یہ شہر شہرِ نا رسا ہے

یہ شہر بھی شہرِ نا رسا ہے
کہ اس کے اطراف خواہشوں کا مہیب جنگل سُلگ رہا ہے
کہ اس کی گلیوں میں ہر صداقت بریدہ پا ہے
کہ نوحہ گر ہیں یہاں کے باسی
محبتوں کے کٹھن سفر میں
وجود انکے بکھر چکے ہیں
یہ لوگ وہ ہیں
جو راستوں ہی میں مر چکے ہیں
جو اپنے خوابوں کا بوجھ لادے
فنا کی دلدل میں دھنس چکے ہیں
مگر —! وہ میں ہوں
یہ خواب میں نے بچا رکھا ہے
کہ میرے بچے یہ خواب دیکھیں
کہ شہر سارا ہنروروں کی ہے دسترس میں
مہیب جنگل عدن کا گلزار بن چکا ہے
کہ سارے صدق و صفا کے راہی
صراطِ غم سے گزر چکے ہیں
وہ خواب دیکھیں
وہ بزمِ حسنِ یقین دیکھیں
وہ جشنِ فتحِ مبین دیکھیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*