی ماحول کے زیراثر لکھنے والے کے ذہن پر منعکس ہوتے ہیں۔ لکھنے والے کو چاہیے کہ انہیں من و عن بیان کردے اور اس طریقے سے اپنے ماحول کا منظر ہو بہو ہمارے سامنے پیش کرے۔ ان تجربات کی نوعیت کیا ہے اور ان سے ماحول کے کون سے پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔ ہمیں اس سے سروکار نہیں ہے۔ مثلاً اگر وہ گھریلو زندگی کا ایک معمولی سا واقعہ نہایت خوبی سے بیان کرتا ہے تو اسے کیا پڑی ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی طرح گلے سڑے مزدوروں کا رونا رویا کرے۔ مجھے تسلیم ہے کہ ادب کا فوری مقصد صرف تجربات کی ترجمانی کرنا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہ تجربات خارجی ماحول کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ادبی نقطہ نظر سے ایک حقیقی تجربہ جھوٹے اور من گھڑت تجربات سے زیادہ قابل قدر ہے۔“ (10)
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیض ادبی پیداوار کے متعلق لینن کے جدلیاتی نظریہ انعکاس سے کس قدر متاثر ہے۔بعض نقاد ادب میں سماج کے انعکاس کو میکانکی انداز میں سمجھتے ہیں۔اور اسے یا تو آئینہ داری پر محمول کرتے ہیں یا اسے محض فوٹو گرافی تصور کرتے ہیں۔ لیکن فیض کے نزدیک سماج کا ادب میں یہ انعکاس محض آئینہ داری ہے اور نہ فوٹو گرافی نہیں ہے بلکہ فن کارانہ مصوری ہے۔جیسا کہ وہ لکھتا ہے:
”مجھے اس سے تو اتفاق ہے کہ زندگی یا حقیقت کو صداقت اور صحیح طور پر پیش کرنا چاہیے۔ لیکن کس پیرائے میں کس صورت یا کس انداز میں اس کا فیصلہ ادیب کے اپنے اختیار میں ہونا چاہیے۔ وہ فوٹو گرافر نہیںہے، مصور ہے۔“ (11)
اسی جدلیاتی نقطہِ نظر نے فیض کو سماج میں قوتوںکے درمیان جاری طبقاتی کشمکش کا شعور دیا۔جس کا اظہار وہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے:
”انسانیت کی ابتدا سے اب تک ہر عہد اور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِ عمل اور برسرپیکار رہی ہیں یہ قوتیں ہیں تحریب و تعمیر، ترقی اور زوال، روشنی اور تیرگی، انصاف دوستی اور انصاف دشمنی کی قوتیں۔ یہی صورت آج بھی ہے۔ اور اس نوعیت کی کش مکش آج بھی جاری ہے۔“ (12)
جس کی وجہ سے فیض ادب میں انفرادیت پسندی کا سخت مخالف ہے۔اس نے جوش کی انفرادیتپسندی کو ھدفِ تندید بنایا اور اس نے جوش کے فکر و فن پر رائے دیتے ہوئے تحریر کیا کہ وہ سوشلسٹ انقلابی شاعر نہیں ہے۔ بلکہ ایک انفرادیت پسند باغی ہے۔ اس کی طبیعت اور مزاج مارکسزم سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس نے محنت کشوں کو محض ایک جاگیردار کی نظر سے دیکھا اور ان کے مسائل کا صحیح ادراک نہیں کیا۔ اور ان میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ فیض کی نظر میں جوش کی شاعری میں بہت سی مفید باتیں بھی ہیں، جن کی اہمیت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔فیض جوش پر اپنی رائے دیتے ہوئے تحریر کرتا ہے:
”اشتراکیت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انقلاب کسی فرد یا کسی ایک شخص کی ذاتی کوششوں اور تدبر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ سماجی اور اقتصادی قوتوں کی باہمی پیکار اور کش مکش سے نمودار ہوتا ہے۔ اس انقلاب میں فرد کی اہمیت طبقوں یا جماعتوں کی اہمیت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جوش کی شاعرانہ طبیعت اور مزاج اس نظریے کے خلاف ہے۔ وہ طبعاً انانیت پسند اور انفرادیت کے مداح واقع ہوئے ہیں۔ جب وہ انقلابی تگ و دو کا ذکر کرتے ہیں تو عام طور سے اس تگ و دو کا ہیرو کوئی طبقہ نہیں بلکہ کوئی فرد ہوتا ہے۔ اور ان کے ابتدائی کلام میں یہ ہیرو جوش صاحب خود ہی ہیں۔“ (13)
فیض جوش کے بارے میں اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتا ہے:
”یہ تصور کہ کوئی ایک فرد یا کوئی ایک شخص انقلاب کو اپنی ذات میں سمیٹ سکتا ہے۔ اور یہ کہ سماجی علل و اسباب اس کش مکش میں غیر اہم ہیں، قطعاً غیر اشتراکی ہے۔ اور اشتراکیوں کے بقول رجعت پسندانہ ہے۔ وہ ذاتی انکسار اور جماعتی تفاخر، جو ایک انقلابی شاعر میں ہونا چاہیے، جو ش کی شخصیت میں نہیں ہے۔۔۔ اشتراکی نظریے کے مطابق سماجی نظام میں سب سے زیادہ تنومند محنت کشوں کا طبقہ ہے۔ کامیاب انقلابی درس دینے کے لیے اس طبقے سے ذہنی، جذباتی اور نظریاتی مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے۔ جوش کے ہاں یہ بات نہیں۔ وہ کسان اور مزدور کا ذکر اکثر کرتے ہیں۔ لیکن بہت اوپر سے اور مشفقانہ انداز میں انہوں نے اس طبقے کی نظر سے مسائل کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ اس طبقے کے مسائل میں انہیں زیادہ دلچسپی معلوم ہوتی ہے۔“(14)
فیض نے دو شاعروں کا موازنہ کبھی بھی ان کے سماجی ماحول کو نظرانداز کرکے نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے ملحوظَ خاطر رکھا۔مثال کے طور پرحالی اور نظیر کو ان کے زمانے کے سماجی پس منظر میں دیکھتے ہوئے ان کو باغی شاعر قرار دیا۔ اس سلسلے مین وہ ان کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”نظیر اور حالی دونوں باغی شاعر تھے۔ دونوں پرانی درباری شاعری میں رسوم و روایات سے بیزار ایک نئی طرزِ سخن ایجاد کرنے کے خواہاں تھے۔ دونوں کی یہ کوشش رہی کہ شاعری جھوٹے اور رسمی جذبات سے ہٹ کر واقعات اور حقیقت کی طرف لوٹ آئے۔ دونوں میں مختلف طریقوں سے شعراءاور زندگی کا درمیانی فاصلہ کم کرنا چاہا۔ شعر کو ایک محدود طبقہ کے چنگل سے چھڑا کر اس کی لذتیں عوام میں بانٹنا چاہیں۔“(15)
علامہ اقبال کی شاعری، فکر اور شخصیت کا تجزیہ ترقی پسندوں کا ہمیشہ سے اہم موضوع رہا ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کی مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔اس سلسلے میں ترقی پسندوں کے دو مکاتیب ِ فکر منظرِ عام پر آئے۔ِایک مکتبِ فکر نے اسے ایک رجعت پسند شاعر اور مفکر کے طور پر یک جنبشِ قلم رد کردیا۔اوردوسرے مکتبِ فکرنے اسے ترقی پسند شاعراور مفکر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کو زور لگادیا اور اس کے رجعت پسند پہلوﺅں کو بالکل نظرانداز کردیا۔بہت کم ترقی پسندوں نے اس کے رجعت پسند اور ترقی پسند پہلوﺅں کا متوازن تجزیہ پیش کیا۔ فیض بھی ان ترقی پسندوں میں تھا، جنہوں اقبال کے فکروفن کے دونوں پہلوﺅں پر اپنی توجہ مبزول کی۔ چناں چہ اس نے ان تمام آرا سے اختلاف کیا جو بہر صورت اقبال کو صرف ترقی پسند ثابت کرتی تھیں۔اوران نقادوں سے بھی اختلاف کیاجو اسے محض رجعت پسند ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ فیض نے دونوں قسم کی انتہا پسند آرا سے اختلاف کرتے ہوئے اقبال کے فکروفن کو اس کے سماجی ماحول میں پرکھنے کی کوش کی۔اس نے اقبال کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا:
”اقبال کی نظر سے دنیا کو بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔ اقبال کی نظر سے اقبال کا مطالعہ کسی نے نہیں کیا۔“ (16)
فیض اقبا ل پر اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتا ہے:
"Iqbal represented the enlightened synthesis of Eastern and Western learning, the best of our traditional literary culture and its modern modes of expression, the poet’s sensibility camped with the scientist’s aptitude for rational rationalism.”(17)
فیض نے وجودیت کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے اقبال کے متعلق لکھا:
”وجودیت کے بعض مسائل ایسے ہیں، جن کے بارے میں ہمارے معاشرے کے ذہن میں تضادات موجود ہیں۔ اور ایک حد تک ان تضادات کی جھلک اقبال کے ذہن میں بھی نظر آتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بادشاہ کا قصیدہ بھی لکھتے ہیں اور بندہِ مزدور کو بغاوت پر بھی اکساتے ہیں۔ جملہ انسانیت کی مساوات کے بھی قائل ہیں اور حقوقِ نسواں اور تعلیم کے بارے میں ان کے ذہن میں بعض شکوک بھی ہیں۔“ (18)
ڈاکٹر نصرف چوہدری کو امٹرویو دیتے ہوئے فیض نے اقبال کے طبقاتی کردار کی بنیاد پر اس کے فکروفن کے بارے میں کہا©
”اس دور کے سب سے بڑے شاعر یقینا اقبال ہیں، جو اس دور کے آخر میں آتے ہیں۔ دیکھیں نا ہر دور میں شاعر جو ہے وہ نہ صرف حالات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ کسی حد تک ایک طبقے کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ طبقہ جو سب سے زیادہ Influencial ہوتا ہے، سب سے زیادہ با اثر ہوتا ہے، اس طبقے کی ترجمانیِ خیالات، اس کے مضامین، اس کی ذہنیت شاعری میں داخل ہوتی ہے۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہ طبقہ امرائ، روسا اور نوابوں کا طبقہ تھا۔ اس کے ختم ہوتے ہی مڈل کلاس آگئی۔ اگلی شاعری جو ہے، اقبال تک اس متوسط طبقے کی شاعری ہے۔ اس میں ایک نیا سیاسی شعور پیدا ہوا، قومیت کا جذبہ آزادی کا جذبہ اور اس زمانے میں جو انگریزی شاعری کی تقلید ہوئی۔“ (19)
تقسیمِ ہند کے وقت اسرارا الحق مجاز کی رومانوی انقلابی شاعری عوام میں بہت مقبول تھی ۔ فیض نے اس کے فن کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے بارے میںلکھا:
”وہ ایسا فن کار ہے، جو گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بے زار ہے۔“ (20)
فیض نے ایک اور جگہ مجاز کی شاعری پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا:
”مجاز کی انقلابیت عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں، للکارتے ہیں، سینہ کوٹتے ہیں۔ انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ ان کے ذہن میں آمدِ انقلاب کا تصور طوفانِ برق و رعد سے مرکب ہے۔ نغمہِ ہزار اور رنگینیِ بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہنچانتے۔ یہ انقلاب کاترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گزر چکا ہے لیکن ابمجاز کی غنائیت سے اپنا چکی ہے۔۔۔مجاز انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے۔“ (21)
فیض کا آئیڈیل سماج سوشلسٹ سماج تھا۔اس کے مطابق فیوڈل اور سرمایہدار سماج کو تبدیل کرنے اورعالمی پرامن سوشلسٹ سماج کے قیام میں ترقی پسندادیب،شاعر، فن کار اور دانشور بہت اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔اگر وہ کرہ ارض پر بسنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت اور بقا کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا صحیح ادراک کریں۔تو وہ اسےجنگ وجدل سے پاک پرامن جنتِ ارضی میں بدل سکتے ہیں۔لہذافیض بھی پر امن اور مبنی بر انصاف عالمی معاشرے کے قیام کے سلسلے میںفن کار یا ادیب کے اس کردار کو نظرانداز نہیں کرتا ہے۔ بلکہ اسے بہت اہم تصور کرتا ہے۔ وہ اس کے بارے میںاپنے ایک مضمونThe Role of the Artist میں لکھتا ہے:
"And thus as a writer or artist, even though I run no State and command no power, I am entitled to feel that I am my brother’s keeper and my brother is the whole of mankind. And this is the relevance to my Peace, of détente and the elimination of the nuclear menace.”(22)
فیض ادب و فن میں جمالیاتی پہلو کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ مواد اور صورت کی جدلیاتی ہم آہنگی پر زوردیتا ہے۔اگر یہ ہم آہنگی نہ ہوتو وہ فن و ادب کا آعلیٰ معیار قائم نہیں رہ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اس کی تنقید میں حسن و جمال کے اظہار کے فن کارانہ اظہار پر بہت زوردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید فیض کی تنقید پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتا ہے:
”بلاشبہ ان کی فکری اساس بھی جدلیاتی فلسفے پر مبنی ہے۔ تاہم انہوں نے حسن کی محرک قوت سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ اسے فعال اور خلاق تسلیم کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فیض نظریاتی برتری ثابت کرنے کے لیے حقائق کو مسخ نہیں کرتے۔ بلکہ تنقید کو تاریخی صداقت سے صیقل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید کا داخلی مزاج خاصہ خنک ہے۔ اور یہ قاری کو مشتعل کرنے کے بجائے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔“ (23)
اگر فن وادب میں مواد اور صورت کے درمیان توازن نہ ہو تو وہ ایک بھونڈہ سا صحافیانہ پروپیگیڈہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اور قارئین کے ذہنوں پر کوئی جمالیاتی اثر مرتب نہیں کرسکتاہے۔اس لیے فیض ادب میں پروپیگنڈے کا قائل نہیں ہے۔ بلکہ وہ کسی نظریے پر جمالیاتی اقدار کو قربان کردینے پر کسی طور بھی تیار نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایک شاعر کی شاعری میں نظریہ اس طرح رچ بس جائے کہ وہ شیر و شکر ہوجائے اور ایک حسین فن پارہ بن جائے تاکہ قاری کے ذوقِ جمال کی تسکین بھی کرے ، اس کے ذوقِ جمال میں بلیدگی بھی پیدا کرے،اور اسے نظریاتی تعلیم کا سامان بہم پہنچا کر اس کے شعور کو بلند بھی کرے۔ اس کے متعلق فیض کہتا ہے:
’ ”میرا ایک نظریہ ہے۔ مگر نظریہ کو سامنے رکھ کر انسان شاعری نہیں کرتا۔ وہ نظریہ شاعری کا جزو بن جاتا ہے۔ بلکہ آدمی کی اپنی ذات کا جزو بن جاتا ہے۔ اسے سامنے رکھ کر لکھنے کا سوال نہیں اٹھتا۔ شاعری ایک مضمون کو سامنے رکھ کر نہیں کی جاتی۔ بلکہ وہ مضمون جب اس کی واردات، اس کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے، جبھی وہ شعر کے روپ میں ڈھلتا ہے۔“ (24)
اس لیے فیض احمد فیض کی تنقید نگاری میں بھی کوئی پروپیگنڈہ نہیں پایا جاتا ہے۔بلکہ اس میں ایک توازن اور توافق ملتا ہے۔ اس وجہ سے فیض کی تنقیدکے بارے میں ڈاکٹر ارتضیٰ کریم لکھتا ہے:
”فیض کے تنقیدی رویہ میں جو وضعداری، غیر جانبداری، گہرائی اور وسعت ہے جو توازن اور استدلال ہے، وہ ان کی شاعری کا بھی حصہ ہے اور شخصیت کا بھی۔ دراصل وہ بڑے صابر اور کم گو انسان تھے۔ جو بات کہتے کا غور و فکر کے بعد۔ ان میں وزن بھی ہوتا اور وقار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تنقیدی مضامین میں بھی توازن کا احساس برابر قائم رہتا ہے۔ اور خود مجموعہ کا نام میزان اپنی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“ (25)
المختصرفیض احمد فیض کی تنقید نگاری مارکسی نظریے کے گرد گھومتی ہے، جس سے اس کی شاعری عبارت ہے۔ اورآج کے زمانے میںفیض کی تنقید نگاری کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ مارکسزم پر مبنی ہے۔جس میں فیض نے مارکسزم کا اطلاق وانطباق فن وادب پر کیا ہے۔اور اسے سماج سے مربوط کیا،جس میں وہ پیدا ہوتا ہے۔مارکسزم ،جس پر وہ اپنی پوری زندگی ثابت قدم رہا۔اس کے لیے اس نے کئی سالوں تک قیدِ زنداں کاٹی صعوبتیتں اور مشکلیں برداشت کیں، مزدوروں ور کسانوں میں کام کیا۔اس نظریے سے اس کی گہری کمٹمنٹ میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آئی۔وہ آخری سانستک اسی نظریے پر قائم رہا۔کیوں کہ مارکسسٹ نظریہ اس کی زندگی، شعور اور فنی شخصیت کا اٹوٹ حصہ بن گیاتھا۔اور اسی میں اس کی شاعری اور تنقید کی بنیادیں گہرے طور پر پیوست ہیں۔اس کی شاعری کی طرح اس کے تنقیدی مضامین ما بھی رکسزم کے تاریخی و جدلیاتی مادیت کے اصولوں پر مبنی ہیں، جو ایک ہمہ گیر سائنسی تھیوری ہے۔

ریفرنسز

1۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی۔ پاکستان میں اردو تنقید۔ ملتان: بیکن بکس، 2015ئ۔ ص 101۔
2۔ڈاکٹر شفیق اشرفی۔ فیض بحیثیت نقاد۔ لکھنو: نصرف پبلشرز، 1993ئ۔ ص 6۔
3۔فیض احمد فیض ۔ میزان۔ لاہور: لاہور اکیڈمی، 1965ئ۔ ص 13۔
4۔ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی۔ پاکستان میں اردو تنقید۔ ص 100
5 ۔فیض احمد فیض۔ مہ وسال آشنائی۔ماسکوَ دارالاشاعتِ ترقی، 1979ئ۔ ص ص 11-12
6۔Salma Mahmud. "Childhood Memories.”
مشمولہ شبنم شکیل۔پاکستانی ادب کے معمار، ڈاکٹر ایم ۔ ڈی تاثیر: شخصیت اور فن۔ اسلام آباد: اکادمی ادبیات، 2008ء۔ ص 28۔
7 ۔فیض احمد فیض ، دست تہ سنگ۔ لاہور:مکتبہ کاروان ،ص ص 19 تا 20۔
8۔قمر یورش۔یوںکے اجالے۔ لاہور: یورش اکیڈمی، جنوری 1999ء۔ ص 25
9۔دست تہ سنگ۔۔ ص ص 18-19۔
10۔فیض احمد فیض ، میزان۔ص 19۔
11۔فیض احمد فیض۔ مہ و سال آشنائی۔ ص ص 94-95
12 ۔فیض احمد فیض۔ کلامِ فیض، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاو¿س، 1979ئ۔ ص 265۔
13 ۔فیض۔ میزان۔ ص ص 278-279۔
14۔ایضاً۔ ص ص 279-280۔
15۔ایضاً۔ ص 170۔
16۔ایضاً۔ص 255۔
17. Faiz Ahmed Faiz. Coming Back Home: Editorials and Interviews of Faiz Ahmed Faiz. Ed. Sheema Majeed. Karachi: Oxford University Press, 2008. P. 7
18 ۔شیما مجید، مرتب۔ اقبال: شاعرِ مشرق کے فن و فکر پر فیض کی تحریروں کا مجموعہ۔ لاہور: مکتبہ عالیہ، 1987ئ۔ص 34۔
19۔ڈاکٹر نصرف چوہدری۔ ”فیض احمد فیض سے راقم الحروف کا ایک خصوصی انٹرویو۔“ فیض کی شاعری: ایک مطالعہ۔ لاہور: نگارشات، 1987ئ۔ص 192۔
20۔فیض احمد فیض۔ متاعِ لوح و قلم۔ کراچی: مکتبہ دانیال، 1973ئ، 153۔
21 ۔فیض احمد فیض۔ میزان۔ ص ص 310-311
22.Faiz Ahmed Faiz. Coming Back Home: Editorials and Interviews of Faiz Ahmed Faiz. P. 41
23۔ڈاکٹر انور سدید۔ اردو ادب کی تحریکیں۔ کراچی: انجمن ترقیِ اردو، 1996ئ۔ ص 52۔
24۔ڈاکٹر نصرت چوہدری۔ ”فیض احمد فیض سے راقم الحروف کا ایک خصوصی انٹرویو۔“ فیض کی شاعری:۔ ایک مطالعہ۔ص 41۔
25۔ڈاکٹر ارتضیٰ کریم۔ فیض کا تنقیدی رویہ موضوعات ۔ص 136۔ بحوالہ ڈاکٹر عزیزہ بانو۔ فیض آئینہ نثر۔ الہ آباد: رحمن پبلی کیشنز، جون ، 2009ئ۔ ص 32

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*