سدرہ سحر عمران کی شاعری

پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض کے بعد تو جیسے عجیب سی کیفیت رہی گویا ایک جمود سا طاری تھا۔ پھر ایک نام زبان زدِعام ہوا۔پوچھا گیا ؟کیاتم نے سدرہ سحر عمران کو پڑھا؟ ۔۔نام تک نہیں سنا تھا۔سو ان سنا کردیا۔کہ ہم تو پروین شاکر کے مخملیں اور کومل لفظوں اورمحبت بھرے شکوے شکایتوں، رومان پرورنظموں کے پیچھے تتلیوں کی طرح بھاگتے،ان کی خوشبو کو سینت سینت کر رکھتے ۔اپنی شاعرانہ حسیت کو تقویت پہنچاتے، اداجعفری،زہرہ نگاہ، شبنم شکیل کی جذبات اور سماجی تلخیوں سے بھری ہوئی آوازوں سے نکلتے کشور ناہید ، عذرا عباس ، سارہ شگفتہ اور فہمیدہ ریاض پر جاٹھہرے تھے۔ ۔یعنی شاعری کا حال بھی
ہم نے بھی عمر کی طرح کئی مرحلے کاٹے
جیسا تھا۔بات وہیں تک دبی رہتی لیکن ایک بارپھر دوران گفتگو صدا آئی” تم نے سدرہ سحر عمران کو پڑھا؟“ ہم نے بڑی سی” نا” میں سر کو ہلاتے ہوے کچھ تعجب سے پوچھا کہ ”یہ کون ہیں“ تو استہزایہ ہنسی کے ساتھ فرمانے لگے ” اگر سدرہ کو نہیں پڑھا تو کیا پڑھا۔۔ بہت غضب لکھتی ہے۔۔۔۔دو کتابیں ” موت کی ریہر سل” اور ”ہم گناہ کا استعارہ ہیں”کے نام سے چھپ چکی ہیں۔۔۔“
نام سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ واہ کافی الگ سے نام ہیں لگتا ہے بہت سنیسٹیو شاعری ہوگی ۔۔۔زبان غیر میں لکھا ہے اس نے خط مجھ کو والی مثال لگ رہی ہے مجھے۔۔۔۔
ارے نہیں بھئی ۔۔بہت کمال لکھتی ہے خیر ہم بھی ٹھہرے سدا کے جستجو میں رہنے والے۔سو فورا ہی نیٹ کنگھالنا شروع کر دیا سب سے
پہلے جو نظم پڑھی وہ تھی ” ڈیتھ سر ٹیفکیٹ پر لکھی ایک نظم “جس میں سدرہ کہتی ہیں۔

میں اس آدمی کی زبان
کاٹ دینا چاہتی ہوں
جس نے پہلی بار
پاو¿ں چاٹنے کی روایت قائم کی

میں اس لڑکی کے ہاتھ
قلم کرنا چاہتی ہوں
جس نے پہلی بار
ایک مرد کے پیروں کو چھوا

پہلی ہی نظم نے سماں باندھ دیا اورمزید کھوج میں نکلے تو ثابت ہوا وہ اپنے تخلص سحر کی طرح واقعی سحر رکھتی ہے ،اور دام میں آ تے گئے۔
شاعری سے شخصیت کی طرف دلچسپی بڑھی اور رابطہ ممکن ہو ا ۔اس مختصر عرصے میں جو کچھ جانا وہ بتاتے چلیں ۔
سدرہ سحر عمران 8 اگست 1986 کو کراچی میں ایک روایتی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔سدرہ سے بات چیت کے دوران معلوم ہو ا کہ ان کے والد صاحب جن کا نام چوہدری محمد عمران ہے۔ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔آباءو اجداد کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے ۔
والد صاحب کو اخبار بینی سے سخت رغبت رہی اسی لئے اخبار بچپن سے ہی گھر آتا تھا۔ اور شوق تو لکھنے پڑھنے کا تھا ہی سو دو آ تشہ ہو تا رہا۔ والد صاحب خود بھی شعر وشاعری سے شغف رکھتے تھے۔ اپنے پسندیدہ اشعار ایک ڈائری میں لکھا کرتے تھے جو اب سدرہ کے پاس ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ ایک بھاری اور دبنگ شخصیت رکھتے تھے ۔مزاج میں سختی لیکن طبیعت میں سادگی ۔ سدرہ کے بقول جب میں نے لکھنا شروع کیا تووالد صاحب نے کبھی کسی قسم کی مخالفت یا روک ٹوک نہیں کی البتہ والدہ کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا۔جنہیں عشقیہ ناولوں ، افسانوں اور شاعر ی سے سخت بیزاری تھی ۔اس لئے شروع میں کافی پابندیوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔لیکن اچھی بات یہ تھی کہ جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت لکھنے پڑھنے کی طلب پوری ہوتی رہی کیوں کہ پھپو اور تائی امی اخبا ر جہاں اور خواتین کے رسالوں کی بے حد شوقین تھیں۔ اور میں امی سے آنکھ بچا کر ایک ایک لفظ پڑھتی ۔ پھر لکھنے کا شوق کب کیسے بیدار ہوا ۔کچھ خبر نہیں۔ لیکن چھٹی جماعت سے باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلے پہل مختلف رسائل میں مراسلات، بچوں کی کہانیاں ، مضامین ، آرٹییکلز اور پھر افسانوں ، ناولو ں اور شاعری تک بات آ گئی۔
سدرہ کے تخلیقی شہ پارے کئی رسالوں اور اخبارات کی زینت بنے اور پھر شاعری کی طرف رجحان ہوا غزل اور آزاد نظم میں طبع آزمائی کی۔ شاعر ی کے لئے پلیٹ فارم کسی اشاعتی رسالے نے نہیں بلکہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے مہیا کیا۔2009میں فیس بک جوائن کی۔اور اس وقت سے شاعری کو سنجید گی سے لینا شروع کیا۔ گوکہ اس زمانے میں بحر، اوزان ، تقطیع کا علم نہیں تھا۔ بس قافیہ پیمائی کو غزل سمجھا جاتا۔لیکن جلد ہی اس کوتاہی سے نجات حاصل کی۔
سوشل میڈیا اس لحاظ سے موثر ہے کہ اس پر ہر تخلیق کا فوری رسپانس ملتاہے ۔گو کہ اس کا فائدہ بھی ہے نقصان بھی ۔مگر سدرہ نے اسے مثبت لیا کیونکہ بقول ان کے ”کوئی بھی شعر یا غزل پوسٹ کی جاتی تو زیادہ تر لوگ واہ واہ کے ڈونگرے برساتے۔ ایسا لگتا پائے کی شاعری ہو رہی ہے۔مگر ڈاکٹر ابرار عمراورفرحت عباس شاہ برابرغزلوں پر تنقید کرتے تھے۔ اور میںنے تعریف سے زیادہ تنقید کو سنجیدگی سے لیا۔ایک شاعر امین شیخ صاحب تھے انہوں نے وضاحت کی کہ غزل میں دو مختلف بحریں ہیں۔ ان کی تقطیع اس طرح ہوگی۔ تب بازار سے فوراً علم عروض کی دو کتابیں خریدیں اور بحور، اوزان وغیرہ سیکھے۔یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ضروری نہیں شاعر موزوں طبع ہی ہو۔ شاعری کا علم سیکھا بھی جا سکتاہے۔ اور سیکھنا چاہیے ۔بہت سی غزلیں، نظمیں کہیں ۔لیکن طبیعت میں جو بے چینی، بغاوت، سماجی حد بندیوں کے خلاف غم و غصہ ، مزاحمت اور ذہنی تکرار تھی ۔ غزل اس کے لئے ناکافی محسوس ہو ئی ۔ اور غزل ویسے بھی ملائم اور نازک جذبات، رومانوی فضا ، ردہم اور سوز کی متقاضی تھی ۔میرے اندر جو شو ر و غل تھا وہ چیخ پکار کرتا سو ایک پابندی سے عاری نظم کا راستہ چنا۔ تب نثری نظم کی اصطلاح سے واسطہ نہیں پڑا تھا مگر نظمیں ہوتی تھیں۔صبح شام ہوتی تھیں۔ اس قدر زود گوئی کہ بہت سوں نے ٹوکا۔ سمجھایا۔لیکن میں سمجھتی ہوں۔ ہر چیز کاعروج ہوتا ہے۔ تخلیق بھی ایک وقت زوروں پر ہوتی ہے۔ اس سے مستفید ہونا چاہئے نہ کہ گھبرا کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ جہاں تک خام ، خاص کی بات ہے وہ وقت خود ہی علیحدہ کردیتاہے“
سدر ہ مارچ 2015میں محمد وسیم چوہدری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ جو پیشے کے لحاظ سے فارماسسٹ ہیں۔ وسیم صاحب کے بارے میں بات کرتے ہوئے سدرہ نے بتایا کہ ”وسیم ایک متوازن سوچ کے حامل ، روشن ذہن رکھنے والے مرد ہیں۔ ان کی وجہ سے میری تخلیقی جوہر کو مزید جلا اور شوق کو پرواز ملی “
سدرہ کی نثری نظموں کی دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جو بہت مقبول ہیں بلکہ ان کی کتاب ” ہم گناہ کا استعارہ ہیں “ کا ہندی زبان میں ترجمہ معروف شاعرہ، کالم نگار اورمصنف فاطمہ تبسم نے کیا۔ بہت سی نظمیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو ئیں۔اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ میں ان کی نثری نظموں کی کتاب”موت کی ریہر سل ”کا انگریزی زبان میں ترجمہ Death ‘s Rehearsals کے نام سے شائع ہو اہے۔ جو محمد ازرم صاحب نے کیا ہے۔
سدرہ مسلسل اٹھارہ بیس سال سے لکھ رہی ہیں۔ اردو ادب میں تو ان کی پہچان مستحکم ہو چکی ہے مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے ڈرامہ رائٹنگ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوالیا ہے۔2017میں بطور اسکرپٹ رائٹر انہوں نے عمیرا احمد کے ساتھ ڈرامہ سیریل ”امرت اور مایا “سے آغاز کیا۔اور گزشتہ دنوں ان کا تحریر کردہ ڈرامہ سیریل ”جلن “نشر ہوا اور مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے۔اپنے نازک ، حساس اور کنٹر و ورشل موضوع کی بنیا د پر ڈرامہ پابندی کا شکار بھی ہوا۔ پیمرا نے نوٹس جاری کئے۔لیکن کڑی تنقید کے باوجود ڈرامے نے عوامی پذیرائی حاصل کی ۔اور سدرہ نے یہاں بھی ثابت کیاکہ وہ منجھی ہوئی شاعرہ کے ساتھ بہترین ڈرامہ نگاربھی ہیں۔ان دنوں وہ چینلز کے لئے مزید سکرپٹس لکھ رہی ہیں۔
ڈرامہ ہی نہیں سدرہ بحیثیت شاعرہ بھی بہت بے باک، دبنگ اور جذبات کی شدت سے معمور نظر آ تی ہیں۔ ان کی شاعری میں زبردست مزاحمتی رنگ اور کاٹ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں بعض موضوعات ایسے بھی ہیں جن پر گفتگو کرتے ہوئے اچھے اچھوں کو پسینہ چھوٹ جاتا ہے ۔
ماہنامہ ”سنگت ”کے لیے جب مری صاحب سے سدرہ پر لکھنے کی اجازت طلب کی تو وہ نہ صرف چونکے بلکہ فورًا کہا ” ارے بابا ! وہ تو بہت ظالم ہے۔ بہت غضب کالکھتی ہے ۔۔ہاں بالکل لکھو۔۔۔۔بس پھر تو جیسے میری مراد بر آئی۔
سدرہ کی تحریر ہمیشہ ہی اپنے اندر گہرائی اور ایسا کڑوا سچ رکھتی ہے جس سے زمانے بھر کے شرفاءمنہ چھپاتے پھرتے ہیں جب کہ سدرہ منہ پر بات کہہ دینے کا ہنر جانتی ہیں بلکل اسی طرح ڈرامہ سیریل جلن میں اس بات پر فوکس کیا گیا ۔ یوں کہیں کہ یہ میسج دیا گیا۔۔کہ،جلن یا حسد کس طرح رشتوں اور محبتوں کو کھا جاتا ہے بہر حال جہاں جلن پر لوگوں نے تنقید کی وہاں سدرہ کے مداحوں میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔
سدرہ سحر عمران سے جب ”عورت مارچ“ کے حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ” میں فیمنسٹ ہر گز نہیں ہوں ۔اور نہ ہی عورت اور مرد کی انسانی بنیاد پر تفریق کی قائل ہوں ہاں مگر جس کے جو حقوق قانوناً جائز ہیں۔جیسے کہ تعلیم و تربیت،وراثت، شادی وغیرہ میں اس کی رضامندی اور سماجی حیثیت مرد کے مساوی ہونی چاہیے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”میں عورت مارچ کو تحریک سمجھتی ہوں کوئی جنگی دستاویز نہیں جیسا کہ اسے بنا دیاگیا ہے ۔
کچھ عورت کے جائز مقام و مرتبے کے لیے کوشش کی جانی چاہیے نہ کہ مرد پر برتری مقصود ہو ۔
سدرہ کے خیالات تو آپ جان ہی چکے ہیں ان کی شاعری کی جھلک دیکھنے کے لئے ان کی چند نظمیں دیکھئے ۔

1
تم عورت سے باہر نہیں آ سکتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہا ری آ نکھیں سنبھال سکتی ہیں
دنیا بھر کی بے لبا سی
اور۔۔۔ تمہارے ہا تھ کی لکیریں منسوب ہو سکتی ہیں
فحش اشارے والی با لکو نیو ں سے
تم اپنے جسم کے مسئلے پر
خدا سے دوبا رہ مذاکرات کر سکتے ہو
کاش۔۔۔
ثواب کے معنو ں میں
کثرت سے استعمال ہو نے والے
مرد
ان جملو ں میں برتے جا سکیں
جن کی معنی خیزی نے
تمہاری آ نکھیں ٹیڑھی
اور۔۔۔ زبان لذت سے دو ہری کر دی ہے

2
ایک سفاک قہقہہ۔۔ (میں عورت ہوں)
۔۔۔
سیاہ ہاتھوں والا مزدور
دیہاڑی کی میز پر زہر پھونک رہا تھا
ایک عورت کے بھونکنے کی آواز آئی
مرد دُم ہلانے لگے
ننگی دیواروں کے بیچ
ماسٹر ایک بچی کو
اپنے جسم کی تختی پر
لفظ“عزت“لکھنا سکھارہا تھا
بچی ہنستے ہنستے کلہاڑی بن گئی
پان کی پیکوں سے بھری جھگیوں میں
بدن کے سکے کھنک رہے ہیں
لیکن روٹی ابھی بھی مہنگی ہے
بازارکو موت نہیں آتی
سارا سارا دن
ان عورتوں کے گریبان سے
جھولتا رہتا ہے
جو مردوں کو چیونگم کی طرح
چبا کر پھینک دیتی ہیں

اس قدر کاٹ ، جھنجھوڑ دینے کی حد تک سفاک سچائی نام نہاد شرفاءکے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔
سدرہ نے اس نظم ”ایک سفاک قہقہہ“ میں جس طرح عورت ذات کی بات کی ہے ۔اسے کاٹ کھانے والے، اسے نوچ کھانے والے، زمانے بھر کے وہ لوگ جو عورت کو محض تماشا کرنے والی ڈگڈگی سمجھتے ہیں ان کے لیے ایک سوال بھی ہے اور جواب بھی اور ایک پیغام بھی۔
سدرہ کی نظم میں عورت کی مظلومیت سے زیادہ اس پر ظلم کرنے والوں کے چہروں کی سیاہی نظر آتی ہے۔ سدرہ اُن پر لفظوں کے کوڑ ے برساتی ہے۔ اُن کے مصنوعی لباس ، ظاہری تہذیب، مکر و فریب اور ملمع کاری کو تار تار کرتی ہے۔
اس کی نظمیں عورت کی ازلی دہائیوں اور اس کے دکھ کے بین الاپتی شاعری سے ہٹ کر سوال کھڑے کرتی ہے۔ مانگے کی عزت کی دھجیاں اڑاتی ہے ۔ سدرہ کی شاعری پڑھتے ہوئے مسلسل احساس ہوتا ہے کہ وہ مستقل اپنی نظموں میں ایسے مردوں سے مخاطب ہے جو عورت کی توقیر اور اس کے وجود کی اہمیت سے منکر ہیں۔ ۔اس کی نظمیں جیسے بند کواڑوں پر پہلی دستک ہو ۔

سدرہ نظم اور غزل دونوں پرکمال مہارت رکھتی ہیں ۔
ان کی غزل کے چند اشعار

کچھ اس طرح سے زندگی تیری مثال دی
پیروں میں جتنی دھول تھی خود پر اچھال دی

یعنی کہ ہم نے ہجر کا ناحق سفر کیا
یعنی کہ ہم نے عمر خسارے میں ڈال دی

کتنی خوبصورتی سے شاعرہ نے ہجر میں اپنی تڑپ بیان کی اسی طرح سے سدرہ کا ایک شعر دیکھیے کہ

جب چاہا آوازیں پہنی اور جب چاہا خاموشی
ہونٹوں کی الماری میں ہر رنگ کا جوڑا رکھا ہے

سدرہ نے لفظوں کو نئے رنگ، نئے مفہوم عطا کئے ہیں اور انھیں فرسودہ معنی سے نکال لیاہے اس نے اپنے شعر میں آوازوں کو بولنے اور اختیار کرنے کی بجائے آوازیں پہن کر نیا رنگ اختیار کیا ۔آوازیں اور خاموشی پہننا۔۔۔ایک نیا اسلوب ہے۔ اسی طرح ہونٹوں کو لفظوں کی ادائیگی کے لیے مصلحت کی الماری سے تشبیہ دے کر ایک انتہائی منفرد ڈھنگ دکھایا ۔

سدرہ کا ایک اور شعر بھی اسی طرح ہے کہ

وقت ملے تو گلدستے کا ہاتھ پکڑ کر آجانا
ورنہ کہنا کام بہت ہیں آنے میں دشواری ہے
کیا کمال انفرادیت ہے ۔پرانے اور فرسودہ انداز کو ترک کرتے ہوے سدرہ سحر عمران نے موثر اور جدیدانداز اپنایا ہے۔واقعی وہ جو لکھتی ہے۔ پر اثر لکھتی ہے

تمہارے شہر میں رسمیں ہیں گھر بنانے کی
ہمارے شہر میں سب آستیں میں رہتے ہیں

سدرہ کی شاعری ان گنت مسائل، زمینی حقائق سے جڑی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ کوئی خلائی باتیں، ماورائی کہانیاں یا آسمانی قصے نہیں ہیں۔ یہ زمین کی شاعری ہے ۔ زمین والوں کے لئے ہے۔ ان کا اندازِ بیاں اس قدر سیدھا ، شفاف اور مسحورکن ہے کہ پڑھنے والا اس کے جادو میں گم ہو جاتا ہے۔دوسری اہم بات جو سدرہ کی شاعری کا خاصہ ہے وہ ہے جدید، معنی خیزاور خوب صورت تشبیہات اور استعاروں کا استعمال جو ہر ہر نظم کا حصہ ہے۔
مجھے سدرہ کی شاعری دورِحاضر میں اس دئیے کی مثال لگتی ہے جو اندھیرے میں زندگی کی علامت ہے۔جو دکھ میں حوصلے کی علامت ہے،اور جو رات کے بعد ایک خوبصورت سحرکی طرح زمین پر طلوع ہوتی ہے فِکر کی بلندی عبور کرنے والی ۔میںسدرہ سحر عمران کی نظموں میں عورت کے دکھ کا حقیقی چہرہ دیکھتی ہوں جو اس عہد میں سانس تو لیتی ہے مگر اپنی تکلیف اور بے بسی کولفظوں کا لباس نہیں دے سکتی۔اسے آج بھی بولنے کی اجازت نہیں۔مگر وہ بولنا جان گئی ہے۔
یہ نظم دیکھئے

مہنگی جنگ اور مفت کی عورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا دل بھر گیا تو
میری چادر کے سوراخوں پر
اپنے جوتے رکھ دینا
میں تمہارے پیر کے نیچے
ایک میخ کی طرح زندہ ہوں
تمہارا درد بدنامیوں سے ڈرتا ہے
میں اپنے لباس کی دھجیوں سے
آزادی کے پرندے بناتی ہوں
تمہاری مٹھیوں میں میرے بالوں کی کنجیاں ہیں
تمہاری ازار بند جیسی زبانیں
کھل گئیں تو
سرحد ایک نیوڈ پینٹنگ میں بدل جائے گی

ناچو
میری قمیض کے اسٹیج پر
بھونکو
میرے جسم کی ہڈیوں پر
تالیوں سے اپنے رخسار پیٹ لو
بندوقوں کے ساتھ ہم بستری کرنے والو
تمہاری ہنسی کے پاٹ میں
میری آنکھیں پس گئیں
اگر ایک بھی بھنبھوڑا ہوا کرتا
کسی دریا میں گیا
تو پانی اپنا گریبان پھاڑ لے گا
کنویں الٹ جائیں گے
مجھ پر عصر کا وقت آنے سے پہلے
اپنے بدن کے جغرافیے درست کرلو
وگرنہ۔۔۔
عورت تمہاری نامردی کی آگ سے
نئے دوزخ کی بنیاد رکھے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے وطن عورت جو ہمیشہ سے حالتِ جنگ میں ہے۔ اس کے دکھ عام عورت سے کہیں زیادہ ہیں۔سدرہ نے اس کرب کو کیسے محسوس کیا ہے۔ ذرا دیکھیے ۔

بے وطن عورت کا مارچ(1)

کوئی رنگ سفیدی کے علاوہ؟
پانی۔۔آنسوو¿ں کے سوا
سرخی۔۔۔لہو سے الگ تھلگ

چوڑیاں۔۔۔جن میں بیڑیوں سی کھنک نہ ہو
پازیبیں۔۔جن کی صورت زنجیروں سے علیحدہ
ایک آزادی میرے کاجل کے لیے
ایک نعرہ میری زندگی کے لیے
ایک دیوار ایسی ہو
جس پر میری مرضی کی سانسیں ٹنگی ہوں
کوئی ایسی زمین
جس پرمیں اپنی مرضی کا وقت کاشت کرسکوں
میرے لیے کوئی بینر
جس پر میرے وطن کا نقشہ ہو
کوئی سڑک
جو میرے ملک کو جاتی ہو
اور راستے میں کوئی قبرستان نہ پڑے

بے وطن عورت کا مارچ(2)

میرے بیٹے
کچھ دیر کے لیے
کیا تو مرنا موخر نہیں کرسکتا تھا
کُرتے کا آخری بٹن ٹانکنا باقی تھا
ایسی بھی کیا ناراضی
تو بغیر بٹنوں والا ان سلا لباس پہن کر آگیا
ارے اس میں تو کوئی جیب بھی نہیں ہے
میں یہ چاروں قل والا تعویذ کہاں رکھوں

تیری حفاظت کے لیے جو پانی دم کیا تھا
تیرا باپ بالٹی میں انڈیل کر لے گیا
بیری کے پتے
اور وہ تختہ
جس پر بیٹھ کر تو آزادی کے نعرے لکھا کرتا تھا
میرے لعل
ذرا ٹھہر میں طاق میں سے عطر اٹھالاو¿ں
یہ کافور بھی کوئی لگانے کی چیز ہے
دیکھ باورچی خانے میں چولہا جل رہا ہے
کہیں میری سانسیں تو نہیں جل رہیں
یہ میرا دوپٹہ بھیگتا کیوں جارہا ہے
میرے چاند
تیرے ماتھے پر سرخ پھول کھلا ہوا ہے
مجھے اس کی خوشبو سونگھنے دے

بے وطن عورت کا مارچ(3)

مٹی خارش کی طرح
میرے جسم سے چمٹی ہوئی ہے
آزادی کی سرخ چیونٹیاں
میری آنکھوں میں بل بناتے ہوئے
آٹے کی بوریوں پر نعرے لکھتی ہیں
“ایک عورت کے بدلے،وطن کی ایک اینٹ”
نہیں،نہیں
وطن عورتوں کامتبادل نہیں ہوتے

عورتیں تو غنیمت کی لاٹھیوں سے ہانک کر
کتوں کی شکار گاہ میں لائی جاتی ہیں
اور بدن سونگھنے والے
مٹی کو کھجلی میں بدل دیتے ہیں
دوسری عورتوں کو
سورہ نور والے مر د ملتے ہیں
اور ہمیں
خارش زدہ کتے.

نظموں کے کچھ حصے ملا حظہ کیجئے
۔۔
ہماری نیند چند ساعتوں پر محیط ہے
آنکھ لگنے سے پہلے ہی کھل جاتی ہے
اس لیے خواب کی چادر سے پا¶ں باہر نہیں نکل پاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عذابناک بارشوں کے بعد
زمین پتھروں سے بھرگئی
اور لوگ منہدم ہونے لگے
۔۔۔۔۔
میں ایسی مٹی کا حاصل ہوں
جو چٹانیں اُدھیڑ کر ناخنوں میں جمع کی گئی
اور جہنم کی آگ پر پکائی گئی
مجھے چاک پہ رکھنے سے پہلے
تیری انگلیوں نے زبان کھولی
اور سارے گناہ میرے پوروں پہ رکھ دیے
۔۔۔۔۔
باجرہ بھیگ رہا تھا
اور چڑیا مجھے بے بسی سے دیکھ رہی تھی
۔۔۔
ہم زندگی کی دیوار میں ٹھونکے گئے
وہ کیل ہیں
جن پر کبھی کوئی تصویر ٹانگی گئی
نہ کوئی فن پارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیواریں ہمیں اجنبی سمجھ کر چپ ہیں
مگر کھڑکیاں غصہ اُتارے بغیر نہیں رہ سکتیں
۔۔۔
اس کی ایک بہت ہی مختصرنظم ملاحظہ ہو:
اگر بتی کی ایک رسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے شہر میں
پھول۔۔۔۔
بہت سستے ہیں
اسی لئے تو
قبروں سے
باس نہیں آتی

تو طے یہ ہوا کہ سدرہ سحر عمران کے لیے یہ کہنا کہ وہ آئی،اس نے دیکھا اور فتح کرلیا والی مثال انھیں کے لیے ہی بنی تھی۔شاعری اور افسانہ نگاری سے لے کر ڈرامہ رائٹر ہونے تک وہ نہ صرف دلوں کو مسخر کرلینے کا ہنر جانتی ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ بے زبان لوگوں کی ترجمان بھی ہے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*