لفظوں کا ایک دوسرے سے ملنا محبت ہے ۔
نہیں!
دل دھڑکنے کانام محبت ہے
نہیں!
پانی بہہ جانے کا نام محبت ہے
نہیں!
بھوک مٹ جانے کا نام محبت ہے
نہیں!
رات بھر نیند سے بیداری کا نام محبت ہے
نہیں!
ستاروں کی چمکتی کرن کانام محبت ہے
نہیں!
ماکند لیٹی ستاروں کو دیکھ رہی تھی۔ اسے لڑکپن کی دنیا میں پاﺅں رکھے کچھ دن ہی ہوئے تھے ۔ دوسرے لڑکیوں کی طرح ماکند بھی کھلے آنکھ خواب دیکھ رہی تھی۔ جب وہ دوسری جانب پلٹی تو جستجو کرنے لگی ، دلہن کو لال دوپٹہ کیوں پہنایاجاتا ہے ؟ اس کی بڑی بہن کچن میں روٹی پکا رہی تھی ۔ اس کی بڑی بہن حوری اس کے سوالات سے بیزاری ظاہر کرنے لگی۔ ماکند نے پھر پوچھا حوری کوئی آپ کو گھور گھور کے دیکھے اس کا کیا مطلب ہے ؟ ۔حوری روٹی توے پر رکھ کر ماکند کو غصے سے دیکھنے لگی، لیکن خاموش رہی۔ ماکند کی آنکھیں ستاروں پر ٹکی ہوئی تھی۔
حوری ! شادی کیسے ہوتی ہے ؟۔
حوری روٹی توے سے نیچے رکھ رہی تھی کہ خاموش ہو کر خیالوں میں کھو گئی۔ ہاتھ توے پر رکھی روٹی پر تھے اور آنکھیں چولہے کی آگ پر ۔ لکڑیاں جل رہی تھی آگ نے توے کے گرد قبضہ جمائے رکھا تھا کہ اچانک وہ چونک گئی توے کی گرمی نے اس کی انگلیوں کو جلادیا اور توے پر رکھی روٹی بھی جل گئی۔ حوری نے جلدی سے روٹی توے سے نیچے رکھی اور اپنی انگلیوں پر مٹی مسلنے لگی اور ماکند کو دیکھتی رہی ۔کہیں وہ مجھے دیکھ تو نہیں رہی ۔ لیکن ماکند ستاروں کے ساتھ مشغول تھی حوری پھر سے خیالوں میں گم ہوئی شادی کیسے ہوتی ہے َ؟ لڑکیاں کیوں اِس دن کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ ساری زندگی بنا سنگھار کے کیسے گزارتی ہیں۔ وہ خود کو کیوں نہیں سنوارتیں ، کب آئے گا وہ دن جس دن وہ خود کو سنوار یں۔
کب وہ دن آئے گا، کئی سالوں سے یہ سوال خود سے کر رہی تھی۔ لیکن اس کا جواب خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ حوری اچھی خوبصورت وخوش مزاج لڑکی تھی۔ لیکن اس کے لیے رشتے انہیں آئے ۔ حوری اپنے چاروں بہنوں سے بڑی تھی۔
روٹیاں گھر میں رکھ کر بغیر کھانا کھائے حوری سوگئی ۔تھوڑی دیر بعد اُٹھ کر الماری سے اپنی شادی کے لیے رکھے گئے کپڑوں کو نکال کر دیکھنے لگی۔ دو پٹوں کے کناروں کو چوہوں نے کھا لیا تھا ۔ کچھ قمیصوں کی سلائی بھی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ حوری الماری بند کر کے اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کمرے کی خاموشی ، گھڑی کے ٹک ٹک کی آواز ، نیند اُس کے پلکوں پر دستک دے رہی تھی کہ پھر کنوارے دل کی خواہشات نے حملہ کردیا۔ وہ پھر خیالوں میں کھو گئی۔ کیسے ہوگی شادی ؟ اس خیال میں تھی کہ باہر بلیوں کی آواز نے اسے پریشان کیا۔ تو اُٹھ کر بلیوں کو بھگانے لگی پھر آکر سو گئی ۔ تھوڑی دیر بعد پھر بلیوں نے شور مچایا ۔ وہ پھر اُٹھ گئی اس کی امی بھی نیند سے بیدار ہوگئی۔ حوری کو جاگتے دیکھ کر کہنے لگی: حوری ! چھوڑ دو اِن بلیوں کو ان کے جینے کا موسم ہے ۔ یہ اپنے موسم میں اسی طرح جاگ کر لوگوں کی نیند خراب کرتے ہیں۔ سوجاﺅ۔
حوری کے دماغ میں ایک اور بات نے دستک دی ، میں بھی جوان ہوں میرے جینے کا موسم کب آئے گا ۔ خود سے سوالات کرتے ہوئے سو گئی ۔ صبح اُٹھ کر گھر کے کاموں میں مشغول ہوگئی۔ دوپہر کے وقت ماسی مُری چلّاتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی ماسی مُری نے حوری کے اماں کے کانوں میں دو باتیں کیں۔ ستی کے چہرے کی تھکاوٹ مسکراہٹ میں تبدیل ہوگئی۔ ماسی مُری اونچی آواز میں کہنے لگی “ وہ شام تک آئیں گے تیاری کر لو۔ حوری یہ سن کر خوشی سے نڈھال ہوگئی۔ اور جلدی گھر کے کام مکمل کر کے اپنے ہاتھ اور پاﺅں کا میل پتھر سے رگڑنے لگی۔ صاف پلیٹ میں جلتے ہوئے کوئلے ڈال کر ہونٹوں پر لوبان چھڑک کر الماری سے ایک جوڑا کپڑا نکالا، بن سنورنے کے بعد اسی انتظار میں بیٹھی تھی کہ کب وہ لوگ آئیں گے۔ کیسا ہوگا میرا منگیتر ؟؟ جُل (مایوں ) میں کیسے بیٹھتے ہیں؟ میری سہیلیاں جُل میں مجھے ستائیں گی میں کیا محسوس کروں گی ۔ لوگ آگئے ۔ ماسی مُری کے ساتھ تین خواتین آئیں۔حوری باور چی خانے میں بیٹھی کھڑکی سے ان عورتوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہنے لگی۔ یہ رنگ وصورت میں برے نہیں ہیں۔میرا ہونے والا منگیتر بھی اُنہیں کے جیسا ہوگا ۔ اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن ماہ رنگ بھی باورچی خانے میں حوری کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ ماکند باورچی خانے سے چائے لے کر مہمانوں کے سامنے رکھ کر واپس آئی ۔مبارک ہو ! مبارک ہو ! کہہ کر فوراً باہر چلی گئی۔ حوری مسکرا کر شرمانے لگی۔ ماکند واپس باورچی خانے کے اندر داخل ہوئی ۔پھر سے کہنے لگی مبارک ہو! ماہ رنگ آپ کو بہت زیادہ مبارک ہو آپ کا رشتہ ہوگیا ہے ۔ یہ بات سن کر حوری کے پاﺅں کے نیچے سے زمین ہل گئی۔ اس کے دل میں حسدوکینہ اُبھرنے لگا ۔وہ ماہ رنگ کی طرف اس طرح دیکھنے لگی کہ اس کو ابھی اٹھا کر جلتے ہوئے چولہے میں پھینک دے ۔پھر اس نے سوچا نہیں ؟ ؟ امی ا س طرح نہیں کرسکتی ۔بڑی بیٹی بیٹھی ہے چھوٹی کو کیسے دے گی ۔تھوڑی دیر بعد اس کی امی آکر مارہ رنگ کے گال چومنے لگی اور اسے نیک دعائیں دینے لگیں ۔ حوری نے اپنی امی کو خوش دیکھ کر اپنی خواہشات کو دفن کرنے کا سوچا ۔ حوری کی آنکھوں میں بے شمار سوالات اُبھرنے لگے لیکن کسی نے بھی اس کی آنکھوں کی جانب دیکھنے کی کوشش نہیں کی ۔
رات کو بستر پر لیٹی ہوئی حوری کو نیند نہیں آرہی تھی ۔اُٹھ کر شیشے کے پاس گئی اور اپنی شبیہہ کو دیکھنے لگی ۔ اس طرح اس کی نظریں سر کے سفید بالوں پر پڑیں اُسے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔
[sharethis-inline-buttons]