بلوچی عشقیہ شاعری

اُس یعنی محبت انسان کی بہترین فطری عادات میں سے ایک خوبصورت ،ولولہ انگیز اور خوش وضع جوش و جذبہ کا نام ہے ۔ محبت کرنا بہت حسین، دلکش ، دلفریب اور شوق ِ دل آویز عمل ہے ۔
یہ محبت بہترین اخلاق و شمائل میں شمار ہونے کے علاوہ معاشرے کے اندر یکجہتی کے فقدان اور کج ادائیوں کے قلمع قمع کا ایک تیر بہدف نسخہ بھی ہے ۔بحرِبیکراں کی طرح ٹھاٹھیں مارتا یہ انسانی جذبہ حدود پھلانگ کر اکثر جذب و مستی کا روپ دھار لیتی ہے ۔ جسے یہاں عام اصطلاح میں عشق و محبت کا نام دیا جاتا ہے ۔
عشق و محبت کی داستانیں عرصہ قدیم سے زبان زدِ عام وخاص اور زینت قرطاس بنتی آرہی ہیں جو محفلوں کے اندر نوجوان کی گرمائش اور دھڑکنوں کا سبب بنتے رہے ۔ اسی طرح محبت ہر قوم اور قبیلے کا بلا امتیاز رنگ و نسل نوجوان دلوںکا لازمہ ہے ۔ چونکہ عشق نہ ذات برادری پوچھتا ہے اور نہ رنگ ونسل دیکھتا ہے اس لیے جہاں چاہے مہمان ہوسکتا ہے اور جس دل کے حرم کو چاہے آتش کدہ بنا سکتا ہے کیونکہ بقول غالب
عشق پر زور نہیں یہ وہ آتش غالب
جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
جہاں عربی، انگریزی ، فارسی اور اردو زبانیں موادِ عشق سے لبریز ہیں وہاں بلوچی زبان میں بھی عشق کی بھرپور رنگ سامانی نظر آتی ہے جو قاری اور سامع کے دل پر براہِ راست اثر کرتی ہے ۔ بلوچی ادب کلماتِ شوق سے اپنی ابتدا سے لے کر آج تک معمور چلا آرہا ہے ۔ چنانچہ ہم نے بلوچی زبان سے کچھ انوکھے رنگ وجذبات عشق کے اس مضمون میں نرالی منظر کشی ہے ۔ بلوچ شعرا کے بلوچی کلام کا ہم نے منظوم اردور ترجمہ کر کے ان دلکش تصاویر کو اپنی طرف سے اردور دان طبقہ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔
یہ جذبہِ عشق کئی مراحل سے گزرتا ہے ۔ تعارف ، قرابت، اُنس، پیار، الفت اور چاہت سب عشق و محبت کے زینے ہوتے ہیں۔ ایک بلوچ عاشق میں جب اپنی محبوبہ سے ملن کا جذبہ بیدار ہوتا ہے تو وہ یوں کہنے لگتا ہے ۔
آفانی پری آفا بیا
آفی غاں سرا آفا بیا
تھرا مرشذ دروہی ایں آفا بیا
ترجمہ:
جل پری پانی بھرنے آجا
پانی بھرنے آجا
سکھیوں سے پہلے
تجھ کو مرشد کا واسطہ پانی بھرنے آجا
اور جب اس طور پر ملاقات میں مشکلات و رکاوٹیں ہوں تو بزدار شاعر خانے دوستلانی کا یہ طریقِ کار اکثر ثمر آور ثابت ہوا کرتا ہے ۔
بیا او وہش گشیں لوڑی پھرانا (الخ)
ترجمہ:
اے نقیبِ خوشنو آمیرے ہاں سازوں سمیت
ماہ رخوں کی انجمن میں جا میرے نغموں سمیت
ہے وہاں محبوب میرا خوش ادا او خوش خرام
اس پری چہرہ کو جا کر پیش کر میرا سلام

اور جب محبوب سے ملن کا موقع ملے تو حسن کی سرکار میں عرضداشت کیسے پیش کی جاتی ہے ۔:
ترجمہ:
پھول جیسے ہونٹ تیرے دانت ہیں موتی جڑے
قلب وجاں کے پار جائیں نین کے خنجر کڑے
صورتِ گل دستِ نازک ریشمی زلفِ دراز
تیرے خدوخال ورخسار وجبیں سب دلنواز
عقل حیراں ہے کہ موتی تو بنا ہوگا کہاں
صانعِ نادر ہیں تیرے باہنر کروبیاں
روحِ عاشق تیرے اندر جزب و مدغم ہوگئی
میری من پونچی تیرے دلکش بدن میں کھو گئی
دل کسی کا توڑنا اچھا نہیں میرے ندیم
دل میرا ٹوٹا تو ہے وارث میرا رب ِ رحیم
اور جب محبوبہ دل توڑنے کی بجائے دل جوڑنے کا سامان کرتی ہے اور محبوب و محبوبہ یک جان ودوقالب بن جاتے ہیں تو ان میں اس قدر اپنائیت پیدا ہوتی ہے جس طرح تﺅکلی مست سمو کو اپنا کہہ کر پکارتا رہا۔
ترجمہ:
ہے میری سمیِ حسین سر سبز پیپل کی طرح
اک ثمر آور شجر کے رس بھرے پھل کی طرح
میری سمّی صورتِ جامِ مئے گل نار ہے
اس کا ہر انداز مثلِ آہوئے کُہسار ہے
میری سمّی دلنشیں مثلِ گلِ سرخ انار
یہ شبِ تیرہ کی مشعل پارہَ ابرِ بہار
لعل جیسے گال اس کے اور آنکھیں دلنواز
پتلی پتلی سی کمر اُف ناگ سی زلف دراز
زیبِ تن کرتی ہے جب دلکش لباسِ ریشمی
یوں سماں ہوتا ہے جیسے ہوں پھنواریں شبنمی
عشق ہنساتا بھی ہے اور رُلاتا بھی ہے اور نچاتا بھی ہے اور پھر ناچتے ناچتے مریضِ محبت گنگنا تا بھی ہے ۔ مرد کے ناچ کو بلوچی زبان میں جُھر کہتے ہیں ۔اس دوران جو گیت مرد گاتے ہیں ان کا ہر بند ” ہے ہم ہے ہم“ سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے جواب میں عورتیں جو رقص پیش کرتی ہیں اسے گُھمرکہتے ہیں اور یہ ناچتے ناچتے جو نغمہ الاپتی ہیں اس کے ہر بند کے شروع میں ’‘ ہم ہوں ہم ہوں“ باتکرار گاتی ہیں یوں ایک دلکش اور عجیب سماں بندھ جاتا ہے ۔ محبت کی موجیں اور رقص کی لہریں اور نغمہ کا الاپ یک جادوئی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ ذیل کے لوک بول بزدار شاعر لوزن ملک کے ترتیب دیئے ہوئے ہیں جو اپنے اندر ایک انوکھا رنگ رکھتے ہیں اور ان میں جذبات و محبت کی ایک نرالی منظر کشی کی گئی ہے ۔
ترجمہ:
ہے ہم ہے ہم اسے لعل فروزاں
تیرے ناز نخروں پہ دل جان قرباں
تیرے ناچ گانے ہوئے دل کے درماں
ہے ہم ہے ہم یہ دل موجزن ہے
طلبگار وصلِ پری وش کامن ہے
گلے سے لگاﺅں تجھے یہ لگن ہے
ہے ہم ہے ہم تو نورس ثمر ہے
لبِ آب جُو تو گلِ تر بتر ہے
کیئے تیری خوشبو میرے دل میں گھر ہے
ہے ہم ہے ہم تو شیرو شکر ہے
ٹھنڈک ہے آنکھوں کی دل ہے جگر ہے
توشیریں ہے شیریں ہے شیریں مگر ہے

اور جانتے ہو جواب میں حسن کی مالا کیا جواب دیتی رہی؟۔
ہم ہوں ہم ہوں جیئے یار میرا
کہ روشن ستارہ ہے دلدار میرا
نصیبوں میں میرے رہے یار میرا
ہم ہوں ہم ہوں تو ہر گز نہ گھبرا
غم و فکر میں اپنے دل کو نہ تڑپا
محبت سے شاداب کھیت دل کا
ہم ہوں ہم ہوں میرے یار جانی
ملے کاش لمبی تجھے زندگانی
کہ سنتی رہوں تیری شیریں بیانی
ہم ہوں ہم ہوں میں تیری رہوں گی
سفر میں تیرے ساتھ چلتی رہوں گی
ہمیشہ تیرا نام جپتی رہوں گی
اور اس ملن میں جدا ہوتے وقت عاشق اپنی معشوقہ پر نگاہیں گاڑ کر یوں لب کشا ہوتا ہے ۔ ترجمہ:
جواب ِ غزل دلنشیں اے صنم ہے
سکوں دل نے پایا خدا کی قسم ہے
تیرے عشق میں ہیں بہاریں بہاریں
وگرنہ خزاں ہی خزاں دم پہ دم ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*