شاعر انور شعور

آج 11اپریل کو انور شعور کی سالگرہ ہے۔ وہ 1943میں سیونی، مدھیہ پردیش میںپیدا ہوئے۔
خدا کا شکر‘ سہارے بغیر بیت گئی
ہماری عمر تمہارے بغیر بیت گئی
وہ زندگی جو گزارے نہیںگزرتی تھی
تِرے طفیل گزارے بغیر بیت گئی
انور شعور کی شاعری سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے۔ان کے اشعار میںزبان و بیان کی سادگی کے ساتھ ساتھ وہ روانی ہے جو پڑھنے والے کو شاعری کی رو میں بہا لے جاتی ہے۔ اس روانی میںکوئی بھاری ترکیب یا وزنی لفظ حائل نہیںہوتا۔ ان کا ڈکشن خالص اردو کا ڈکشن ہے۔ ہر عہد کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ان کو لکھتے ہوئے اس عہد کے مزاج سے قریب ترین اظہار اس وقت ممکن ہے جب لکھنے والے کو بدلتے وقت کا ادراک ہو اور وہ اس کلچرل تبدیلی کو محسوس کر رہاہو جو اس صدی میںتبدیل ہو گیا۔ ہمارے عہد کے ایک اہم نقاد ضمیر علی کہتے ہیںکہ ”یہ ماننا پڑے گا اس عہد کا paradigmتبدیل ہو گیا ہے۔
نقاد پیراڈیم کی تبدیلی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ضمیر علی نے اس تبدیلی کی نشان دہی کرکے ان لکھنے والوںکے مطالعے کے ایک ایسے رخ کی طرف اشارہ کیا ہے جو تبدیلی کے اثرات سامنے لا رہاہے۔ کیونکہ جتنے بھی ادبی اور تہذیبی مسائل ہیں ان پر paradigmکی تبدیلی اثر انداز ہوتی ہے۔
انور شعور کے لہجے کی انفرادیت ان کے ڈکشن کا تنوع اور شاعری میں خالصتاً شہری زندگی (highly ubanization) سوسائٹی کے تضادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اپنے عہد کے مسائل سے دوچار ہیں اور نہ صرف دوچار ہیں بلکہ اس کے اظہار کے لیے وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو ان مسائل کیلئے موزوں بھی ہے اور مستعمل بھی۔ انور شعور نے جو کچھ لکھا ہے اپنا لکھا ہے کسی سے کچھ مستعار نہیں لیا۔
تکرار کی ہے تو اپنی ہی کی ہے تردید کی ہے تو اپنی ہی کی ہے۔ انہوں نے فرار کا راستہ تو چنا مگر سمجھوتوں سے گریز کیا ہے۔ اپنے رویوں میں بھی اور اظہار میں بھی۔ ان کی غزلیں مسلسل کیفیت رکھتی ہیں اس طرح وہ اپنی غزلوں کو نظموں کے قریب لے گئے ہیں۔
انور شعور کے مطالعے میںجس بات نے مجھے متاثر کیا وہ یہ ہے کہ ہم جو فنکار کی انا اور تخلیق کار کی خودپسندی کی حد سے بڑھی ہوئی سفاکیوں کا اظہار ان کے کلام میںدیکھتے رہتے ہیں۔ جب انور شعور کا کلام پڑھتے ہیں تو ان کے ہاںاپنی ذات کی نفی اور دوسروںکے لئے وہ احترام نظر آتا ہے جو ان کی تمام تر تلخ گوئی پر غالب ہے۔
لکھی ہے بندگی میںسر بلندی
ملو ہر آدمی سے سر جھکا کے
دھوکا کریں‘ فریب کریں یا دغا کریں
ہم کاش دوسروں پہ نہ تہمت دھرا کریں
انور شعور نے ساری تہمتیں اپنے آپ پر دھری ہیں، مگر بات یہاںختم نہیںہوتی، یہ ساری تہمتیں ایک خاص انسان نے بڑھ کر خود قبول کر لی ہیں زہر کے اس پیالے کی طرح جو اسے تھما دیا گیا ہو۔

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*