پابلو نرودا کی نظم

تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
گر سفر نہیں کرتے
گر مطالعہ نہیں کرتے
گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے
گر خود کو نہیں سراہتے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب خود توقیری کو قتل کر تے ہو
جب دوسروں کو اجازت نہی دیتے
کہ وہ تمھاری مدد کر سکیں
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب اپنی عادتوں کے اسیر بن جاتے ہو
ہر روز لگے بندھے راستوں پر چلتے رہتے ہو
اگر اپنے معمولات نہیں بدلتے
اگر مختلف رنگ نہیں پہنتے
اگر اجنبیوں سے باتیں نہیں کرتے
تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو
جب عشق سے
اور اس کی ہنگامہ خیزیوں سے
جان چھڑاتے ہو
اور ان سے بھی جنھیں دیکھ کر
تمہاری انکھیں
روشنی سے دمک اٹھتی ہیں
دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں
تم دھیرے سے مر جاو ¿ گے
اگر خطرہ مول نہ لو گے
یہ جاننے کو
کہ نامعلوم کتنا محفوظ ہے
اگر خوابوں کی تلاش میں نہ نکلو گے
زندگی میں کم ازکم ایک بار
منطق سے نہ بھاگو گے
خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دینا
خوش رہنا نہیں بھولنا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*