تم اپنے جنازے پر کون سا گیت سننا پسند کرو گے

امریکہ کی ریاست kentuckyکے شہر louisvilleمیں ایک بہت خوبصورت کشادہ کھڑکیوں والی Y.M.C.Aکی عمارت میں ایک جمنازیم ہے ۔ یہ جمنازیم اور کلب کی ملی جلی شکل ہے ۔ چونکہ یہ لوگوں کی مل بیٹھنے اور باتیں کرنے کی خواہش کو پورا کرنے کی spaceبھی ہے ۔
خوبصورت کشادہ کھڑکیوں کے باہر گھنا جنگل لہرا رہا ہے ۔ صاف شفاف آسمان کی نیلی وسعتیں برطرف بکھری ہوئی ہیں ۔ دور تک جاتی نظر نیلے اور سبز رنگ کے اس دل زیب آہنگ میں سرور رہتی۔
اسی gymمیں ایک مشین پر کھڑی میں سوچ رہی تھی کہ انسان کا جسم بھی اپنے آپ کو خوبصورت رکھنے کے لیے اتنی ہی محبت مانگتا ہے جتنا کہ اس کا دل اور دماغ۔
دل اور دماغ کو خوبصورت رکھنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے ۔ میں سوچنے لگی ۔ کیا اُنہیں مسلسل حسن کی تخلیق اور توصیف میں مصروف رکھنا ہوگا؟ چونکہ فن پارے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ انسان کے دل و دماغ نے صدیوں سے اپنے آپ کو حسن کی تخلیق اور توصیف میں مصروف رکھا ہوا ہے ۔ تخلیق اور توصیف کی اس انسانی صلاحیت نے اپنے اظہا رکے لیے راہیں منتخب کیں۔ ایک راہ گیت لکھنا بھی ہے ۔
انسان صدیوں سے اپنی دلفریب کیفیات اور کٹھن حالات کو گیتوں میں سمونے کی کوشش میںمصروف رہا۔ ہر دور کے گیت اس زمانے کے انسان کی روح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاریخ تو مورخوں نے لکھی لیکن گیت گانے اور لکھنے کی کوشش نے انسان کے بے شمار اَن کہے جذبات کے اظہار کو بھی ممکن بنایا۔ متبادل نقطہ نظر کے اظہار کو بھی گیتوں نے ممکن بنایا۔ ہجر اور ہجرتوں کی داستان گیتوں نے لکھی۔ جبرت ، محبت ، توصیف حسن، دوری ، کامیابی ، ناکامی ، مسرت ، دکھ کی متنوع اور عجب داستانیں گیتوں میںرقم ہوئیں۔ انسانیت اور اقدار کی ناقابل شکست داستانیں گیتوں میں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں ۔
میں یہی سوچ تھی کہ میرے کانوں میں ایک خوبصورت آواز میں country musicکے آہنگ پر کسی گیت کے بول گونجے ۔ یہ گاتی آواز gymکے اس ماحول میں ایک ترنم، ایک الاپ کی طرح گونجی ۔
مجھ سے دو چار مشینیں دور ایک گھنے سفید بالوں سے بھرا سر مشین کے rhythmمیں اپنے گیت کو شامل کر کے لہرا رہا تھا ۔ اسکے ہاتھ مشین کے ہینڈل پر رکھے کسی Drumکے بول دے رہے تھے۔ اس کی ٹانگیں گیت کی تال کے مطابق ڈھلنے کی کوشش میں کچھ فاصلے سے مجھے رقاص کی ٹانگیں لگ رہی تھیں۔ یہ گویا اور رقاص بابا کسی بھی سُر اور تال کے سحر سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھا۔مست اور مگن گویا اور رقاص بابا ہال کے ہجوم میں ایسی شخصیت بن کر ابھرا کہ اس سے نظر اور کان ہٹانے مشکل ہو رہے تھے ۔ کان اور آنکھ کی بھرپور توجہ گویے اور رقاص بابے پر ہی مرکو زہوگئی۔
گویا اور رقاص بظاہر ہر ایک سے لاتعلق رہتا میں اس کی بیتی زندگی کو تصور میں لانے کی کوشش کرتی ۔ میرا کتھائیں سوچنے والا دماغ اس کی زندگی کی کتھا سوچنے میں مصروف ہوگیا۔
جوانی میں وہ ایک حسین انسان ہوگا۔ (حسن کی دیوی اب بھی اس سے لاتعلق نہیں تھی) امکان یہی ہے کہ کسی ارکسڑا کا حصہ ہوگا یا پھر تنہا اپنے ساز کی دھن پر گاتا ہوگا۔ موسیقی سے محبت اسے جانے کہاں کہاں دھنوں اور گیتوں کی تلاش میں لے گئی ہوگی ۔ گو یے بابے کی گیتوں اور دھنوں سے محبت دیکھ کر میں پھر اپنے پسندیدہ سوال کا جواب تلاش کرنے لگی۔
انسان گیت کیوں لکھتا ہے ؟ کیوں گنگناتا ہے ! کیوں گاتا ہے ؟ کیوں گیت کے بولوں کو رقص میں ڈھالتا ہے ؟
کیا وہ اس لیے گیت لکھتا ہے کہ اپنے آپ کو باور کرائے کہ میں مصروف جسم نہیں ہوں ۔ میری ایک روح بھی ہے جو اپنے آپ کو لافانی سمجھتی ہے ۔ لافانی اقدار کی خالق سمجھتی ہے ۔ گیت انسان کے لافانی ہونے کے احساس میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔
گیت شاید اس لیے بھی لکھے جاتے ہیں کہ انسان اپنی انفرادیت کے احساس کے ساتھ جیے۔اس کے جذبات اور اُن کے اظہار کی صلاحیت اُسے آزاد انسان ہونے کا احساس دے رہے ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں پر غلامی جس بھی شکل میں مسلط کی گئی اُنہوں نے بھی گیت لکھے۔ دھنیںبنائیں۔ اُن دھنوں کے آہنگ پر رقص کیا اور پیغام دیا کہ انسان کی روح آزاد ہے ۔ آزاد رہنے کی کوشش جاری رکھے گی آزاد رہے گی ۔
گوتا اور رقاص بابا اپنے آپ کو مگن رکھے ہوئے تھا ۔ آزاد تھا۔ بامعنی تھا۔ لافانی ہونے کے احساس میں جی رہا تھا ۔
ٍ گویّا بابا جس دن نہ آتا میری آنکھیں اور کان اُسے تلاش کرتے۔ جس دن وہ ترنم میں مست آجاتا میں نزدیک ترین مشین کو استعمال میں لانے کی کوشش کرتی۔ مجھے علم ہی نہ ہوا اور میں دل ہی دل میں اُس کی دوست بن گئی۔ میرے دل میں گویے بابے کے لیے خاموش محبت بیدار ہوئی۔
جن لوگوں کے ساتھ یہ اُٹھتا بیٹھتاہوگا ، دُھنیں سنتا ہوگا، رقص کرتا ہوگا، گیت لکھتا اور گاتا ہوگا۔وہ نہ جانے اس سے کتنی بھرپور محبت کرتے ہوں گے ۔ گویّا بابا اب بھی اپنے حواس اور احساس کی تازگی میں مست تھا شاید اپنے تخلیقی ماضی کی یادوں میں مسرور تھا تخلیق شاید اب بھی جاری ہو۔
میرا جی چاہتا کہ کبھی یہ بابا اپنے تخلیقی سفر کی داستان مجھے سنائے ۔ شاید کسی پرندے کی خوبصورت آواز نے اس سے کوئی دُھن بنوائی ہوگی ۔ فطرت کی رنگا رنگ آوازوں اور منظروںنے اسے گیت لکھنے پر اُکسایا ہوگا۔ جانے کہاں کہاں کن کن انسانوں کا ہم رقص آتا ہوگا۔ اس کے کانوں نے انسانوں کی کیسی کیسی داستانیں سنی ہوں گی ۔
اس کی آنکھیں بے پناہ وسعتوں اور چہروں کو دیکھنے والی آنکھیں تھیں۔ اس کے دل نے بے پناہ حسن دیکھا ہوگا اور بھر پور محبت کی ہوگی۔ شاید اسے بھی کچھ حسین چہروں اور مقناطیسی آوازوں نے اپنی طرف کھینچا ہوگا۔ دنیا تو محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتی ہے ۔ گویے بابے کی Love Stories سننے کو دل جاہا پر ہمت نہ ہوئی۔
بہت جی چاہتا کہ کبھی یہ گویّا بابا اپنی داستانِ حیات سنائے ۔ (بہت کم لوگ ہیں جن کی داستانِ حیات سننے کو دل چاہے) اپنے کن کن کارناموں پر فخر ہے جو وہ دنیا اور اپنے دوستوں کے سامنے خوشی اور فخر یہ مسرت کے ساتھ پیش کرسکتا ہے ۔ کن غلطیوں پر شرمسارہے ۔ کن یادووں کے سہارے وہ اس مسرور مستی کی کیفیت کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ میرا اندازہ تھا کہ گویے بابے کے پاس بتانے اور سنانے کے لیے بہت قصے ہوں گے ۔ لیکن بابا صرف گیت ہی سناتا تھا ۔ سب سے لا تعلق اس جوگی بابے کے پاس اپنے آپ کو اور پھر جیسے کئی لوگوں کو سنانے کے لیے گیت ہی تھے۔
کچھ دن ایسے ہی بیتے گویّا بابا گیت گا تا رہا ۔ دازش کرتا رہا۔ میں اسے سننے کی خواہش ، اسے دیکھنے کی خواہش دل میں لیے اس کی نزدیک ترین مشین کو اپنے لیے منتخب کرتی رہی۔
ایک دن میںgymکی اسی خوبصورت عمارت میںداخل ہوئی جہاں بڑی بڑی خوبصورت کھڑکیوں میں سے جھانکتا لہراتا ہوا جنگل نظر آتا ہے تو میں نے گویے بابے کو ایک مشین پر اپنے ترنم کے آہنگ پر مصروف دیکھا۔
آج بابے کی ساتھ والی مشین پر بابے کی ہم عمر خوبصورت چمکدار نیلی آنکھوں والی خاتون مصروف تھی ۔
گویّا بابا جس طرح لہک کر اُسے گیت سنا رہا تھا میں نے اندازہ لگایا کہ یہ خاتون بابے کا ایک حسین رشتہ ہوں گی۔ بابے کی آواز کی ہم آہنگ آواز ہوگی خوبصورت بات میں شریک ہوگی ۔ لیکن اس دن بابے کے ترنم میں ایک نئے سر کی گونج تھی۔ شاید یہ خاتون بابے کی گہری دوست تھیں۔ جس کے ساتھ اس نے اپنے خواب اپنے آدر ش shareکیے ہوں کبھی دونوں کسی واقعے کو یاد کرتے اور ہنس دیتے ۔ کبھی بابا اسے گاکے بتا رہا ہوتا کہ یہ گیت اس نے کہیں گایا تو لوگ بہت مست ہو کر اسے سن رہے تھے ۔ بابا خاتون کی فرمائشیں بھی پوری کررہا تھا ۔میں نے سوچا کہ یہ یقینا اپنی جوانی میں سنے اور گائے گیتوں کو سن رہے ہیں اور یہ خوبصورت مترنم گیت اُنہیں اپنے وہ تجربات یاد دلارہے ہیں جنہیں یہ دوبارہ تجربے میں لانا چاہ رہے ہیں ۔اُن دونوں میںعجب سی ہم آہنگی تھی۔
آواز کی خوبصورتی، گیتوں کے بول اور دونوں کی شاندار ہم آہنگی نے اس دن gymکے ماحول کو زندگی کی تازگی سے بھر دیا۔ زندہ تازگی کی مہک لوبان کی طرح ہر طرف پھیل گئی ۔ میں بھی اُن دونوں کی قریب ہی مشین پر مصروف تھی۔ لیکن اُس دن مجھے محسوس ہوا میں بادل کا ایک گالہ بن کر آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں لہرا رہی ہوں ۔ وقت بہت خوبصورتی سے بہہ رہا تھا ۔
میرے کانوں نے یک دم اس خاتون کا ایک جملہ سنا۔ وہ گلوگار اور رقاص اور زندگی سے لبالب بھرے بابے سے پوچھ رہی تھی کہ ”تم اپنے جنازے پر کون سی دُھن بجوانا پسند کروگے؟
کھڑکی سے باہر خزاں کے حسین رنگوں سے مرصع و مزین جنگل ہوا میں لہرا رہا تھا۔ بے شمار خوبصورت رنگوں کے پتے دھیرے دھیرے زمین پر گر رہے تھے ۔جنگل پر خزاں کے سوگ جیسی کوئی کیفیت نہ تھی۔ خزاں کے اس موسم میںکسی اختتام کا احساس نہیں تھا ۔ رنگوں کی بہار تھی اور خزاں بھی بہار جیسی ہی تھی۔
گویّا بابا خاموش تھا۔ شاید کسی ایسی دھن میں گائے گیت کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بج تو اس کے جنازے پر رہا ہو لیکن داستان اَس کی زندگی کی سنائے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*