بنسری بجاتی حکومت

پاکستان میں کئی دہایوں سے جاری آگ اور خون کا کھیل اب اپنی وحشیانہ شکل میں مکمل موجود ہے۔ وہ آگ جو ہم نے دوسروں کے ملک میں لگائی تھی اب ہمیں بھسم کرنے کے لیے الاﺅ کی مانند دہک رہی ہے۔ ریاست کے طور پر ہم کبھی بھی یہ واضح نہیں کر سکے کہ بطور قوم ہم اپنے لیے کیا مستقبل چاہتے ہیں۔کبھی ھمارا مقصد روس کو برباد کرنا ہوتا ہے ، کبھی ہم امریکہ کے پرخچے ارڑا رہے ہوتے ہیں ، کبھی یروشلم آزاد کراتے ہیں اور  کبھی سرینگر آزاد کرا کر دہلی پر قبضہ کرتے ہیں۔ دوسروں کا گھر جلا کر کبھی اپنا گلشن نہیں مہکتا۔ 
ماں جیسی ریاست کی عین ناک کے نیچے جب غربت سے ستائے ماں باپ اپنے بچے مدرسوں میں حوس کے مارے مولویوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں تو یہ ریاست پہلے قدم پر اپنے بچوں کو دھوکہ دیتی ہے ۔اور یہی ریاست ڈائن بن کر ان کا انتخاب کرتی ہے ایک ایسے ملک کے جہاد کے لیے جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ان ملکوں کے خلاف جہاں زندگی گزارنے کے خواہشمند سب ہیں اور ان ہی کی عورتوں کو بطور حور پیش کر کر ان کو جنت کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ان کو باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آپ کے ہم وطن جن کو جہاد سے کوئی دلچسپی نہیں اور وہ دو چار لفظ پڑھ کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں دراصل وہ گمراہ لوگ ہیں جو آپ کی تبلیغ کے منتظر ہیں اور جب پیسے کا بہاﺅ اور سہولیات کی دستیابی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم حد سے بڑھ جائے تو ہر وہ شخص جو تھوڑا بھی آسودہ ہو آپ کو اپنا دشمن دکھائی دیتا ہے۔ یہی ڈائن حکومت جب اپنے ملک کے سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد کے بہیمانہ قتل پر خاموش رہتی ہے ، اپنے ملک کے اعلی دماغوں کو جھوٹے مقدموں میں سلاخوں کے پیچھے رکھتی ہے ، بے حرمتی کا شکار عورتوں کا مذاق یہ کہ کر اڑاتی ہے کہ عورتیں اپنا ریپ اس لیے کراتی ہیں کہ ان کو کینڈا کا ویزا مل جائے اور اپنے کھلے ذہن نوجوانوں کو جو مساوی پیسے اور حقوق کی بات کرتے ہیں لادین اور خونی لبرلز کہہ کر اپنے ہی پالے درندوں کے آگے پھینک دیتی ہے تو وہ ایک ایسی دلال ہوتی ہے جو پیسوں کے عوض اپنے بچوں کے جسم اور روح کا سودا ایسے درندوں سے کرتی ہے جو ان کے مرنے کے بعد ان کی لاش تک کی بھی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ہر جگہ سے اپنے لیے ناجائز پیسہ بناتے ہوئے ان ریاستی اہلکاروں کو جب عوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بھوک ، بیماری اور ناانصافی میں پستی عوام جاہل قرار دی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے ان امرا کی موسیقی کی محفل میں خلل ڈالا ہوتا ہے اور جاگ کر اپنی حفاظت کرنے والوں کی خاطر خواہ قدر نہیں کی ہوتی۔ 
جب آگ لگی ہو تو صرف مطمئن وہ ہو سکتا ہے جس کا سامان نہ جل رہا ہو ، جس کے بچے کہیں دور آسائش کی زندگی گزار رہے ہوں تو ایسی حکومت آرام سے بانسری بجاتی ہے ۔کیونکہ جو جل رہا ہے وہ سوتیلا ہے اور سگے بچے سکون سے ان ہی ملکوں میں ارب پتی ہیں جن کے پرخچے اڑانے کے لیے جاہل عوام کے بچے آگ میں جھونک دیے گئے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*