جام دُرَّک

کہنے کو تو ‘جام دُرک اٹھارویں صدی کے نصف ِآخر کا نامور شاعر تھا ۔مگرسچی بات یہ ہے کہ اُس اٹھارویں صدی سے لے کر آج تک اُس قامت کاکوئی دوسرا شاعر بلوچی زبان میں اُترا ہی نہیں۔ جوبھی شاعر بعد میں آیا ، جام کے چرن چوم کر ہی آیا۔ مست سے رحم علی تک اور گل خان سے عطا شاد تک سب کا بپتسمہ جام کے حوض کے پاک پانی سے ہی ہوا۔یوں اُسے بلوچی زبان کے شاعروں کے عمومی باباکا درجہ حاصل ہے ۔
جام دُرک اٹھارویں صدی کا شاعر تھا۔ یعنی اُسے تین صدیاں گزر گئیں۔مگر آج بھی عوام الناس سینوں میں محفوظ اِس بڑے شاعر کا بہت چاہت سے تذکرہ کرتے ہیں ۔ ہل چلاتا ہوا کسان اُسے صبح صادق میں بہت گداز بہت خوش الحان گارہا ہوتا ہے ، وقفہ اُسی وقت دیتا ہے جب اُسے اپنے بیل کو دائیں یا بائیں پھرنے کی کمانڈ دیناہوتا ہے ۔ پہاڑ پہ مال چراتا تنہا چرواہا فراق کے قرنوں طویل لمحات کو قتل کردینے کی خواہش میں جام ہی کو گا رہا ہوتا ہے ۔ اونٹوں کے کاروان کا ساربان ہو یا میڈیکل کا طالب علم ، دورساہیوال جیل میں پڑاکوئی نوشکی کا سیاسی قید ی ہو یاکسی دفتر کا اکاﺅنٹنٹ۔۔۔۔ جام ہرعمر اور ہر سماجی پڑاﺅ کا مقبول ومحبوب شاعر ہے ۔
جام کا زمانہ وہ تھا جب خانہ بدوشی والا بلوچ ،اب کھیتی باڑی والا بلوچ بھی بن رہا تھا۔ اور اس کی زبان ،لہجہ، استعارہ اور محاورہ آہستہ آہستہ ارتقا کر تے جارہے تھے ۔ وہ الفاظ و محاورے جو خانہ بدوشی معیشت کے لازمی جزو تھے ، اب ناکافی ناکافی لگ رہے تھے ۔کچھ نئے الفاظ اُس کے ذخیرے میں شامل ہورہے تھے۔ ایسی اصطلاحات اُس کی چرواہی بول چال میں گھس رہی تھیںجو کھیتی باڑی سے متعلق تھیں۔
شاعری کی صنف بھی ساتھ ساتھ بدل رہی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں جام درک کی شاعری ،پندرھویںصدی کی بلوچ کلاسیکل شاعری سے مختلف نظر آتی ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں تو یہ فرق صاف نظر آئے گا۔ آپ کو لگے گا کہ جام درک کی شاعری کا سماجی معاشی اور سیاسی ماحول نسبتاً بدلا ہواہے ۔ بلوچ سرقبیلوی نظام میں رہتے ہوئے زمیند اری اور جاگیر داری میںداخل ہورہے تھے ۔ سماج اور اس کے تقاضے بدل رہے تھے ۔ شاعری کارنگ ڈھنگ بھی بدلنے لگا ۔بلوچی زبان و ادب نے اب فعال انداز میں پڑوسی زبانوں سے لین دین شروع کردی تھی ۔ ایک غنی شعری پس منظر کے ساتھ جام درک کی شاعری میں ہمیں زرعی معیشت والی غنا ئیت زیادہ ملتی ہے ۔ اب تغزل بھری رومانیت کارنگ نمایاں ہے ۔ جام کی تشبیہات اور اشعار اِسی نئے ماحول کے زیر اثر ہیں ۔ زرعی زندگی مویشی بانی کی زندگی کی نسبت کلچر ل سرگرمی کے لےے زیادہ موزونیت رکھتی ہے۔
جام بلوچی شاعری کا سب سے پہلا شاعر نہیں ہے ۔ اُس سے قبل کی پندرھویں اور سولہویں صدی کی بلوچی شاعری بہت تابناک اور پرکشش رہی ہے ۔ یوں،ہم بہت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ جام ایک مقبول اور بھر پور بلوچی شاعری کے مضبوط فرش پر کھڑا تھا۔ اُس کی پشت پر بلوچی ادب کا جو شاندار ، سربلندا و رباوقارپہاڑ کھڑا تھا، اُس پہ رزمیہ رنگ بھاری رہا تھا ۔ محبت کی بات تو یقینا موجود تھی کہ اس کے بغیر زندگی چلتی نہیں۔ اُس شاعری میں نیچر کی تعریف بھی موجود تھی۔ مگر اُس میں نسبتاً shivalryزیادہ ہے ۔ وہ بہادری اور جواں مردی کے تذکروں میں ملفوف دلکش ودلپذیر شاعری تھی۔
جام درک کے زمانے میں بلوچ کے پیداواری ذرائع بدل رہے تھے ۔ اس لیے وہ پندرھویں سولہویں صدیوں والے پس منظر میں نہیںرنگتا بلکہ نئے پیداواری رشتے اُسے اپنی ایک جداطرز بنانے پر لگاتے ہیں۔ میدانی علاقے کے پر امن زمانے میں وہ رزمیہ نہیں بلکہ رومانی شاعری کرتا ہے۔ محبت اور محبت کے گداز سے بھرپور شاعری ۔
ایسا نہیں ہے کہ اُس سے قبل کی بلوچ کلاسیکی شاعری موسیقیت سے خالی تھی ۔ ایسا کہنا سمجھنا بہت زیادتی ہوگی ۔ البتہ وہ موسیقیت رزم و دھما دھم والی تھی۔ تلوار،جنگی گھوڑوں کے ہنہنانے اور ٹاپوں سے دھرتی دَہلادینے والی اُس موسیقی بھری شاعری کا اپنا ذائقہ اور لطف ہوتا تھا۔جام کی شاعری کی موسیقیت اب سیٹی ،بگل، نعرہ ہائے دادو تحسین اور شمشیر و ڈھال موسیقیت کے پس منظر والی نہیں رہی۔
مگر شاعری کی یہ ارتقائی تاریخ اپنے اپنے معاشی سماجی ادوار کی ترجمانی کرنے کے باوجود ہمیں ایک تسلسل بخشتی ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی قدیم تاریخ میں پھلانگ اور پھاند نہ تھے ، ایک تسلسل تھی ۔باریک بات یہ ہے کہ بہت زمانے قبل شہ مریذ نے اپنی سولہویں صدی کے رپورتاژ میں اگلے سماجی دور کے استعمال کے لےے غیر محسوس طور پر بہت کچھ رکھ دیا تھا، فارم میں بھی، کانٹنٹ میں بھی۔ اورہمیں ایک تسلسل سالگتا ہے سولہویں صدی کے مریذ، اور اٹھا رویں صدی کے جام ،میں۔ جام ددُرک نے اپنے سے اگلے والے سماجی معاشی دور کے دانشوروں شاعروں کے پیر مضبوط سیڑھیوں پہ رکھنے کے کچھ اینٹیں رکھ دی تھیں۔ اور اسی وجہ سے انیسویں صدی کے مست ، اور بیسویں صدی کے گل خان وعطا کسی قولنجی درد والے جھٹکے سے اس لیے بچ کر ”اپنے “ زمانے کی شاعری کرتے گئے ۔ دانشور اگلے سماجی سیاسی عہد کے اپنے بیٹے بیٹی شاعروں دانشوروں کے لیے فکری توشہ ضرور دے جاتے ہیں۔ اور یہ بہت حسین، مقدس ا ورمعتبر تسلسل ہوتا ہے !!۔
جام درک کا دور وہ ہے جب نصیرخان نوری (سن وفات 1796) کی حکومت تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچستان کا بہت بڑا حصہ نسبتاًنوری نصیر خان کی مرکزی حکومت کے تحت آیا ہوا تھا ۔ شہری اور نیم شہری مرکز ،اور دربار کی موجودگی میں ثقافت کے سارے پہلو ترقی کرتے جا رہے تھے ۔ قلات اور ڈھاڈر گرما و سرما کے دارالحکومت ہوا کرتے تھے۔ جام ہیجان وفوج کشیوں والے کلات سے بہت دور ڈھاڈر میں رہتا ہے ۔ جو ایک سِوِک سنٹر ہے ۔اُس سماجی مرکز میں باقاعدہ بازار ہیں ، خرید و فروخت ہے ، منڈی ہے ،منڈی تک رسائی کے راستے ہیں ، اور اُن راستوں پہ قافلے رواں دواں ہیں۔ اور جام کی شاعری اُس سماجی مرکز میں رہنے والے شاعر کی شاعری ہے ۔ اس کے عہد کا بلوچ سماج اب خانہ بدوشی میں غلطان و غرقاں نہیں ہے جہاں کبھی کبھی ضروریات ِ زیست کی خریداری کے لےے ایک آدھ بار اِس سماجی مرکز کو تیزی تیزی سے چھو کر واپس اپنے کوہستان جاتا ہے۔ڈھاڈر اس مرکز کا نام ہے جہاں جام رہتا ہے۔ جہاں جام کی ممدوحہ محبوبہ شاپنگ (نیا لفظ ہے ناں!)کر رہی ہے ۔ جی ہاں! اُس کی شاعری بتاتی ہے کہ اٹھارویں صدی میں بلوچستان واقعی ایک ترقی یافتہ معاشرہ ہوا کرتا تھا۔
اب عشقیہ شاعری حجم میں بڑھتی بھی جارہی تھی اور لطافت و نازک خیالی میں بھی لطیف بنتی جارہی تھی ۔ ظاہر ہے اِس دور (اور بعد کے سارے ادوار ) میں اِس عشقیہ شاعری کا سرکردہ شخص جام دُرک تھا ۔اب ہم ڈیمز کا حوالہ دیں یا نہ دیں ہر بلوچ جانتا ہے کہ جام ہی اُس زمانے کا ملک الشعرا تھا۔ اور آنے والے سارے ملوک الشعراءکا بھی ملک وہی رہے گا۔
جام ڈومبکی قبیلے سے تھا۔ یہ دلچسپ ہے کہ بعد میں ایک اور بہت ہی اچھا شاعر ”پہلوان “ بھی ڈومبکی قبیلے میں پیدا ہوا ۔
اب اُس کا نام خواہ جام تھا یا دُرک‘ دونوں اس کی اپنی شاعری میں استعمال ہو چکے ہیں۔مگر جام تو اچھا خاصا موجود ہے اُس کی شاعری میں ۔جس طرح کہ آپ مست تﺅکلی کے نام میں الگ سے تﺅکلی استعمال نہیں کرتے۔ اسی طرح جام درک نے اپنی شاعری میں صرف درک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اب بھی ہم تﺅکلی یا دُرّک الگ سے نہیں کہتے ۔ بے حرمتی ہوگی ایسا کہنے سے ۔ ہم یا تو پورا نام لیں گے یا پھر صرف ”جام“ بولیں گے ۔ اور جیسے مست کافی ہے اسی طرح جام کافی ہے ۔
جام بلوچوں میں شاندار اور نامی گرامی آدمی کو بھی کہتے ہیں۔ جواں مرد کو،جوانِ رعنا کو۔ مثلاً بالاچ کی داستان کا مصرع دیکھئے :
دودا گوں جامیں اومرا

یا‘ بیورغ کی محبوبہ کہتی ہے:
بیورغ ایں منی جا میں یار

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*