سائبان شیشے کا

آج ۔۔۔ ” اپنا گھر “ میں اہم کوائف کا انداج کرنے والی اُس لڑکی کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بار بار امڈ آتے تھے اور وہ اپنے آنچل سے کبھی ناک اور کبھی آنکھیں رگڑ رگڑ سرخ کیے جارہی تھی۔۔ کہ ۔۔۔قاتل تو اپنی وہ خود تھی ، سو اپنا مقدمہ بھلا وہ کس عدالت میں لے جاتی ؟ کس سے انصاف کی درخواست کرتی؟ ۔۔۔ فرد جرم عائد ہوچکی تھی اور وہ ۔۔۔ مجرمہ شربت بی بی ، عرف ثروت رانی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے مصنف کی نشست پر بیٹھی کتاب ذہن پر تحریر مجرمہ شربت بی بی کی ہسٹری شیٹ پڑھ رہی تھی۔
کل تک یہ پانچ برس جو بیت گئے ، پانچ صدیاں لگا کرتے تھے ، پانچ طویل صدیاں۔۔۔ ہا ۔۔۔ ہائے ، میں کب آزادی کا سانس لے سکوں گی، بند کمرے میں پنکھے کی گھوں گھوں اور خیر الدین کی بے رحم محبت کے حصار میں الجھتی مچلتی وہ ہمیشہ یہی بات بار بار سوچا کرتی تھی۔۔ اور پھر ۔ ۔ سپر ڈال دیا کرتی تھی مگر۔۔ یہ تو ابھی ابھی پلک جھپکنے سے پہلے کی بات ہے ۔ اس کو تو آج وہ وقت بھی کل ہی کی بات کی طرح یاد آرہا تھا جب وہ اسٹیشن پر اماں سے گلے مل رہی تھی ، اماں بار بار اپنی چھینٹ کی اڑی اڑی سی رنگت والی چادر سے آنکھیں پونچھ رہی تھی ، سداچنگھاڑنے ، غرانے والا ابا بھی چپ چپ سا تھا اور ، وہ خود کڑھی ہوئی بادامی ریشمی چادر کو پانچ کی سبزو سرخ چوڑیوں بھرے ہاتھوں سے سنبھالتی ہوئی پر فیصلہ نہ کرپارہی تھی کہ اماں کے ساتھ روئے ؟ یا خیر الدین کی لائی ہوئی اس قدر خوبصورت چیزوں مثلاً جھلماتے کا مدار کپڑے ، زیور، سنہری سینڈل وپرس ، اور ایسی ہی بہت سے چیزیں پا کر خوش ہو، اپنے آپ پر رشک کرے؟ ۔ عجیب گومگو کی کیفیات تھیں کہ وہ وقتِ رخصت بھی کھل کر رونہ سکی، انجن نے ہوک سی بھری اور گاڑی ایک دھچکے سے چل پڑی۔ وہ لڑ گھڑا کر خیر الدین کے سینے سے جاٹکرائی اور اس نے شربت کو کانچ کی گڑیا کی طرح سنھال کر سیٹ پر بٹھا دیا، شربت نے نیچی نگاہ سے چادر کی آڑ میں سے دیکھا۔۔۔ سانولے چہرے پہ گھنی سیاہ نوکدار مونچھیں۔ نیلے شلوار سوٹ اور سنہرے رو پہلے کام کے موتیوں جڑے کھسے میں وہ وہی ٹی وی والا مرد لگ رہا تھا۔۔ وہی جو ایک دن کوثر پروین کے گھر ٹی وی کے ڈرامے میں آیا تھا ۔
بس ۔ ایک فرق ہے ، شربت نے کھڑکی سے باہر تکتے ہوئے سوچا، اس نے تیل بہت لگایا ہوا ہے اور کندھے پر پٹکابھی ہے ، جبکہ اس کے بال تو ہوا سے اڑ رہے تھے اور پٹکالینے کے بجائے اس نے ” صدری “ پہنی ہوئی تھی۔۔ یہ لوپی لو‘ اس کے خیالات کا تسلسل دھیمے لہجے میں کہے گئے اس جملے سے ٹوٹ گیا۔ اس نے ذرا سی گردن گھما کر گھونگٹ کی اونٹ سے دیکھا، وہ ٹھنڈی بوتل اس کی طرف بڑھا رہا تھا، اور پھر۔۔ سفر کب تمام ہوا پتہ ہی نہ چلا، کوٹری کا سٹیشن گزرنے سے پہلے وہ شنا سائی کی تمام منزلیں طے کر چکے تھے ۔۔ کراچی کے پر ہجوم سٹیشن پر خیر الدین کی ہمراہی میں اتری تو شاید صبح کے گیارہ ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے ۔ ٹیکسی میں چادر کے اڑتے آنچل کو سر چہرے کے گرد لپیٹے اور ہاتھ سے مضبوطی سے تھامے وہ ننھے بچوں کے سے تحیر و اشتیاق و مسرت سے اس انوکھے جہاںکو تک رہی تھی ، اور جب وہ گھر پہنچی تو خیر الدین کے تالا کھولتے ہی آ س پاس سے بھانت بھانت کی عورتیں لڑکیاں ، بچے آموجود ہوئے ایک ملگجی سی سوتی ساری والی بڑی بی نے جانے کیا کیا رسمیں ادا کیں شربت کو کچھ ہوش نہ تھا۔ مارے اجنبیت و دلہن ہونے کے احساس سے اس کی ہوش اڑے ہوئے تھے۔ وہ گھرپل بھر میں شادی کے بھرے پرے گھر کا سماں پیش کرنے لگا تھا۔ باہر سے دو چار مردوں کے ہنسنے بولنے کی بھی آوازیں آرہی تھی، ہر فردیوں سرگرم گھوم رہا تھا گویا وہ واقعی اس کا سسرالی عزیز ہو۔
بے بیاکو بلا رہے ، وہ اچھا میک اپ کرے ہے ۔ ان ہی سفید ساری والی بڑی بی نے اس کو غسل خانے سے بر آمد ہوتے دیکھ کر کسی سے چلا کر کہا تھا، اور ذرا ہی دیر بعد وہ بے بیا نامی لڑکی ماتھے پہ کٹے بال جھلاتی ، اتراتی ، اٹھلاتی آموجود ہوئی، ۔۔۔ شربت کھانے سے فارغ ہوکر جو شاید محلے سے ہی کسی کا فراہم کردہ تھا اب تنہائی پاکر تھکن سے ٹوٹتا جسم لیے تکیے کے سہارے نیم دراز ہوئی توپل بھر میں ہی بے خبر ہوگئی۔۔۔
ڈھلتی دوپہر میں جب خیر الدین محلے والے کی محبت پر کچھ شاداں ، کچھ جھلایا ہوا اندر داخل ہوا تو چند لمحے تو ہکا بکا ہی رہ گیا۔ ٹرین میں پہلی بار اس نے اپنی دلہن کا چہرہ دیکھا تھا تو اسے محسوس ہوا تھا کہ کہیں وہ غلطی تو نہیںکر بیٹھا؟۔۔وہ پندرہ سولہ برس سے زیادہ کی ہر گز نہ تھی اور میں۔۔ شناختی کارڈ کے حساب سے چھتیس برس کا ہوگیا ہوں، مگر اگلے ہی لمحے اس کا سر جھٹکا تھا کہ ۔۔۔ اوں ہوں،۔۔۔ بیوی کم عمر ہی بھلی ۔۔ اور ۔۔۔۔ وہ ٹرین والی شربت سیدھے سادے دیہاتی سنگھار سے آراستہ تیل سے چپڑے سر اور پھیلے پھیلے کا جل میں بھی اس کا صبرو قرار آزما رہی تھی۔۔ سچی بات یہ ہے کہ محلے والوں کی جانب سے دلہن کے ایسے بھر پور سواگت کی امید بھی نہ تھی، اور اب ایک طویل انتظار کے بعد ایک بالکل نئی شربت اس کے سامنے تھی۔
دو اونچے تکیوں کے سہارے نیم دراز اپنے آپ سے بے خبر، بالوں کے نئے انداز ، چند ایک زیورات ، جھلملاتی افشاں، غازہ سرخی، ماتھے پر چمکتی بندیا، ۔۔ ہاتھوں، بالوں میں مہکتے پھولوں کے گجرے ۔۔واہ۔۔۔ پلنگ سے نیچے لٹکتا آنچل اٹھاتے ہوئے وہ دھیرے سے اُس کے قریب بیٹھ گیا، شربت نے گھبرا کر ایک لخت آنکھیں کھول دیں، اور بے چاہ ، پہلے ہی گھائل گھائل خیرالدین افشاں کا جل ، رنگین پنسل سے آراستہ ان سمندر آنکھوں میں ڈوب ہی تو گیا ۔۔۔ ڈوبتے سورج کے جھلملاتے عکس جیسی شربتی آنکھوں میں آدمی ڈوبے توکیسا وحشی کیسا بے قرار و دیوانہ ہوجاتا ہے یہ مٹھی معصوم سی شربت کب جانتی تھی؟۔۔ اس نے ابا کی غصے سے سرخ آنکھیں دیکھی تھیں، ماموں کی ٹوٹتے نشے سے سرخ سرخ اور ۔۔۔ پیسے مانگتی آنکھیں دیکھی تھیں، شیدے بوٹے ، انور کی چھبتی گڑتی چھیدتی آنکھیں دیکھی تھیں، پر یہ خیر الدین جیسی آنکھیں تو اس نے کبھی نہ دیکھی تھیں ،تو دیتی ، مسکراتی جانے کیا کچھ کہتی بولتی آنکھیں۔۔ ابھی وہ ڈھلکتا آنچل سنبھال بھی نہ پائی تھی کہ بند آنکھوں کی اوٹ میں دیکھے گئے خواب کھلی آنکھوں ان لو دیتی چراغ آنکھوں کی گرمی ۔ سب کچھ گڈ مڈ ہوگیا،۔۔۔ بد حواسی کبھی کبھی انسان کو پتھر بنادیتی ہے ۔
اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔۔۔۔ دیر بعد وہ اپنا آپ سنبھالتی سمجھ وناسمجھی کے ریشم میں الجھی الجھی اٹھی اور ٹوٹی چوڑیوں کے ذرے، ٹکڑے ہتھیلی پر جمع کرتے ہوئے اس نے شاکی نظروں سے خیر الدین کو دیکھا ، تب ہی اس نے بھی بند آنکھیں پٹ سے کھول دیں اور مسکرا دیا۔۔۔ کیسی چاندنی صفت مسکراہٹ تھی۔۔۔ پر شربت نے بے اختیار منہ پھلا کر گردن موڑ لی اور وہ زور سے ہنس دیا۔۔۔ جیسے کوئی بزرگ ننھے ناسمجھ نادان بچے کی ناسمجھی و معصومیت پر ہنس دے۔۔۔ وہ بھی تو گڑیا ایسی ہی معصوم تھی ، وہ اس دیس کے ایسے خطے اور ایسے طبقے میں پیدا ہوئی جہاںعورت کی وقعت ڈھور ڈنگر سے کچھ زیادہ نہیں ، جہاں باپ سولہ سالہ نئی دلہن کے بدلے اپنی بارہ برس کی بیٹی کو کسی ستر سالہ مرد سے بیاہ سکتا ہے ، اس نے اپنی نانی اور پھر ماں کو بھی صبح سے شام تک گھر کے کاموں سے فراغت کے بعد سوئی دھاگے کا نفیس کام اجرت پر کرتے اور ماموﺅں ، باپ ، بھائی کو یہ اجرت بزور بازو ہتھیا کر نشہ کرتے اور جوا کھیلتے دیکھا تھا۔ انیسویں صدی اپنے اختتام کی طرف بگٹٹ بھاگے جارہی تھی اپنے پٹارے سے دکھوں کے پلندے آسائشات کے خزینے پھینکتی آزادی ، خود مختاری مادر پدر آزاد آزادی کی نوید دیتی ۔ لیکن شربت بی بی کے میکے جیسے اور بھی بہت بستیاں ہیںجہاں ایسی کسی نوید نے ، کسی بھی آسائش نے روشنی نہیں بکھیری ، وہاں تو بس گھور اندھیرے ہیں، چہار سوچمکتاہے تو مرد کا راج سنگھا سن جس پہ وہ بڑے کروفر سے آسن جمائے بیٹھا ہے ۔ یہاں کسی بھی قتل کا جواز اپنی رعایا یعنی عورت۔۔ بیٹی ، ماں، بیوی یا بہن کی لاش کے برابر مقتول کی لاش ڈل کر پیدا کر لیا جاتا ہے ۔۔۔۔ لوگ جب زیناں بی بی اس کی ماں سے کہا کرتے کہ زیناں تیری بیٹی کی صورت جس قدر حسین ہے اس سے کہیں بڑھ کر حسن تو اس کے ہاتھوں میں چھپا ہے۔ بڑی ہوگئی تو اس کا ہنر دیکھنے کے لائق ہو گا ۔ محلے کی مامیوں ، چاچیوں اور ماسیوں کے یہ توصیفی کلمات سن کر اماں کلیوں ایسی انگلیوں سے کسی دوپٹے کسی کرتے پر ریشم سے گل کاری کرتی بیٹی کو دیکھ کر آہ بھرتی، ۔۔۔ دعا کرو، اس کا نصیب بھی خوبصورت ہو، ہمارے تمہارے جیسا نہ ہوا،۔
نصیب!! خوبصورت ؟؟؟!! مگر کتنا ؟ کیسا؟ ۔۔ اماںکی یہی بات کبھی اس کے پلے نہ پڑی ۔ وہ سوچتی کہ کیا اماں آس پاس رہنے والی عورتوں کے نصیبوں سے الگ بھی کوئی نصیب ہوتے ہیں؟
دوپہر بھر ریشم کے لچھوں سے الجھتے الجھتے طبیعت ایسی شل ہوچکی ہوتی تھی کہ وہ مغرب کے بعد کھانا کھاتے ہی جو پڑ کر سوتی تو صبح کی ہی خبر لاتی ، صبح دیر تک سونا اسے بڑا پسند تھا، کتنا مزہ آتا ، نیم تلے بچھی چار پائی پہ اوڑھنی منہ پر ڈالے ، صبح کی ٹھنڈی مہکتی ہوا اپنے وجود پر سرسراتی ہوئی محسوس کرنا ، مگر اماں نے کبھی جو دیر تک سونے دیا ہو۔ شربتے ، اٹھ بیٹی دن چڑھ آیا۔۔۔ اس کی صبح اماںکی اس آواز سے ہوتی اور اماں کے ان جملوں کا موڈ ابا کے رات کے موڈ سے مشرو ط ہوتا تھا، رات اگر ابا کا موڈ بگڑا ہوتا تو صبح ابا کے مزاج کی ساری کڑواہٹ اماں کے وجود میںسموئی ہوئی محسوس ہوتی اور ۔۔ اٹھ نی ہڈ حرام !! سنتے ہی شربت چابی کی طرح اٹھ کھڑی ہوتی اور اونگھتی جاگتی کیفیت میں روز مرہ کے لگے بندھے معمول کے کولہو میں جت جاقی۔۔ شربت بی بی چار سال کی عمر میں اپنی اماں کی جہیز میں اس کے دوسرے شوہر کے گھر آئی تھی، یہاں اس ماحول میں اور بہت لڑکیاں تھیں جو ایسے معمولات و حالت کے تحت زندگی کو بے سوچے سمجھے ، بے جانے بوجھے کاٹے دے رہی تھیں۔ محلے بھر میں دو چار لڑکیاں ہی پڑھنے سکول جاتی تھیں۔ شربت نے بھی تیسری جماعت تک پڑھا تھا ، پھر ابا کو اتنا خرچہ منظور نہ ہوا تو وہ گھر بٹھالی گئی اور پھر وہ ، شربت خود کون سا مری جارہی تھی پڑھنے کو۔
اماں نے جانے کیسی شبھ گھڑی میں اس کے نیک نصیبوں کے لیے دعا کی تھی۔۔ کیا دعائیں واقعی ۔۔ قبول بھی ہوجاتی ہیں؟
اتنی جلدی ؟؟ ۔۔۔ شربت نے سوچا ۔۔۔
خیر الدین کراچی کی ایک بستی اور نگی ٹاﺅن میں اچھی خاصی چلتی ہوئی کریانے کی دکان اور ایک تین کمروں کے پکے گھر کا مالک اور ابا کے قریبی دوست کا سالا تھا ۔ اس کے والدین کا انتقال ہوا تو پندرہ سولہ برس کا نو عمر ناسمجھ لڑکا تھا (کیسی عجیب بات ہے پندرہ برس کی لڑکی اس معاشرے میں اس قدر باشعور ہوجاتی کہ شادی کے قابل سمجھی جانے لگتی ہے اور اس عمر کے لڑکے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں)۔ والدین کے انتقال کے بعد خیر الدین اکلوتی بڑی بہن کے گھر رہنے لگا تھا ، مگر اس کے بہنوئی کا خیال تھا کہ نذیراں خاتون سارا ترمال اپنے بھائی کو ٹھنسا دیتی ہے سو خیر الدین بدول ہو کر کراچی بھاگ آیا اور زندگی کی کھٹائیوں کو جھیلتے ، رنگینیوںکو محسوس کرتے اپنی محنت ومشقت کے بل پر اب چھتیس برس کی عمر میں ایک دکان اور ایک مکان کا مالک تھا۔۔۔ مکان کو گھر کرنے کے لیے ایک نسوانی وجود کی ضرورت تھی ، گھر والی کی ضرورت نے بھولے رشتے یاد دلا دیے۔ ۔۔ اور بہن جب بھابھی ڈھونڈنے نکلی تو شربت بی بی وہ گلابی رنگت سنہرے بالوں شربتی آنکھوں والی بھولی بھالی معصوم سی لڑکی ہی اس کا انتخاب ٹھہری کہ بھائی کی ایک ہی شرط تھی کہ لڑکی خوبصورت ہو اور بس۔۔ اور زیناں بی بی اپنی بیٹی کی خوش نصیبی پر جتنا ناز کرتی کم تھا، کہ ۔۔ گبرو جواں ، کماﺅ بر اور وہ بھی بغیر بدلے کے ۔۔۔ صرف ایک قلق تھا جو سینے میں بیٹھا اسے مسلے جارہا تھا کہ ۔۔۔ شربتے اتنی دور ۔ ۔۔ اس طلسماتی شہر کراچی چلی جائے گی جہاں کی صرف کہانیاں ہی سنی ہیں۔۔ کراچی واقعی طلسماتی شہر تھا جہاں خیر الدین نے پل بھر میں اس شربت بی بی کو ثروت رانی بنادیا تھا۔
پتہ ہے ثروت!!۔ ثروت ایک پاکستانی لڑکی تھی، خیر الدین نے اس کے لب ایک انگلی سے چھوتے ہوئے کہا۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ ملک عرب سے ایک شہزادہ آیا اور اسے اپنی شہزادی بنا کر لے گیا۔ اب دونوں اپنے دیس میں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ ہوں۔ ثروت رانی نے نیند سے لدی پلکیں بمشکل اٹھائیں ، اے !!۔۔ ی بے ایمانی نہیں چلے گی، شہزادے نے رانی کے گدگدی کی، ۔۔ یوں آس کا دیا جو شہزادی نے دل کی دہلیز پر جلا رکھا تھا کہ۔۔۔ بہت دیر ہوگئی ہے ، تھکے ہوئے ہوں گے ۔۔ خواہش کے ایک تند جھونکے سے بجھ گیا۔
ثروت ۔ ثروت رانی کو راتیں جس قدر طویل ، جس قدر خوفناک لگا کر تیں، دن اس قدر رنگین روشن محسوس ہوتے، ۔۔ خیر الدین ایک ہنس مکھ یا رباش آدمی تھا، بے شمار تو اس کے دوست تھے اور سب ہی بہت ”خاص“ تھے ۔ اسی قدر اس کی چاچیاں ، مامیاں، خالائیں اور بہنیں و بھابھیاں تھیں، جو سب ہی ثروت کو پیار سے موم کی گڑیا کہا کرتیں۔ ساتویں پاس خیر الدین کی دوستی اگر مستری فتوخان اور رنگریز جمن شاہ سے تھی تو اس کا آنا جانا ماسٹر اسلام دین کے گھر بھی تھا، جن کی بیگم سکول کی مس تھیں، ثروت اور خیر الدین کی دعوت نسیم جمالی صاحب کے گھر میں ہوئی تھی جنکی دو بیٹیاں کالج میں پڑھائی تھیں اور بیٹا بینک میں افسر تھا ۔ اور ۔ ثروت کے سیکھنے کا عمل و رفتار حیرت انگیز تھی۔ اس نے محبوب حسینی کی ماں سے بگھارے بیگن پکانے سیکھنے تو خیر الدین انگلیاں چاٹتا رہ گیا ، بے بیاسے جھینگا پلاﺅ پکانا سیکھا تو اس روز خوشبو نے دروازے پر ہی خبر دی کہ آج کیا پکا ہے ؟ اب شیر خرماوہ نہ صرف اچھا پکا سکتی تھی بلکہ کانچ کی کٹوری میں ڈال کر بڑی نفاست سے چمچ سے کھا بھی سکتی تھی۔ پہلے خیر الدین اسے کہیںلے کر جاتا تو وہ چادر لپیٹے خبط الحواسی کی مکمل تصویر بنی ہوئی کبھی چادر کا کونا مروڑتی کبھی پرس گراتی اور کبھی خود ڈگمگاتی لیکن اب ۔۔ ۔اب وہ گھر آئے مہمان سے بڑی ادا سے مسکرا کر پوچھتی ٹھنڈا یا گرم؟؟ ۔۔ کیا پئیں گے آپ؟؟ ٹی وی دیکھ کر لوگوں سے ملتے ملاتے اب اسے گھر کو سجانے ، اپنے آپ کو سنوارنے کے ڈھنگ آتے جارہے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے کھلنے والا گلاب بنتی جارہی تھی ۔۔۔مہکتی لچکتی جھومتی لیکن۔۔۔ یہ ساری جولانیاں جلوت کے لیے تھیں ، خلوت کی گھڑیاں ایک عذاب کی طرح اس پر نازل ہوتیں۔ ۔۔ اب کبھی مغرب کے فوراً بعد کھانا کھا کر اپنا بے سدھ سو جانا یاد کرتی تو بے اختیار اماں یاد آجاتیں۔۔ اف اماں!! تمہیں کیا پتا، میںکس مصیبت میں ہوں، وہ شب کی آنے والی سفاک ساعتوں کی دہشت سے سہمتے ہوئے سوچتی ۔۔ ادھر ٹی وی پر خبرنامہ شروع ہوتا اور آس پاس کی دوچار لڑکیاں بچے عورتیں یوں اس گھر سے نکلتیں جیسے سینما ہال سے شو ختم ہونے کے بعد تماشائی نکلتے ہیں اور ۔۔۔ چند منٹ بعد ہی خیر الدین کی دستک سنائی دیتی ۔ لوگوں کے شور چہل پہل کے بعد یک دم ہوجانے والے اس سناٹے میں وہ جانی پہنچانی دستک مسرت اور خوف کا ایک اندر سے بے چین کر دینے والا پر اسرار ساغبار اس کے دل پر بکھھیر دیتی ۔ اور وہ بانہوں کے حلقے سے اپنی گردن کبھی شوخی و شرارت کے معصوم مظاہرے اور کبھی دودھ ابلنے ، سالن یا روتی کے جلنے کا بہانہ کرکے آزاد کراتی، ۔۔۔وہ خیر الدین کی خواہشوں کی برکھا میں پور پور بھیگا ہوا من تھا اور وہ ۔۔ ننھھی سے تتلی ۔۔ وہ تو ابھی رنگوں ، خوشبوﺅں کے جاننے کے عمل سے ہی گزر رہی تھی اب صبح دیر تک سو کر جب اٹھتی ، ایسے میں اماں کی ڈانٹ پھٹکار تو ایک ننھے سے کانٹے کی میٹھی چبھن کی طرح یاد ضرور آتی مگر یہ یاد نہ آتا کہ کب اٹھ کر اس نے دروازہ بند کیا تھا ؟ کب خیر الدین اپنی دکان چلا گیا تھا ؟۔۔۔ ہاں ،باورچی خانے کے سلیب پہ کبھی پاپوں کا تھیلا ، کبھی ڈبل روٹی انڈے یا باقرخانیاں اور کبھی پوری ترکاری کے تھیلے اسے گنگ کردیتے، سرشار کردیتے ۔ خیر الدین کے ذوق و سمجھ کے مطابق فیشن کا ہر کپڑا ہر چیز ثروت کے پاس خیر الدین کے چاﺅ کی سند کے طور پر موجود تھا۔ ضرورت اور شوق اور فیشن کی ہر بہترین چیز اسے بن مانگے مل جاتی تھی۔ ۔۔ مگر ہر نئی سوغات ، ہر نیا تحفہ تند ہوا کے جھکڑ کا خوف بھی ساتھ لاتا کہ ۔۔ ایسے سخت موسموں سے گریزاں وہراساں تتلی کے حوصلے پست ہوجاتے تھے ۔ہر مرتبہ وہ اس کے گریز ، اس کی پسینے سے تر ٹھنڈی پیشانی کو یوں دیکھتا جیسے کوئی شریر بچہ نیم مردہ تتلی کے پروں کے سارے رنگین چمکدار ذرے اپنی انگلیوں کی پوروں پر چمکتے دیکھ کر متاسف ہو۔۔ لیکن ۔۔۔۔ کیا کوئی تاسف کوئی شرمندگی، کوئی ارادہ قانون قدرت اور فطرت انسانی کو بدل سکا ہے ؟؟۔۔۔۔
وہ ۔۔۔ خیر الدین بہت چھوٹی عمر میں ہی عملی زندگی میں داخل ہوگیا تھا ۔۔۔ اس عمر میں جب لڑکوں کو پکا پکایا کھا کر اگلے آنے والے وقت کے کھانے کی فکر نہیں ہوتی ، خیر الدین کو اس عمر میں آٹے دال کا بھاﺅ حقیقتاً معلوم ہوگیا تھا ۔۔۔اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا تھا ، وہ دن بھر ایسی جگہ بیٹھتا تھا جہاں اس کا واسطہ زندگی کی عبارت ، عورت۔ ہر عمر ہر طبقے ۔ ہر مزاج کی عورت سے روز بار بار ہر وقت پڑتا تھا۔ مکار ، کنجوس ، معصوم ، شاہ خرچ، شریف بدقماش ، ہر مزاج کی عورت کو وہ اس کی چال ڈھال گفتگو بٹوا پکڑنے پیسے نکالنے کے انداز سے پڑھ لیتا تھا۔۔۔۔ اپنی بیوی ثروت کی معصومیت ولاعلمی اسے اندھیرے میں چمکنے والی کرن معلوم دیتی، اس کا بھولپن حبس زدہ کمرے میں ایسا روزن تھا جہاں سے آنے والی ٹھنڈی پر کیف ہوا زندگی اور اس کے حسن کا پتہ دیتی تھی۔ اور یہی احساس تھا جو ہر شب کی جھلاہٹ کے بعد بھی شربت پر بارش بن کر برستا۔ بارشیں زندگی کو نمو دیتی ہیں ۔۔۔ اور ۔۔۔ جو زمینیں جل تھل رہتی ہیں، سرسبز اورزرخیز ہوتی ہیں۔ نہ ہوں تو ماہرین ارضیات اچھنبے و تشویش و تحقیق میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جب تیسرے برس بھی ثروت اپنے کشادہ آنگن میں محلے کی بچیوں لڑکیوں کے ساتھ چھلانگیں مارتی رہی تو بڑی بوڑھیوں کو تشویش ہوئی اور ہوتے ہوتے یہ تشویش جب تحقیق بن کر ثروت تک پہنچی تو پہلے تو وہ سمجھی نہیں اور جب سمجھ لیا تو جی بھر کرنا سمجھی کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ بات ماں بہنیں بتاتیں ، ساس نندیں طعنہ دیتیں تو خود ہی سمجھ آجاتی ہے مگر۔۔۔ اس کم بخت کا ہے کون یہاں جو اسے بتائے سمجھائے۔۔۔۔ بے بیا کی نانی مارے تشویش و محبت کے ادھ موئی ہوئی جارہی تھیں ۔اے تم ہی اسے طریقے سے بتاﺅ، پوچھو، نانی نے ماسٹر اسلام الدین کی بیوی سے کہا۔۔ میں؟؟۔۔۔وہ گھبراگئیں۔ میں کیا کہوں گی اس سے ؟ ۔۔۔ آخر کسی کو تو کہنا ہی ہے نسیم جمالی صاحب کی بیوی نے کہا ، اور قرعہِ فال جمالی صاحب کی بہو فرزانہ کے نام نکلا۔
اگر ایسا نہیں ہوا تو میرا کیا قصور بھابھی؟ ۔۔ ثروت نے معصومیت سے جواب دیا تھا۔
گڑیا بہن ! فرزانہ نے پیار سے اُس کے بال سنوارے ، قصور عموما! اس ضمن میں عورت کا نہیں ہوتا مگر مورد الزام وہی ٹھہرتی ہے ۔۔۔۔
اف ۔۔۔ کیا ہے ؟ اگر بچے نہ ہوں تو کیا قیامت آجائے گی۔
ثروت نے بھابھی فرزانہ کے بے ڈول جسم پر نگاہ ڈالی
بے وقوف لڑکی!!۔۔۔ بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔
فرزانہ چڑہی تو گئی اس کے احمقانہ پن پر۔۔۔۔
بچے خدا کا تحفہ ، گھروں کی رونق ، محبت کا پل ہوتے ہیں۔ فرزانہ نے چادر نما دوپٹہ اپنے اوپر پھیلاتے ہوئے کہا۔۔ خیر الدین تمہارا دیوانہ ہے مگر گزرتا وقت اسے ایک ننھے سے ہنستے بولتے بچے کی تمنا میںکسی اور عورت ایک دوسری بیوی کی خواہش میں بھی دیوانہ بنا سکتا ہے ۔۔ ۔ فرزانہ انتہائی خلوص سے اسے بچوں کی اہمیت بتا رہی تھی ۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنے اور اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کر رہی تھی۔۔۔ اور ۔۔۔ شربت کی ذہنی رو اپنی جاگتی راتوں کی سفاک اور ہولناک گلیوں میں بھٹک رہی تھی۔ دور اسے روشنی کی ننھی سی کرن نظرآئی ، وہ فرزانہ کی طرف بظاہر متوجہ تھی مگر ۔۔ کہیں اور تھی۔۔۔ اس رات ۔۔ خیر الدین کو اس کا انتظار نہیں کرنا پڑا ۔اس دن اس کے سارے کام جلد ہی نمٹ گئے تھے اور ایسا شاید ہی ہوتا تھا۔ ہمیشہ عموماً تو یہ ہوتا آیا تھا کہ خیر الدین کروٹوں پر کروٹیں بدلے جاتا اور ثروت کے کام ختم ہونے میں ہی نہ آتے ۔۔۔ آئی بس یہ برتن دھولوں، آرہی ہوں، ذرا یہ دوائی نالیوں میں ڈال دوں ، کبھی اُسے دھلے کپڑے تہہ کرنے ہوتے اور کبھی ایسا ہی کوئی کام جو خیر الدین کے غصے کا سبب بن جاتا۔ اکثر یہی ہوتا مگر وہ بھی شتر مرغ کی سی حرکت سے باز نہ آتی ۔اب وہ پندرہ سولہ برس کی دیہاتی لڑکی نہ تھی اٹھارہ انیس برس کی سمجھ دارو ذہین عورت تھی ۔مگر وہ دہشت اور اس کے نتیجے میں گریز وفرار کی کیفیت جو پہلے دن اس پر چھائی تھی اب تک ایک گرہ بن کر اس کے شعور و لاشُعور کے درمیان کہیں تیر رہی تھی۔۔۔ یادوںکی کہکشاں دور تک پھیلی ہوتی تھی اور خیر الدین کی روز اول کی سی دیوانگی و گر مجوشی اسے سر تاپا تھکن اوڑھا رہی تھی۔۔۔ خیر الدین جلدی آگیا تھا ۔آج اور وہ خلاف معمول سارے کاموں سے فارغ اس کی ہی منتظر بیٹھی تھی۔
زندگی کے بعض معاملات میں ہر عمر ، ہر طبقے کا مرد اتنا احمق اور عورت اتنی شاطر کیوں بن جاتی ہے ؟۔
ہر عور ت کی طرح شربت بھی فطرتاً یہ ادراک رکھتی تھی کہ عورت کی اک ذرا آراء، ذرا سا اہتمام و توجہ سے مرد سے ہر بات منوائی اور اگلوائی جاسکتی ہے تمہیںبچے کیسے لگتے ہیں؟؟
بچے کسے اچھے نہیں لگتے؟؟۔۔۔۔خیر الدین آج اس سپردگی سے بہت مسرور تھا ۔۔۔ سرشاری کے عالم میں روانی سے کہہ کر چونک اٹھا۔
کیوں؟ کیوں پوچھ رہی ہو؟
بس ایویں۔۔۔ اس نے معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر شاطرانہ انداز میں ٹالا۔ ۔۔ نہیں ایسے یہ کیسے ؟؟؟۔۔۔ ادھر دیکھو!! ۔۔۔ خیر الدین اٹھ بیٹھا۔ شربت کا چہرہ اپنی طرف کیا عجیب سپاٹ چہرہ تھا اس کا ۔بولو ناریار! کیا بات ہوئی؟؟۔۔۔۔خیر الدین نے اصرار کیا۔
تین برس بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگئے ہماری شادی کو اور ۔۔۔۔
۔۔۔ وہ جھجھک اٹک کر بول رہی تھی اور وہ قہقہا لگا کر ہنس دیا ۔
اچھا یہ بات ہے اوہو ۔۔بھئی واقعی ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔
اچھا شربت نے ناز سے ترچھی نگاہ سے مسکرا کر دیکھا ۔اس جیسی چاہت نچھاور کرنے والا تو آس پاس کہیں بھی کسی کا بھی نہ تھا۔۔۔ ہر عورت، ہر لڑکی مجھے رشک سے دیکھتی ہے ۔۔۔ اور میں خود بھی تو ۔۔ ہاں اپنے آپ پر بھی تو رشک کیا جاسکتا ہے ۔۔کبھی کبھی، جب وہ ناز بردار پاس نہیںہوتا تو اس کی باتیں اس کی محبتوں کا جانفرا احساس خوشبو کی مانند ہر پل ساتھ رہتا ہے ، لیکن ۔۔ اس کی موجودگی باعث الجھن کیوں بن جاتی ہے ؟ ۔۔۔ اس الجھن کے جلومیں وحشت اور کبھی کبھی تو نفرت کی حدوں کو چھوتی وحشت کیوں طاری ہوجاتی ہے ؟؟ وہ وحشت ہے؟۔۔ دہشت ہے ؟ ۔۔۔ یا نفرت ہے ؟؟
ہے تو کیوں ہے ؟۔ شربت پہ شعور کے در ایک ایک کر کے گزرتے وقت کی دستک سے وا ہوتے جاتے تھے مگر۔۔۔ ایک اس درپہ ہی کیسا قفل پڑا تھا جو کسی اسم اعظم سے کھلتا نہ تھا۔۔
کیا بات ہے ثروت رانی؟۔۔۔ چپ چپ کیوںہو؟
گزشتہ کئی دن میںخیر الدین یہ بات بے شمار مرتبہ اس سے پوچھ چکا تھا اور وہ آئیں بائیں شائیںکر کے رہ جاتی تھی۔۔ کیا جواب دیتی ؟؟؟ کہ ابھی تو وہ الفاظ کو ترتیب سے جماہی رہی تھی اس کا ذہن سماعت عقل دل سے کچھ تو اس کوندے کی لپک سے ماﺅف ہورہا تھا جو ابھی چند دن پہلے اس کے پردہ ذہن پہ چمکا تھا ۔
زندگی سے بھر پور ہنستا بولتا چلتا پھرتا کو مل تتلی ساوجود ہاتھ لگاتے ہی برف کی سل بن جاتا ہے ؟۔ طغیانی کی شدت میں قدرے دھیما پن آیا تو خیر الدین کو کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا تھا ۔۔۔ کیوں؟؟ ۔۔ اگر وہ یہ ادراک کر لیتا تو شاید اسے بھی بتاتا کہ احمق لڑکی اگر شگوفے کی چٹک ، تتلی کی اڑان ، صدف میں گہر، بارش کا پہلا قطرہ ، اور اس قطرے کو جذب کرنے والی مہکتی مٹی اگر حقیقت ہے برحق ہے تو یہ سب بھی ہے ۔ لیکن۔۔۔ خیر الدین کے گمان میں بھی نہ تھا کہ کس شہر آسودگی کی طلب اسے دیوانہ بنائے ہوئے ہے اور جنون طلب میں اس نے جو راستہ منتخب کیا ہے سودوزیاں کے بازار میں کھڑے ہو کر سفاک ونکیلے لمحوں سے بچنے کے لیے کس موم کے گھروندے کا سودا اس نے کیا ہے اور جب اس نے سہج سہج بڑے درد مندانہ دلبرانہ انداز سے اسے بتایا تو گنگ ہوگیا ۔ اس کی ضد اس کی دلیلوں اس کے دکھائے ہوئے مسقتبل کے خوفناک اور حسرتناک مناظر سے خیر الدین ہار گیا۔لیکن ۔۔ اپنی دریافت پر شربت جس قدر شاد کام ومسرور تھی خیر الدین اسی قدر پژمردہ شرمندہ وخفا خفا سا۔
سرخ کا مدار جوڑے میں ملبوس اس بنگالی دوشیزہ کو حجلہ عروسی میں پہنچا کر اس کے سانولے رخساروں پر غازے کی تہ اور موٹے موٹے ہونٹوں پر لالی کا پچارا سا پھیر کر وہ فیروزی جھلملاتا دوپٹہ سنبھال کر فیروزی چوڑیاں چھنکاتی پل بھر کو سٹیل کی الماری کے قدم آدم آئینے کے سامنے ٹھٹکی۔۔۔۔صحت مندی سے چمکتے گلابی گالوں پہ سونے اور جھوٹے نگینوں جڑی آرٹیفیشل گولڈ سے سجی مخروطی انگلیاں پھیر کر دھیرے سے مسکرائی اور اٹھلاتی آنچل ، گراتی برابروالے کمرے میں تخت پہ چت دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے ، چھت تکتے خیرو کے پہلو میں آکر بیٹھی تو غرور حسن سے اس کا انگ انگ مسکرا رہا تھا، مگر خیرو نے جنبش تک نہ کی ، پلکیں تک نہ جھپکیں۔
خیرو!!۔۔ وہ چند لمحوں کی خموشی کے بعد اس کے گریبان کے بٹنوں سے کھیلتے ہوئے گویا ہوئی۔ اٹھو ناں!!! دلہن انتظار کر رہی ہے ۔
وہ ایک جھٹکے سے یوں اٹھا کہ وہ لڑ کھڑا کر گرتے گرتے بچی، خیر الدین نے اس کے گداز بازوﺅں کو اپنی فولادی انگلیوں میں بے دردی سے دبوچ لیا اور وحشت بھری آنکھیں اس کی کجرائی ، نشیلی آنکھوں میں ڈال کر رندھی آواز میں بولا ۔ ۔۔ ۔سچ کہہ ثروت رانی!! تجھے کوئی افسوس نہیں؟؟؟ کس بات کا ؟؟ اس نے کسمسا کر نظریں چرائیں۔
کیوں کیا ہے تو نے یہ سب ؟ کیوں بے بس کردیا ہے مجھے ؟؟ کیوں؟ شرمندگی تھی، پچھتاوا تھا ؟؟ ۔۔ جانے کون سا احساس تھا جو اس پر کوڑے بن کر برس رہا تھا اور وہ ہانپ رہا تھا۔۔۔۔
میں نے تو کبھی تجھے الزام نہیں دیا کبھی بھی کوئی خواہش نہیں کی ، مجھے نہیں چاہیے تھے بچے پر؟۔۔۔ پھر کیوں؟؟
پھر۔۔۔ پھر کچھ نہیں۔۔۔ وہ دھیرے سے مسکرائی ۔
ان آنکھوں میں جگر جگر کرتے ہیرے اب بھی تاب دار تھے ، ہونٹوں پہ اب بھی بہار کے پہلے شگوفے کی سی دلکشی تھی ۔۔۔ وہ اس کو دونوں بازوﺅں سے تھامے اس کا چہرہ تکتا رہا ۔۔۔ تم واقعی پتھر ہو۔۔۔ وہ حسرت سے بولا۔۔ لیکن میرے دل کی ملکہ تم ۔۔۔ صرف تم رہو گی ہمیشہ۔۔۔۔
وہ پلٹ کر چلا بھی گیا اور شربت زمین پہ گری اوڑھنی سے بے خبر تخت کے کونے پہ ٹکی دیر تک خیال کی وادیوں میں کھوئی رہی۔۔۔۔ چونکی توجب۔۔۔ جب اس سہمی سہمی کم گوو کم شکل بنگالن کا وجود ایک دعوت دیتی بوتل کی طرح توبہ شکن نظر آنے لگا اور خیرو کا اس کے کمرے میں ٹھہرنے کا دورانیہ طویل ہونے لگا۔
اب بھی خیرو نو بجے کے بعد گھر میں داخل ہوتا تو ہاتھ میں تھامے تھیلے لفافے شربت کو ہی تھما تا ، صبح دکان جانے سے پہلے دن بھر کا خرچ وہ شربت کی ہی ہتھیلی پہ رکھتا ، آتے جاتے حسبِ معمول وارفتگی شوق کی اسناد وہ اب بھی دے دیتا ۔۔ مگر وہ ۔۔۔ چونک اٹھی تھی جب اس رات وہ بھوک سے بے حال ہوتے ہوئے ایک نوالہ منہ میں ڈالتی بے فکری سے خیرو اور لیلیٰ کو بلانے کمرے تک پہنچی ہی تھی کہ چوڑیوں کی کھنکھناہٹ دھیمی ہنسی اور سرگوشیوں کے کچھ ایسے جادو صفت گھنگھر وتھے کہ وہ نیند سے گویا چونک اٹھی،
اچانک محسوس ہوا کہ پیٹ حلق تک بھر گیا ہے ۔۔۔ اور کیسا بوجھ تھا جس سے دل دبا جارہا تھا بند ہوا جارہا تھا ، من من بھر کے پیر گھسیٹتی وہ اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ بند کرکے دھم سے بستر پر گری تو نہ تو خیرو کی دستکیں اسے اٹھا سکیں نہ پیار بھر آوازیں۔۔۔ وہ سن پڑی رہی یوں جیسے بھرے بازار میں کوئی لٹ جائے اور گنگ ہوجائے ۔وہ کئی دن یونہی گنگ سکتے کی سی کیفیت میں لیلیٰ کے سیاہی مائل زرد ہونٹوں کو گلابی سے گلابی تر ہوتے اس کے سانولے رخساروں پر کلیاں چٹکتے دیکھتی رہی ، شربت کی باری والے دن خیرواتنا تھکا ہوا ہوتا تھا کہ وہ کھانا کھاتے ہی اونگھنے لگتا۔ وہ برآمدے و کمرے میں چکراتی پھرتی مگر اس روز ہی ٹی وی پر کوئی ایسا دلچسپ پروگرام ہی اونگھنے لگتا وہ برآمدے و کمرے میں چکراتی پھرتی مگر اس روز ہی ٹی وی پر کوئی ایسا دلچسپ پروگرام ہوتا کہ وہ وہیں نیم دراز رہتا اور لیلیٰ بار بار ساری کا آنچل سنبھالتی اس کے پیردا بے جاتی یا سر میں تیل کی مالش کیے جاتی۔
لیلیٰ روز بروز کھلتا ہوا پھول اور شربت شعلہ جوالہ بنتی جارہی تھی ۔کبھی جھاڑو صحیح نہ دینے پر لیلیٰ کو جھاڑ دیتی اور کبھی چاول زیادہ پکالینے پر ۔کبھی ہر سالن میں ہلدی کی زیادتی پر وہ جھلاتی اور چیختی برتنوں کی اٹھا پٹخ کرتی جبکہ لیلیٰ سرجھکائے کام میں مگن رہتی یا نظریں نیچی کیے ہاتھ مسلتی رہتی اور پھر۔۔۔ دو قطرے ان ہاتھوں پر گرتے اور گم ہوجاتے۔
خیرو دیکھتا سنتا ہنس کر ٹال دیتا۔
اس دن کیا ہوا تھا ؟ ۔۔کچھ بھی تو نہیں ، ذرا سی بات تھی ، پھیلی تو قصے کا اختتام بن گئی۔
گرمی بہت تھی، شربت کے کمرے کی ایبٹاس شیٹ والی چھت اور لیلیٰ کے کمرے کی ٹین کی چھت یکساں تپ رہی تھی ۔دوپہر ڈھائی بجے سے جولائٹ گئی تو شام ہوگئی اندھیرا پھیل گیا ، شربت دوسری مرتبہ نہا کر ڈھیلا ڈھالا وائیل کا کرتا شلوار پہن کر بالوں کو جوڑے کی شکل میںلپٹ کر آنگن میں آبیٹھی ۔سوا دو گز کا ہلکا سا دوپٹہ بھی بوجھ لگ رہا تھا، اس نے اتار پھینکا ۔۔۔ لیلیٰ باورچی خانے کا کام ختم کر کے نکلی تو وہ بھی نہانے چل دی، اندھیرا گہرا ہونے لگا تو شربت نے لالٹین جلا کر باورچی خانے کی کھڑکی میں لگی کیل پر اٹکادی دھیمے دھیمے مدھر سروں میں گنگناہٹ پہ شربت نے پلٹ کر دیکھی لیلیٰ نہا کر برآمدے میں آکھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔ لالٹیں کی روشنی سیدھی اس پہ پڑ رہی تھی۔ جانے کن خیالوں میں گم تھی وہ اور بنگال کے آسمان پر لہراتی ساری سیاہ گھٹاﺅں کو جھٹکتے ہوئے وہ کوئی بنگلہ گیت گنگنا رہی تھی۔ چمکدار پٹ سن کی سی رنگت عنابی سوتی ساری میں دمک رہی تھی سیاہ بالوں کو جھٹکتی شانے تک عریاں سنہری سنہری بانہیں بڑی ہی توبہ شکن تھیں۔ لیلیٰ نے بغیر بلاوز کے خالص بنگلہ سٹائیل میں ساری پہنی ہوئی تھی۔ اس کا پورا جسم بڑے قاعدے سے ساری میں لپٹا ہوا تھا ۔ سیاہ بالوں سے کھیلتی اوپر نیچے اٹھتی گرتی بانہیں مدہم روشنی میں اسے دن بدن گداز ہوتے جسم مدھ بھری آنکھوں و ہونٹوں کے ساتھ خواب نگر کی اپسرا بنائے دے رہی تھی۔۔۔
شربت کے وجودمیں جانے کس تہہ سے جوار بھاٹا اٹھا اور اسے بہا کر لے گیا اور وہ خود۔۔۔ جو ہلکے رنگ کی وائیل کا باریک کرتا پہنے بیٹھی تھی لپک کر اتھی اور عنابی ساری کا آنچل لیلیٰ کے کاندھے سے ایک جھٹکے سے کھینچ لیا۔۔ یہ بے غیرتی یہاں نہیں چلے گی، ننگے پھرنے کے شوق ابھی پورے نہیں ہوئے ؟؟؟ ۔ بے غیرت بے شرم ۔۔ شربت دیوانوں کی طرح اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔ اس کی ساری کھسوٹ رہی تھی اور وہ بوکھلا بوکھلا کر اپنا آپ بچا رہی تھی ۔۔ تب ہی خیرو کی گرج سنائی دی وہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا ۔ پہلے تو وہ بھی حیران پریشان کھڑا دیکھتا رہا پھر گرج پڑا۔
شربت! بس بہت ہوگیا ، چکر کیا ہے آخر؟ چاہتی کیا ہے تو ؟؟ اس نے شربت کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ شربت ہانپ رہی تھی اور میرے دل کی ملکہ ، شہزادی ثروت ثروت رانی کہنے والا کس بے رخی سے تو تراق پر اتر آیا تھا، بے مہر سرد لہجے نے اچانک ہی شربت کو بونا بنا دیا۔ کیا ہے ؟ آخر چاہتی کیا ہے تو ؟؟
وہ پھر بولا۔۔۔ میں مجھے الگ گھر چاہیے شربت اپنے گھٹتے دھنستے وجود کو اوپر ، اور اوپر کرنے کی کوشش میں چلائی، میں اس بے غیرت ننگی بنگالن کے ساتھ نہیں رہوں گی ۔
اس بے غیرت کو میںنہیں ، میرے ہزار منع کرنے کے باوجود تو خود اس گھر میںلائی ہے ۔سدا دھیمے نرم لہجے میں مخاطب ہونے والا خیر الدین یکدم وحشی بن گیا۔۔۔ اس کے ساتھ اب تو نہیں رہ سکتی تو نہ سہی ۔۔۔ جا ۔۔۔ اور تب۔۔۔ وہ تین زندہ الفاظ جو عورت کے لیے موت کے پیغام سے زیادہ ہولناک ہوتے ہیں سن کر عجیب بات یہ ہوئی کہ اس وقت وہ نہ بلکی بلکہ نہ روئی نہ تڑپی اوراب۔۔ وہ شربت بی بی ۔۔ معزول رانی ’اپنا گھر “ کے ایک کونے میں سمٹی ، آنسوﺅں کی روانی میں سوچ رہی تھی درست تو کہتا تھا خیرو۔۔
موم کے گھر میں شیشے کا سائبان تو میں نے خود تانا تھا۔
کانچ گھر کی باسی ہو کر پتھروں کا کھیل میرا ہی تو شوق تھا

پھر اب شکایت کس سے اور کیوں۔۔ کہ موم کو تو پگھلنا ہی تھا، شیشے کا نصیب تو ریزہ ریزہ ہونا ہی ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*